عمران خان کے خلاف جادو ٹونے کا استعمال


کیا کتابیں زندگی بدل دیتی ہیں۔ ہماری روزمرہ زندگی میں بہت سارے کام ہم کتابوں کے مطابق کرتے ہیں۔ پاکستان کا دستور ہرپاکستانی کے لیے اہم اور اس کو قانونی اور اصولی تحفظ مہیا کرتا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے اس دستور کو سب سے زیادہ ہمارے حکمران نظر انداز کرتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں انتخابات کے بعد حکمرانوں کی تبدیلی ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کے کپتان عمران خان نے اپنی 22 سالہ ریاضت کے نتیجہ میں پونے دو کروڑ ووٹ لے کر پاکستان پر حکمرانی کے حق دارٹھہرے۔

عمران خان جواَب وزیراعظم پاکستان ہیں، وہ بھی صاحب قلم ہیں اور صاحب کتاب بھی۔ سابق وزیراعظم کتابوں سے دور ہی رہتے تھے اور ان کے برادر سابق صوبیدار پنجاب کو عہد حاضر کے عوامی شاعر حبیب جالب کے کچھ شعر یاد تھے اور ان کا بھرپور پرچار بھی کرتے۔ ان کے خاندان کے لوگ اس جالب تعلق پر ان سے خوش بھی نہیں تھے۔ ابھی چنددن پہلے کسی نے وزیراعظم پاکستان عمران خان سے پوچھا آپ آج کل کیا پڑھ رہے ہیں۔ یاد رہے ابھی عمران خان نے حلف نہیں اٹھایا تھا۔ پڑھنے والی کتاب کا نام تھا Why Nations Fail۔ جس کو دو مصنفوں نے لکھا ہے۔ ان میں ایک امریکی اور دوسرا برطانوی ہے۔ کتاب ترکی، امریکہ معاشی معاملات کے تناظر میں ہے۔

حیران کن بات ہے قومی اسمبلی کے فلور پر کبھی بھی کسی کتاب کا ذکر نہیں ہوا۔ عمران خان کے علاقے کے قرابت دار ڈاکٹر نور محمد اعوان جو حکومت پنجاب کے اعلیٰ سرکاری آفیسر ہیں انہوں نے ریاضی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی ہے۔ ابھی چند ہفتے پہلے ایک معروف پبلشنگ ہاؤس سنگ میل نے ان کی انگریزی میں ریاضی، الجبرہ اور اعداد کے حوالہ سے دو کتابیں شائع کی ہیں۔ ان کتابوں کے نام ہیں۔

1۔ Father of Algebra Mohahmad Bin Musa
2۔ Arithmetics and Numeral of Al Khawarizmi

ان کتابوں پر جنگ کے ادبی صفحہ پر جناب رؤف نے تبصرہ کیا ہے۔ مگر تبصرہ کافی تشنہ ہے۔ مجھے ان کتابوں کی علمی حیثیت کا اندازہ ہے۔ ہمارے ہاں ریاضی کا مضمون زیادہ پسندیدہ نہیں ہے اور ریاضی کے حوالہ سے پاکستانی مصنفوں کی کتاب ملتی بھی نہیں ہے۔ ان دو کتابوں کا اضافہ غنیمت ہے۔ کتابوں کا اسلوب آسان انگریزی میں ہے۔ اعدادوشمارکے حوالہ سے بھی رہنمائی ملتی ہے۔ یہ ذکر بھی اس لیے آیا کہ ہمارے ”جنگ“ کے ایک معروف کالم نویس نے عمران کو مشورہ دیا تھا کہ وہ حلف 18 اگست کی بجائے 19 اگست کو اٹھائیں۔

مجھے اپنے فاضل دوست کے مشورہ کے بارے میں حیرانی تھی کیونکہ پہلے خیال کیا جارہا تھا کہ حلف 14 اگست سے پہلے اٹھایا جاسکتا ہے اور 14 اگست کی وجہ سے وزیراعظم مدعو کرنا مقصود تھا مگر سیاسی پیچیدگیوں کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ اب سوال تھا 19 اگست کا مشورہ کس بنیاد پر دیا گیا۔ ہمارے کالم نویس کے مشورہ کے مطابق ایک صاحب علم و فکر نے اعداداور شخصیت کے حوالہ سے 19 اگست کو معتبر مانا تھا جبکہ 18 اگست کا فیصلہ بھی بہت سوچ بچار سے ہوا اور اس میں صاحب تصوف اور روحانی اسرار کے حوالہ سے رہنمائی تھی۔

18 اگست کے حوالہ سے عدد 9 بنتا ہے جبکہ 19 اگست کے حوالے سے عدد ایک بنتا ہے۔ ان معاملات میں کسی ایک عدد پر انحصار نہیں کیا جاسکتا اور اعداد کے علاوہ کئی اور حوالہ جات بھی زندگی کے معاملات میں رہنمائی کرتے ہیں۔ عمران خان کے حوالہ سے ان کی کامیابی میں ان کی بیوی بشریٰ بی بی کا بھی بہت ہاتھ ہے اور ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ کسی بھی کامیاب شخص کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ میاں بیوی کے رشتے کے حوالہ سے اللہ تعالیٰ دونوں کے رزق اور کامیابی کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ قسمت کا تمام معاملے انسانوں کی رسائی سے عموماً ماورا ہوتے ہیں۔

پاکستانی انتخابات کی تاریخ25جولائی تھی۔ مسلم لیگ نواز کے ارباب اختیار اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعلیٰ عہدیدار نے باہمی مشاورت سے اس تاریخ کا تعین کیا تھا۔ جب خاقان عباسی کو وزیراعظم بنوایا گیا تو ایک اجلاس میں فیصلہ ہوا نا اہل وزیراعظم کو ہی انتخابات تک وزیراعظم مانا جائے گا۔ اس ہی وجہ سے خاقان عباسی نے کبھی بھی اپنے آپ کو وزیراعظم تسلیم نہیں کیا۔ اس وقت سابق وزیرخزانہ لندن میں تھے۔ جب نیب عدالت نے نوازشریف کے کیس کا فیصلہ سنانے کا اعلان کیا تو میاں نوازشریف کی واپسی ضروری تھی۔ لندن کی ایک روحانی شخصیت نے یقین دہانی کروائی کہ آپ جائیں اور لاہور سے پنڈی کے سفر کے دوران ہی فیصلہ آپ کے حق میں آجائے گا۔

دوسری طرف مسلم لیگ معقول تعداد میں لوگ مہیا نہ کرسکی اور صدر مسلم لیگ(ن) شہبازشریف لاہور کی سڑکوں پر یہ لوگ تلاش کرتے رہے۔ جب نا اہل وزیراعظم لندن میں تھے تو کچھ بنگالی روحانی لوگ میاں صاحب کے پری دار کے لیے عملیات میں مشغول رہے۔ دوسری طرف سابق صدر آصف علی زرداری کے پیر صاحب جو گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں ان کی ہدایت پر اسلام آباد میں رہے مگر کراچی کے معاملات نے ان کو پریشان رکھا۔

انتخابات سے ایک ماہ قبل ہی کچھ روحانی شخصیات نے عمران خان کی کامیابی کا تذکرہ کیا تو ہماری سیاسی اشرافیہ بے چین ہوگئی اور قبل از وقت انتخابی دھاندلی کا شور مچانا شروع کردیا۔ ان ہی ایام میں ایک پیر کا تذکرہ بھی ہوا جس نے 1992ءمیں عمران خان کے حوالہ سے بشارت دی تھی اور ان کا بیان لاہور کے ایک اہم اخبار میں شائع بھی ہوا تھا۔ عمران خان بھی دینی اور روحانی معاملات میں کافی دلچسپی رکھتے ہیں۔ انتخابات کے زمانہ میں پاک پتن کا سفر اسی حوالہ سے تھا۔

جب انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوا تو ہماری سیاسی جماعتوں کے اہم لوگوں نے عمران خان کو ہرانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔ اس میں جادو ٹونہ، چلہ، بنی گالہ کے علاقہ میں مختلف قسم کے عامل بہت مصروف رہے۔ جادو کے حوالہ سے ایک بات اہم ہے کہ جادو حکمرانوں پر نہیں ہوتا گو ابھی عمران حکمران نہیں بنا تھا مگر عمران کو اندازہ ہوچکا تھا کہ وہ وزیراعظم بننے جارہے ہیں۔ اس سلسلہ میں ایک خواب کا تذکرہ بھی ہوتا رہا ہے۔

اب جبکہ عمران خان وزیراعظم پاکستان بن چکے ہیں اور اگلے 100دن کے لیے منصوبہ بندی کررہے ہیں ان کو مشور ہ دیا گیا ہے کہ زیادہ وقت اسلام آباد میں گزاریں ان کے روحانی مرشد نے ان کو ظاہری عبادت سے منع بھی کیا ہے۔ آنے والے دنوں میں صوبیدار پنجاب شہبازشریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگرچہ یہ دونوں فریق قانونی جنگ کی تیاری کرچکے ہیں مگر حالات اور ستاروں کی چال ان کے مخالف نظر آتے ہیں۔ صدقہ اور خیرات کا وقت بھی گزر چکا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کا معاملہ بھی پریشان کن ہی رہے گا۔

عمران خان کی کامیابی سادگی اختیارکرنے میں ہے اور قانون اور سزا کو سب کے لیے لاگو کرنا ضروری ہے۔ سزا اور مکمل سزا ہی عمران خان کو کامیابی کی نوید دے گی۔ کچھ سابق اہم لوگوں کو گرفت میں لانا ہوگا۔ تحریک انصاف میں شامل لوگوں پر نظر رکھنی ہوگی اور تفریق کے بغیر انصاف کم وقت میں دینے سے منزل آسان ہوجائے گی۔
وہ لیگی ہو، انصافی ہو یا پی پی کا دلارا ہو
سولی پر چڑھا دو اس کو جس سے ملت کو خسارہ ہوا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).