تبدیلی اور مک مکا


1977ء میں پاکستان قومی اتحاد کا احتجاج اپنے زوروں پر تھا، خان عبدالولی خان اور نیپ کی قیادت حیدرآباد سازش کیس میں جیل میں تھی، حکومت کی طرف سے مذاکرات کی دعوت پر پاکستان قومی اتحاد کے لیڈر مولانا مُفتی محمود کی قیادت میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے مِلے اور پہلی شرط خان عبدالولی خان کو رہا کرنے کی رکھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ مُجھے تو کوئی اعتراض نہیں لیکن فوج نہیں مانتی اگر آپ کو میری بات پر یقین نہیں تو میں آپ کی مُلاقات آرمی چیف سے کروا دیتا ہوں۔

اگلی ملا قا ت میں آرمی چیف جنرل ضیاء الحق اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل غلام جیلانی کو بر یفنگ کے لئے بُلایا گیا۔ جنرل ضیاءالحق نے پاکستان قومی اتحاد کے لیڈروں کو بتایا کہ ہمارے پاس ثبوت ہیں کہ خان عبدالولی خان ملک توڑنا چاہتےہیں۔ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل غلام جیلانی نے مختلف چارٹوں کی مدد سے بریفنگ دی کہ نیپ کو کہاں سے فنڈز اور اسلحہ ملتا ہے۔ مُلاقات کے اختتام پر آرمی چیف جنرل ضیاءالحق نے مولانا مفتی محمود کو کہا کہ آپ تو بہت محبِ وطن ہیں مُجھے آپ سے یہ امید نہ تھی کہ آپ ایک غدار کی رہائی کا مطالبہ کریں گے۔

اس کے بعد وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو اور خان عبدالولی خان کے تعلقات کبھی بھی نارمل نہ ہوسکے اور جولائی 1977 میں مارشل لاء نافذ کرکے بھٹو صاحب کی حکومت ختم کردی گئئی۔ مارشل لاء کے نفاذ کے بعد جنرل ضیاءالحق نےسب سے پہلے حید ر آباد ٹر یبونل کو ختم کیا، خان عبدالولی خان پر تما م مقدمات واپس لے کر اُنہیں اور تمام سا تھیوں کو رہا کر دیا۔ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل غلام جیلانی کو بعد میں گورنر پنجاب مقر ر کر د یا گیا۔

نومبر 1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی سندھ میں بہت بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو سندھ کے نامورسیاستدان اور پارٹی کے ر ہنما جام صادق کو ا ن کی پارٹی کے لئے خدمات کے عو ض وزیر اعلی بنا نا چا ہتی تھیں۔ اس و قت آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گُل محترمہ بے ںظیر بھٹو کے پاس پہچے اور اُن کو کہا کہ جام صادق کو وزیراعلی نہ بنایا جائے کیونکہ یہ تو بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ایجینٹ ہیں۔ یہ بھارت کے مختلف دورے کرتے رہے ہیں اور بمبئی کے اشوکا ہوٹل میں فر ضی نام سے ٹھر تے رہے ہیں۔ محترمہ نے دباو میں آ کرجام صادق کو وزیراعلی نہ بنایا اور اس طرح دونوں کے تعلقات خراب ہوگئے۔

6 اگست 1990 کو محترمہ کی حکومت ختم کرنے کے بعد اسی دن ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے جام صادق کو نگران وزیراعلی اور الیکشن کے بعد مستقل وزیراعلی سندھ بنایا ا و ر پی پی پی نہ صرف سندھ میں ا لیکشن ہاری بلکہ جا د م صا دق کے زیر عتا ب بھی رہی۔

1993 میں پیپلز پارٹی کی وفاق اور سندھ میں حکومت قائم ہوئی تو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بتایا گیا کہ ایم کیو ایم کراچی میں بھارت کی مد د سے دہشت گردی کر رہی ہے اور عدلیہ ان دہشت گردوں سے نمٹنے میں ناکام ہے۔ چناںچے ان دہشت گردوں کوختم کرنے کے لئے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی مر ضی ا ور ہدایات کے تحت جعلی پولیس مقا بلو ں کا سہا را لیا گیا اور ایم کیو ایم کے سینکڑوں ورکروں کو ماروائے عدالت مقابلوں میں ہلاک کیا گیا۔ کشید گی اتنی بڑ ہی کہ ایم کیو ایم کے دہشت گردوں نے سندھ کے وزیراعلی عبداللہ شاہ کے بھائی ا حسان علی شاہ کو ہلاک کر دیا۔ رد عمل میں الطاف حسین کے بھائی اور بھتیجے کو پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا اور حکومت اور ایم کیو ایم کے تعلقات نہایت کشیدہ رہے۔

نومبر 1996میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت بر خا ست کر کے پہلا الزام ان پر سینکڑوں جعلی پولیس مقابلوں اور ماروائے عدالت قتل کا لگایا گیا۔ ۔ اس معاملے کو جب سپریم کورٹ میں اٹھایا گیا تو سپریم کورٹ نے ان تمام الزامات کو د رست قرار دیتے ہوئے اسمبلی کی تحلیل کو جا ئز قرار دے دیا۔

فروری 1999 کو بھارتی وزیراعظم واجپائی پاکستانی دورے پر آئے اور لاہور اعلانیہ پر دستخط ہوئے۔ ابھی اس اعلانیہ کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کی پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل مشرف نے وزیر اعظم سے پوچھے بغیر کارگل پر فوجیں بھیج دیں۔

مئی 1999 میں کارگل پر کھلی جنگ شروع ہو گئی۔ بھارت اپنی افواج کی مد د کے لئے بو فورس توپیں لے آیا اور زمین سے یہ جد ید تو پیں گو لہ با ری کر ر ہی تھیں تو آ سما ن سے بھا ر تی فضا ئیہ آگ بر سا ر ہی تھی۔ پاکستان اپنی فضا ئیہ کے ا ستعما ل یا فو ج کی کھلے عا م مد د کر نے سے قا صر تھا کیونکہ حکومتی مو قف تھا کہ یہ تو مجاہدین ہیں۔ اپنے اسی مو قف کے با عث حکومت پاکستان کارگل پر شہید ہونے والے اپنے جوانوں اور افسروں کی لا شیں بھی وصول نہیں کر رہی تھی۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ اس با ت سے لگایا جا سکتا ہی کہ جب نادرن لائیٹ انفنٹری کے شہید ہونے والے فوجیوں کے لواحقین نے لا شوں کی وصولی کے لئے احتجا جی مظاہرہ کیا تو انتظامیہ کو آنسو گیس اور لا ٹھی چارج کا استعمال کرنا پڑا۔

جب پاکستان کا فوجی نقصان کافی بڑھ گیا توفوجی افسران اور جنرل مشرف نے وزیر اعظم سے درخواست کی کہ کسی طرح بین الاقوامی برادری کو ملوث کر کے اس مسلۂ سے جان چھڑائی جائے۔ وزیر اعظم نواز شریف جولائی 1999 میں امریکہ پہنچے اور بل کلنٹن سے مل کر با عزت واپسی کی راہ تلاش کی۔ اس گفتگو کے دوران یہ ہقینی بنایا گیا کہ کارگل سے پاکستانی فوجیوں کی واپسی کے دوران بھارتی فضائیہ کا استعمال نہیں ہوگا تاکہ پاکستانی فوجوں کا جانی نقصان نہ ہو۔

جب تمام افواج کا انخلاء مکمل ہوگیا تو اکتوبر 1999 میں ایک جمہوری حکومت کا تختہ آلٹ کر الزام لگایا ک جنگ کے دوران کشمیر کی آزادی صرف چند قدم کے فاصلے پر تھی مگر وزیر اعظم نے امریکہ کے دباؤ میں آکر افواج کو واپس بلا لیا۔

اسٹیبلشمنٹ کی ان تمام چالوں کو دیکھتے ہوئے ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے لندن میں ء4 مئی 2006 کو میثاق جمہوریت پر دستخط کیے اور طے پایا کہ دونوں جماعتیں آئندہ کسی فوجی سازش کا حصہ نہیں بنیں گی اور ایک۔ دوسرے کے مینڈنیٹ کا احترام کرتے ہوئے ایک جمہوری ملک کے لئے جدوجہد کریں گی۔

اس معاہدے کا اثر یہ ہوا کہ فوجی اشرفیہ نے اپنا ایک نیا مہرہ سیاسی میدان میں لانے کی تیاری شروع کر دی۔ کچھ عرصہ بعد تبدیلی کے نعرے کے ساتھ اس سیاست دان نے ان دو جمہوری جماعتوں کی نہ صرف تذلیل شروع کی بلکہ ان دونوں کے درمیان ہونے والے معاہدے کو مک مکا کا نام دیا اور یہ تضحیک آمیز لفظ زبان زد عام ہوگیا۔

آج بھی غیر جمہوری قوتوں کے ترجمان صحافی اور اینکر اس معاہدے کوحقارت سے مک مکا کا نام دیتے ہیں۔ یہ معاہدہ کوئی مک مکا نہیں تھا بلکہ دو بڑی جماعتوں کے چالیس سال کی سیاست کا تجربہ تھا کہ کس طرح سیاستدانوں کو غلط مشورے دے کر اورآپس میں لڑوا کر غیر جمہوری قوتیں فا ئدہ اٹھاتی ہیں۔

اب جبکہ تبدیلی کےدعوی دار خود اقتدار میں آ چکے ہیں امید ہے کہ کچھ سالوں کے بعد اپنے ساتھ ہونے والے دھرے کھیل کے نتیجہ میں ملک کی ان سیاسی جماعتوں کے ساتھ کھڑے ہو کر ایک نیا میثاق جمہوریت کر رہے ہوں گے مگر سانحہ یہ ہوگا کی اس وقت تک فوجی تجربہ گاہ میں تیا رشدہ کوئی اور نیا مہرہ خوش کن نعرے کے ساتھ میدان میں آچکا ہوگا۔ بہتری کی متلاشی قوم آس کے جلسوں میں گانوں و نغموں کی دھنوں پر ناچ رہی ہو گی اور سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔

ناصر شفیق
Latest posts by ناصر شفیق (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).