نئے پاکستان کے پہلے سات دن۔۔


نئے پاکستان کے پہلے سات دن یوں گزرے کہ اگلے دنوں کی تصویر نظر آنے لگی۔ جناب عمران خان نے 18 اگست کی صبح اپنے عہدے کا حلف اٹھایا اور سات دنوں میں حکمران جماعت نے ایسے بلنڈر کئے جو پہلے کبھی سات مہینوں میں بھی نہیں ہو سکے۔ خان صاحب نے حلف اٹھانے کے بعد ایوان وزیراعظم پہنچتے ہی پوچھا کہ میاں نواز شریف کے ایوان وزیراعظم میں اخراجات کتنے رہے، اس پر جو جواب ملا، اس پر کھسیانی بلیاں ابھی تک کھمبا نوچ رہی ہیں۔ کابینہ کا پہلا اجلاس ہوا تو جیل میں بند سیاسی مخالف باپ اور بیٹی کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈال دئیے گئے۔

نیب حکومت کے ساتھ مکمل کوارڈی نیشن میں ہے اور اس نے میاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی ضمانت کی اپیلوں پر تاخیری حربے استعمال کرنا شروع کر دئیے،  پھر اسے عدالت کی طرف سے باقاعدہ جرمانہ ہوا۔ سیالکوٹ میں مسلم لیگ ن کے کارکن عمرا ن کو پی ٹی آئی کے حامیوں نے بدترین تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے قتل کر دیا کہ اس نے عام انتخابات میں تحریک انصاف کی حمایت نہیں کی تھی۔ راولپنڈی میں مسلم لیگ ن کے ان کارکنوں کو گرفتار کیا گیا جو میاں نواز شریف کی گاڑی پر گل پاشی کرنا چاہتے تھے، ایف آئی آر کے مطابق مجرموں سے پھولوں کی پتیوں سے بھرے شاپر برآمد کر کے انہیں جیل بھیج دیا گیا۔

حکومت بنتے ہی رسمی اور غیر رسمی اجلاسوں میں بھارت میں سرمایہ کاری کرنے والے برطانوی سرمایہ کار انیل مسرت تسلسل سے نظر آئے۔ تقریب حلف برداری میں متعدد بھارتیوں کو دعوت دی گئی۔ دس مرتبہ رابطے کے بعد ایک بھارتی کرکٹر نوجوت سدھو نے شرکت کی۔ جب بھارت لائن آف کنٹرول پر جارحیت کر رہا تھا اور مقبوضہ کشمیر میں معصوموں کو شہید کیا جا رہا تھا تو نومنتخب وزیراعظم ٹوئیٹر پر بھارتی کرکٹر کا مقدمہ لڑ رہے تھے۔ کیرالہ میں سیلاب پر مدد کی پیش کش کر رہے تھے۔ وہ پہلے سربراہ حکومت ہوئے جن کے منہ سے بھارتی فوج کے ہاتھوں بارڈر اور مقبوضہ کشمیر میں شہادتوں پر ایک لفظ نہیں نکلا جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے یہاں تک کہہ دیا کہ کلبھوشن کیس میں کبھی نہیں کہا کہ ہم جیتیں گے حالانکہ اس جماعت کا کلبھوشن ایشو پر موقف کچھ اور رہا ہے۔

بھارتی وزیراعظم کے مبارکبادی کے رسمی خط کی غلط تشریح کی گئی اور امریکا کے سیکرٹری آف سٹیٹ کے ساتھ گفتگو کوایک بڑا تنازع بنا لیا گیا جو سفارتی سطح پر شرمندگی کا باعث بن رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر تصویریں شئیر کی جا رہی تھیں کہ اہم ممالک کے سفیروں کو صرف چائے کا کپ پیش کیا جا رہا ہے مگر دوسری طرف سینکڑوں افراد کے لئے ایوان وزیراعظم میں عین اس وقت درجنوں ڈشوں پر مشتمل سرکاری ڈنر کا اہتمام کیا جا رہا تھا جب وہ اپنی پہلی تقریر میں سادگی اور بچت کا درس دے رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ صرف دو ملازم اور دو گاڑیاں رکھیں گے مگر بنی گالہ سے ایوان وزیراعظم تک آنے جانے کے لئے ہیلی کاپٹر استعمال ہو رہا ہے۔

جناب فواد چودھری نے کہا کہ وزیراعظم خصوصی طیارہ استعمال نہیں کریں گے۔ کمرشل فلائیٹ میں فرسٹ کلاس کی بجائے بزنس کلاس میں سفر کریں گے مگر سامنے آیا کہ پاکستان ائیر لائن میں تو فرسٹ کلاس ہے ہی نہیں، اکانومی سے بہتر بزنس کلاس ہے۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ اگر وزیراعظم کو کسی ایسے ملک جانا پڑا جس کی ڈائریکٹ فلائیٹ نہ ہوئی تو کیا وہ پانچ، پانچ اور دس، دس گھنٹے مختلف ائیرپورٹوں پر کنیکٹنگ فلائیٹ کے لئے خوار ہوتے پھریں گے؟

پہلی تقریر میں مدینہ کی ریاست کی اتنی تکرار ہوئی کہ اسلامی اقدار ہی حکمرانی کا معیار لگنے لگیں۔ یوں لگا کہ جناب عمران خان اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لئے ایک اور ضیاءالحق ثابت ہونے جا رہے ہیں مگرجب حلف اٹھایا تھا تو روز قیامت اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم جیسے الفاظ بھی ادا نہ ہو سکے، روز قیامت کو روز قیادت کہہ دیا یعنی اپنی قومی زبان تک نہ پڑھ سکے۔ مذہب کو سیاست کا حصہ نہیں ہونا چاہئے مگر جب مذہب پر سیاست ہوئی تو ختم نبوت کے متنازع معاملے میں مسلم لیگ ن کی ذمہ دار خاتون وزیر انوشہ رحمان تو ٹکٹ سے محروم ہو گئیں مگر عدالتی تحقیقات میں ذمہ دار قرار پانے والے شفقت محمود کو وفاقی وزیر تعلیم بنا دیا گیا۔

میرٹ اور قانون کا دعوی تین دن میں ہی ہوا ہو گیا جب ایک شہنشاہ بن کے شوکت خانم کے بورڈ آف گورنرز کے رکن احسان مانی کو چئیرمین پی سی بی لگانے کا حکم جاری کر دیا حالانکہ اس طرح تقرریوں کو ماضی کے ایک ٹوئیٹ میں کرکٹ کی تباہی قرار دے چکے ہیں۔

ایک کروڑ نوکریاں دینے کا منشور دینے کے بعد پہلی ہی تقریر میں وزیراعظم ہاوس کے پانچ سو سے زائد ملازمین نکالنے کا اعلان کردیا اور جب اس اعلان کے’بودے پن‘ کا علم ہوا تو یوٹرن لے لیا گیا۔ ایوان وزیراعظم میں نہ رہنے کا بھی اعلان کیا مگر پنجاب ہاوس اور منسٹر انکلیو سے ہوتے ہوئے پرائم منسٹر ہاوس میں ہی پہنچ گئے۔

صوابدیدی فنڈز کے خاتمے کا اعلان کیا تو علم ہوا کہ یہ اعلان تو نواز شریف تین برس پہلے کر چکے ہیں، قرآن پاک کی تعلیم کو نصاب کا حصہ بنانے کا اعلان کیا گیا تو سامنے آیا کہ یہ فیصلہ گذشتہ برس 9 جون کو سابق وفاقی وزیر تعلیم بلیغ الرحمان کر چکے ہیں۔ ایف بی آر ٹھیک کرنے کا اعلان بجا مگر اس سے خود وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے ادا کردہ انکم ٹیکس، آمدن، اخراجات اور اثاثے ایک ٹیسٹ کیس بنتے ہیں۔

 تاثر دیا گیا کہ بیوروکریسی کو نکیل ڈالی جا رہی ہے اور سول بیوروکریٹس سے سہولیات چھینی جا رہی ہیں، اندازہ ہو ا کہ پی ٹی آئی کے فیصلہ ساز گورننس کے سیٹ اپ میں صلاحیت کے تیزی سے بڑھتے ہوے فقدان سے آگاہ نہیں، پاکستان کا ٹیلٹڈ یوتھ پہلے ہی سرکاری شعبے کی بجائے کارپوریٹ سیکٹر کا رخ کر رہا ہے جہاں تنخواہیں دو سے دس گنا تک زیادہ ہیں۔

ملک کی گورننس کا اصل مسئلہ بیوروکریسی سے زیادہ جعلی مینڈیٹ ہیں جن کا حکمران خود ایک شاہکار ہیں۔  یہ امر بھی دلچسپ رہا کہ آر ٹی ایس کی ناکامی کی تحقیقات ناکامی سے فیض یاب ہونے والوں نے کیں اور ملبہ اس افسر پر ڈال دیا جس سے حکمرانوں کی ناراضی عیاں ہے۔ ہفتے کی چھٹی ختم کرنے کا اعلان کیا مگر نہیں کر سکے۔ دفتری اوقات کار صبح نو بجے سے پانچ بجے کر دئیے جبکہ سردیاں آتے ہی سورج پانچ بجے غروب ہو گا اور یوں سرکاری ملازمین اندھیرا ہونے پر ہی گھر واپس لوٹیں گے۔

ان سات دنوں میں عمران خان صاحب کی طرف سے ماضی میں کئے ہوئے اعلان کے مطابق گورنر ہاوس نہیں ٹوٹے بلکہ سندھ کا گورنر یعنی وہاں کی تئیس یونیورسٹیوں کا چانسلر ایک ایف اے پاس ہونے کے دعوے دار کو لگا دیا گیا جو نہ صرف پی ایچ ڈی سطح کی ڈگریاں جاری کرے گا بلکہ جامعات کے اعلیٰ تعلیم یافتہ وائس چانسلروں کے اجلاس کی بھی صدارت کرے گا۔

ان سات دنوں میں پنجاب کا وزیراعلی بزدار قبیلے کے اس سردار کو بنایا گیا جس کے والد تین مرتبہ ایم پی اے رہے، وہ خود دو مرتبہ تحصیل ناظم رہا، قاف لیگ سے نون لیگ اور پھر وہاں سے الیکشن سے عین پہلے پی ٹی آئی کا سفر طے کیا مگر اپنے علاقے میں سڑک، بجلی اور پانی تک نہ لے جا سکے،  ان الزام ہے کہ چھ قتلوں میں ملوث رہے اور دیت دے کر رہا ہوئے۔  بلوچستان کے وزیراعلیٰ بھی سابق دور تک نواز لیگ میں رہے اور خیبرپختونخوا کے وزیراعلی پانچ برس پہلے تک پیپلزپارٹی کا حصہ تھے جن پر صوابدیدی فنڈز اپنے اکاونٹ میں منتقل کروانے کا الزام ہے۔ یوں حکومت سازی کے ان سات دنوں میں پی ٹی آئی کے وہ کارکن اور رہنما منہ تکتے رہ گئے جو بائیس برس سے ساتھ جدوجہد کرنے کے دعوے دار ہیں۔

اسی طرح کابینہ بنی توسوال ہوا کہ کیا یہ پرویزمشرف کی حکومت قائم ہوئی ہے یا عمران خان کی، کہ مشرفی کابینہ کے ارکان کی بھرمار میں تحریک انصاف کے پرانے رہنماوں کی تعداد ایک چوتھائی کے لگ بھگ رہی، اس سے قبل یوٹرن لیتے ہوئے ایم کیو ایم سے اتحاد کیا گیا،  سیاسی لوٹوں کو جہاز بھیج بھیج کے خریدا گیا۔

پہلا ہفتہ گزر گیا مگر خارجہ پالیسی پر کوئی حکمت عملی سامنے نہیں آئی، دہشت گردی کو قابو میں رکھنے کے لئے کوئی پالیسی نظر نہیں آئی، لوڈ شیڈنگ کے جن کو قابو میں رکھنے کا کیا طریقہ ہو گا، کچھ پتا نہیں چلا۔ برسوں بعد عید پر بھی لوڈ شیڈنگ ہوئی اور برسوں سے صاف ستھرا نظر آنے والا شہر گندگی سے بھی بھر گیا، ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر کیسے بنیں گے؟ کوئی جواب نہیں ملا۔ یہ سات دن ہمیں بتا رہے ہیں کہ جتنی بھی باقی مدت ہے، وہ کیسی گزرے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).