حجرہ شاہ مقیم: جگنو محسن نے رضا علی گیلانی کو کیسے ہرایا؟


عام انتخابات 2018 اپنے اختتام کو پہنچے ہیں ۔ عمران خان کی پاکستان تحریکِ انصاف ملک کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔انتخابات میں دھاندلی ہوئی یا نہیں ہوئی اس چیز سے قطع نظر اس انتخابات میں بہت سے نئے ریکارڈ دیکھنے میں آئے ، انتخابی سیاست کے بہت سے تیس مار خان اپنے گھر کی نشست سے شکست کھا گئے جن میں مولانا فضل الرحمٰن، اسفند یار ولی ، فاروق ستار ، مصطفٰی کمال، سید یوسف رضا گیلانی، شاہد خاقان عباسی، محمود خان اچکزئی اور چوہدری نثار علی خان قابلِ ذکر ہیں۔
ان سب حضرات کے علاوہ ایک ہستی ایسی بھی ہیں جنہوں نے انتخابی تاریخ میں پہلی بار شکست کا مزہ چکھا۔ وہ ہستی سابق صوبائی وزیر ہائیر ایجو کیشن سید رضا علی گیلانی ہیں۔ ان کا انتخابی حلقہ پی پی 184 ہے جہاں اس بار انہیں معروف ٹی وی اینکر اور اور سا بق چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ نجم سیٹھی کی اہلیہ جگنو محسن کرمانی نے شکست دی۔ اس انتخاب میں دونوں امیدوار آزاد حیثیت سے میدان میں اترے تھے۔
یہ انتخابی حلقہ ضلع اوکاڑہ کی میونسپل کمیٹی حجرہ شاہ مقیم میں آتا ہے ۔ یہ وہی حجرہ شاہ مقیم ہے جہاں گزشتہ برس سیوریج کے ناقص انتظامات ہونے کی وجہ سے ایک جنازہ گندے پانی سے ڈوبی ہوئی گلی سے گزارا گیا تھا جس پر بعد ازاں چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے نوٹس بھی لیا تھا۔عام انتخابات 2002 سے قبل ہونے والی حلقہ بندیوں کے مطابق اس حلقہ کا نمبر پی پی 187 تھا جو حجرہ شاہ مقیم اور اس سے ملحقہ دیہات پر مشتمل تھا۔ اگر اس حلقہ کی انتخابی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو اس میں عام انتخابات 1985 سے لے کر عام انتخابات 2013 تک یہاں گیلانی خاندان کا راج رہا ہے۔ عام انتخابات 1985 میں یہاں سے سابق صوبائی وزیر سید رضا علی گیلانی کے والد سید افضال علی گیلانی نے کامیابی حاصل کی ۔ وہ اُس انتخاب میں پنجاب میں سب سے زیادہ مارجن سے جیتنے والے ایم پی اے کے طور پر سامنے آئے تھے۔ انہوں نے یہ انتخاب تقریباً 42 ہزار ووٹوں کی بر تری سے جیتا تھا۔اس کے بعد انہوں نے 1988 سے لے کر 1997 تک مسلسل چار انتخابات میں کامیابی حاصل کی ۔ اس دوران وہ صوبائی وزیرِ صحت، صوبائی وزیر برائے سوشل ویلفیئر اور صوبائی وزیر ہاؤسنگ اینڈ فزیکل پلاننگ کے عہدوں پر فائز رہے۔مشرف دور میں ہونے والے 2001 کے بلدیاتی انتخابات میں سید افضال شاہ گیلانی نے ضلع ناظم کے انتخاب میں حصہ لیا اور انہیں شکست ہوئی ، دلچسب بات یہ ہے کہ ضلع ناظم کے اس انتخاب میں انہیں شکست دینے والے کوئی اور نہیں بلکہ جگنو محسن کرمانی کے چچا سید سجاد حیدر کرمانی تھے۔اس شکست کے بعد سید افضال علی گیلانی نے انتخابی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور اپنے بیٹے رضا علی گیلانی کو اپنا سیاسی جانشین مقرر کیا۔سید رضا علی گیلانی باالترتیب 2013 ,2008,2002 کے عام انتخابات میں ناقابلِ شکست رہے۔ انہوں نے صوبائی وزیر ہاؤسنگ اینڈ فزیکل پلاننگ اور صوبائی وزیر ہائیر ایجو کیشن کے طور پر بھی خدمات سرانجام دیں۔


اس حلقہ کی انتخابی سیاست میں جگنو محسن کی انٹری ان کے چچا سید سجاد حیدر کرمانی کی وفات کے بعد ہوئی۔ جگنو محسن نے عملی طور پر سیاست کا آغاز 2015 میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں المحسن گروپ تشکیل دے کر کیا۔اس دوران وہ سماجی سرگرمیوں میں پیش پیش رہیں جس سے انہیں حلقہ میں اپنی سیاسی بنیادیں استوار کرنے میں بہت مدد ملی۔ 2018 کے عام انتخابات سے قبل ایک بار پھر نئے سرے سے حلقہ بندیاں کی گئیں اور اس حلقہ کا نمبر تبدیل کر کے 184 مقرر کر دیا گیا۔ حلقہ نمبر کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ اس حلقہ کی حدود اور علاقوں کی تقسیم میں بھی بڑے پیمانے پر تبدیلی کی گئی جس کا براہ راست فائدہ جگنو محسن کو ہوا کیونکہ تبدیل شدہ حلقے میں جگنو محسن کا آبائی علاقہ شیر گڑھ اور اس سے ملحقہ دیہات جو پرانی حلقہ بندیوں کے مطابق اس حلقہ میں نہیں تھے اس میں شامل کر دئیے گئے اس کے برعکس حجرہ شاہ مقیم سے منسلک دیہات جن میں گیلانی خاندان کا اچھا خاصا ووٹ بنک تھا اس حلقہ سے منہا کر دیئے گئے۔
اس کے علاوہ ان عام انتخابات میں جگنو محسن کی انتخابی مہم انتہائی متا ثر کن تھی جو خالصتاً عوامی مسائل پر مبنی تھی۔ ا نہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران عوامی انداز اپنا یا اور ڈور ٹو ڈور کیمپین کی جس کی وجہ سے انہیں بہت پذیرائی ملی۔ اپنی انتخابی تقریروں اور کارنر میٹنگز کے دوران انہوں نے ہمیشہ حلقہ میں موجود عوامی مسائل کی بات کی جس میں صحت ، تعلیم ، سیوریج اور کھیلوں کی سہولیات کے مسائل سر فہرست ہیں۔ دوسری طرف گیلانی صاحبان کی انتخابی مہم نہ ہونے کے برابر تھی جس کی وجہ شائد ان کا پچھلے 32 سال سے ناقابلِ شکست رہنے کا زعم ہو سکتا ہے۔ انہوں نے نہ تو عوامی سطح پر اپنی انتخابی مہم چلائی اور نہ ہی حلقہ میں غیر معمولی طور پر متحرک نظر آئے۔ انتخابات سے قبل اپنی ایک تقریر میں بھی رضا علی گیلانی نے حلقہ میں موجود عوامی مسائل اور ان کے حل پر روشنی ڈالنے کی بجائے عوام کو ایک روایتی پیر کی طرح جذباتی کرنا شروع کر دیا کہ ’’ حجرے دی پگ حجرہ دے پیر تے ای سوہنی لگدی اے نہ کہ کسی زنانی تیـ‘‘ ( حجرہ کی پگڑی حجرہ کے پیر پر ہی جچتی ہے نہ کہ کسی خاتون پر) ۔اسی طرح دورانِ اقتدا ربھی انہوں نے عوامی مسائل کو حل کرنے کی کوئی کا وش نہیں کی جس کی جیتی جاگتی مثال گندے پانی سے گزر کر جناز گاہ کی طرف لے جا یا جانے والا وہ جنازہ ہے جس کی تصویر ایک عرصہ سوشل میڈیا پر سپرہٹ رہی۔ حالانکہ بلدیاتی انتخابات میں چیئرمین میونسپل کمیٹی حجرہ شاہ مقیم منتخب ہونے والی شخصیت بھی گیلانی خاندن سے تعلق رکھتی ہیں یہ شخصیت سابق صوبائی وزیر سید رضا علی گیلانی کے سگے پھوپھا سیدذوالفقارحیدر گیلانی ہیں۔ فنڈز کی دستیابی اور صوبائی وزیر کی پشت پناہی کے باجود چیئرمین میونسپل کمیٹی کا سیوریج کے مسائل کو حل نہ کرنا ان کے عوامی مسائل سے غافل ہونے کی دلالت کرتا ہے۔
حجرہ شاہ مقیم کی انتخابی تاریخ میں تقریباً بتیس سال بعد گیلانی خاندان کے امیدوار کا ایک خاتون امیدوار سے شکست کھانا عمران خان صاحب کے مشہور جملے ’’تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آ گئی ہے‘‘ کی عکاسی کرتا ہے۔ امید ہے کہ محترمہ جگنو محسن الیکشن مہم کے دوران اپنے کئے ہوئے عوامی وعدوں پر پورا اتریں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).