عمران خان کا بخشا سیاسی شعور اور پل صراط



عمران خان صاحب یوتھ کے” نعروں” ، پنکی پیرنی کے “استخاروں” اور کچھ “خاص دوستوں” کے “اوزاروں” کی مدد سے نہ صرف الیکشن جیتنے میں کامیاب ہو گئے بلکہ بائیس سالہ دیرینہ خواہش “وزارت عظمیٰ” کی کرسی پہ بھی براجمان ہو گئے ہیں۔اب خان صاحب اس مقام پہ پہنچ کر اس مقام کی باریک بینییوں سے کس طرح پیش آتے ہیں اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔خان صاحب کی حکومتی کارکردگی پہ تو ہم نے کچھ عرصہ کے لئے خاموش رہنے کا عزم کیا ہوا ہے اس لئے فی الحال حکومت سے پہلے کی خان صاحب کی سیاسی کارکردگی پہ بات کرنے کی جسارت کرنے لگا ہوں خدا خیر کرے۔

علمائے کرام سے سن رکھا ہے کہ مرنے کے بعد ایک مقام”پل صراط” سے گزر ہو گا جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہوگا جونہی قدموں میں ہلکی سی لرزش لڑکھڑاہٹ آئی بندہ دھڑام سے جہنم کے اندر ۔بلکل اسی طرح اس عارضی دنیا میں بھی ایک “سیاسی پل صراط”عمران خان صاحب کے چہیتے ووٹرز نے بنا رکھا ہے (جن کو خان صاحب ماضی میں “میرا ووٹر ابھی چھوٹا ہے”کے نام سے پکارتے تھے ).آپ چاہے صحافت کی اعلیٰ مقام پہ فائز ہوں یا کسی چھوٹے مقام پہ مگر جونہی آپ کا پاؤں یوتھ کے بنائے اس “سیاسی پل صراط”سے تھوڑا پھسلا آپ دھڑام سے گڑھے کے اندر۔

اس نوجوان اور ابھرتے ووٹر نے اپنا ایک الگ سا معیار بنا رکھا ہے جس میں آپ غلطی سے بھی عمران خان صاحب سے اختلاف نہیں کر سکتے اگر چہ آپ رؤف کلاسرا اور ارشد شریف کی طرح پانچ سال خان صاحب کی تعریف کرنے میں ہی گزار چکے ہوں مگر جیسے ہی خان صاحب سے سوال کریں گے ان کی پالیسوں سے اختلاف کریں گے آپ کی پچھلی پانچ سالہ کارکردگی کو صفر مانا جائے گا آپ کا سوال کرنا یا خان صاحب سے اختلاف کرنا نہ صرف آپ کو “لفافہ”جیسا عظیم لقب ملنے کا باعث بن چکا ہو گا بلکہ خان صاحب کا سوشل میڈیائی چھوٹا ووٹر آپ کی ایسی کلاس لے گا کہ آپ کم از کم ایک ہفتے تک سوشل میڈیا سے پرہیز ہی کو عافیت سمجھیں گے۔

عمران خان صاحب ہماری نظر میں ایک اچھے کرکٹر تھے اور اب پاکستان کے وزیراعظم ہیں۔ درمیان کا سفر لوگ ان کا سیاسی کیریر بتاتے ہیں مگر اپنا من ہے کہ اس حقیقت کو ماننے سے انکاری ہے۔ 1996 سے شروع کیا گیا یہ سیاسی سفر ہم کو کبھی سیاسی لگا ہی نہیں تھا نہ 2002 کے الیکشن میں نہ 2008 کے الیکشن میں پھر اچانک خان صاحب 2011 میں لاہور میں سیاسی لیڈر کے طور پہ ابھرے اور خان صاحب کا ننھا ووٹر بلوغت کی سیڑھیاں پھلانگتا ہوا خان کے بخشے سیاسی شعور کا پر چار کرتا نظر آیا اور معاشرے اور سیاست میں ایسا طوفان امنڈ آیا ہے جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ کبھی اس طوفان کی زد میں کوئی صحافی آ رہا ہے تو کبھی کوئی استاد نشانہ بن رہا ہے۔ کبھی کوئی ماں ذلیل ہو رہی ہے اور کبھی کوئی باپ۔ غرض معاشرے میں ہر سطح پہ تبدیلی کے نام سے ایسا کچھ سننے کو مل رہا ہے جو کبھی ماضی میں سنا نہ نظر آیا۔
خان صاحب کے حامی اس کو خان صاحب کا بخشا سیاسی شعور مانتے ہیں جب کہ ہماری نظر میں خان صاحب سے زیادہ سوشل میڈیا کا کمال ہے کہ ہماری یوتھ اتنی بڑی تعداد میں ملکی سیاست کا حصہ بن گئی ہے البتہ خان صاحب نے 2011 کے بعد نوجوان نسل کو متوجہ ضرور کیا ہے ۔خان صاحب خود بھی ایام جوانی میں سنا ہے اسی طرح انتہائی بولڈ ہوا کرتے تھے جیسے آج ان کے ننھے ووٹرز ہیں۔ ویسے خان صاحب نے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد پارلیمنٹ فلور پہ کینٹینر والے انداز میں سیاسی مخالفین کو جس طرح للکارا ہے، ننھا ووٹر اسی للکار کو کامیابی کے ضمانت سمجھ بیٹھا ہے۔ خان صاحب شاید بھول رہے ہیں کہ عشق کے امتحاں میں ایک خاص مقام مٹی کو چھو کے سونا بنانے کا ہنر سبھی عاشقوں کو آتا ہے مگر ایک مقررہ وقت کے بعد یہ ہنر ختم ہو جاتا ہے اور انسان خود بھی خاک ہو جاتا ہے کیونکہ یہاں! چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں۔

خدا خیر کرے اب میں ننھے ووٹرز کی نظر سے بچ جاؤں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).