اوئے سلیم صافی… تیری۔۔۔۔۔۔


میں نہ صرف تمام قارئین سے معذرت خواہ ہوں بلکہ میں خود بہت شرمندہ بھی ہوں. جب میں جانتا تھا کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جس میں دلیل مر چکی ہے تو مجھے سلیم صافی کو صاحب کہہ کے مخاطب ہی نہیں کرنا چاہیے تھا کہ جس کی جانب آج کل توپوں کا رخ ہے. توپیں بھی ایسی جن کی سیاسی تربیت اتنی اعلیٰ معیار کی ہوئی ہے کہ مثال دی جا سکے۔ اور یقیناً جب انسان سے غلطی ہو جاتی ہے تو اس کو غلطی کا احساس بھی ہو جاتا ہے کیوں کہ جہاں غلطی کرنا آدمیت کی میراث ہے وہیں پہ غلطی ماننا بھی آدمیت کا حُسن ہے۔ اور میں نے غلطی مانی کہ سلیم صافی کو تحریر میں صاحب کہہ کے مخاطب کیوں کیا، جب ہم کو معلوم ہے کہ وہ صاحبانِ اقتدار کے خلاف لب کشائی کر رہا ہے تو اس کے حق میں پھر بولا ہی کیوں جائے۔ اس کے نام کے ساتھ اگر تیس سالہ صحافتی تجربہ ہے، اس کا تعلق صحافیوں کی اگر اس قبیل سے ہے کہ جس کا نام آتے ہیں دل میں عزت آ جاتی ہے تو آتی رہے۔ اس کا تو حق بنتا ہے کہ اُسے “صاحب” کے لاحقے کے ساتھ نہیں بلکہ جہاں بھی لکھا اور پکارا جاوے اُس کے نام کے ساتھ “اوئے” کا لاحقہ ہونا اس بات کی دلیل سمجھا جاوے گا کہ لکھنے والا نہ صرف محب الوطن ٹھہرا بلکہ وہ تبدیلی کا دل سے خیر خواہ بھی ہے۔ اور یہی غلطی ہوئی کہ مجھے یہ تو کہنا ہی نہیں چاہیے تھا کہ یہ سلسلہ سلیم صافی تک نہیں رکے گا، بلکہ مجھے شاید پہلی تحریر میں کہنا چاہیے تھا، “اوئے سلیم صافی… تیری۔۔۔۔۔

مجھے تو خود پہ ندامت ہو رہی ہے کہ جہاں تبدیلی رضاکار گالیوں سے نوازیں، اوئے، توں، تیری جیسے الفاظ سے گفتگو کا آغاز کر رہے ہوں وہاں میں نے سلیم صافی جیسے ایک صحافی کے بارے میں کچھ باادب الفاظ لکھے ہی کیوں۔ وہ تو اُس دشنام طرازی کے قابل ہے کہ جو لفظوں میں بیان بھی نہ ہو پائے۔ اُس کی جرات کیسے ہوئی کہ نہ صرف اُس نے اُس شخصیت کی حمایت میں کمر کس لی جس سے حاکمِ وقت کا ایسا بیر ہے کہ جیسے کوے کا پتھر سے۔ اس میں کوا کون ہے، پتھر کون ہے۔ اس کی بھی کیا اب تشریح کروں؟ اور بدزبانی جھیلوں؟ بہت معذرت کے ساتھ سلیم صافی کہ تجھے آپ کر کے مخاطب کرنا بھی جرم ٹھہرے تو کون بے وقوف تجھے آپ کہہ کے مخاطب کرے گا۔ بھئی تم جانو تمہارا جانے کام، ہم تو اس عزت و احترام سے بغیر ہی بھلے۔

پس میرے عزیز ساتھیو! آپ سب اب خوش ہیں نا، اب آپ کی سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی بدزبانی میں کچھ تو توقف آئے گا نا کہ دیکھ لیجیے، کہ سلیم صافی کو صاحب کہنے پہ بھی معذرت لکھ بھیجی ہے، قبولیت کی سند کی خواہش ہے۔ اور ساتھ میں سلیم صافی کو عزت و احترام سے مخاطب کرنے کے بجائے اوئے کا لاحقہ بھی ساتھ لگا دیا ہے۔ اب آپ کچھ تو تسکین پائیے نا، کچھ تو مسکرائیے نا کہ راقم التحریر اسی ڈگر پہ چل رہا ہے جس کی توقع آپ کو ہے۔ اور مجھے اچھے سے ادراک ہو چکا ہے کہ آپ اپنی توقع کے علاوہ تو کچھ ہوتا دیکھنا نہیں چاہتے، آپ ایک ایسے پکے ہوئے پھل کی طرح ہو چکے ہیں کہ جو اس قدر پک جائے کہ ڈالی پہ ایک لمحہ مزید کھڑا رہے تو پھٹ جاتا ہے۔ توآپ کسی ایسے کے حق میں کیسے کچھ سن سکتے ہیں جو حاکم وقت کے خلاف کمر کس لے۔ میں آپ کے ساتھ ہوں، میرا قلم آپ کے ساتھ ہے۔

تمام لکھاریوں کو مشورہ بھی ہے۔ کہ آپ بھی عقل کو ہاتھ ماریے، کیوں قلم کو طاقت سمجھ کے سلیم صافی جیسے صحافیوں کی حمایت پہ کمربستہ ہو جاتے ہیں۔ سلیم صافی جیسے موقف پہ ڈٹ جانے والے صحافیوں میں آٹے میں نمک کی مثال رہا، آپ بھی تو لکھاریوں کی بھیڑ چال میں صحرا پہ بس پانی کے پہلے قطرے کی طرح ہیں۔ چھوڑیے، سلیم صافی پر لعن طعن ہونے دیجیے۔ ہاں مگر یاد رہے کل کو کسی اور کے خلاف سوشل میڈیا کے سرخیل کمر کس لیں تو دیکھ لیجیے گا اگر اُس کے ماتھے پہ تبدیلی جگمگا رہی ہو تو اس کی حمایت لازمی کرنی ہے۔ کیوں کہ بھئی ہر کوئی سلیم صافی نہیں ہو سکتا۔ آپ کی ہمت جواب دے جائے گی مگر گالیاں ختم نہیں ہوں گی۔ اگر آپ نے اس شخصیت کے حق میں لکھ ڈالا جس کے پیادے سوشل میڈیا کے بے لگام گھوڑے پہ سوار ہوں۔ آپ حیرت کے پہاڑ میں گم ہو جائیں گے۔ مگر آپ کو وہ لفافے لینے کے طعنے بھی سننے کو ملیں گے جو آپ خواہش بھی کریں تو ملے نہ ہوں۔

پاکستان میں صحافت کے کسی نصاب میں بکاو صحافی، لفافہ صحافی، بکا ہوا، ضمیر فروش کی اصطلاحات نہیں ملیں نا، فکر نہ کریں ، لکھیں ذرا سلیم صحافی کے حق میں دیکھیے کیسے کیسے القابات سے نوازے جائیں گے۔ ارئے بھئی سلیم صافی، جاؤ ناپو اپنا راستہ، ایویں ہمارے حواسوں پہ سوار ہو گئے کہ ہم تمہارے حق میں لکھ بیٹھے، اور بے نقط کی سنیں، بھئی ہم تو مکالمے کے ناپید ہونے کا رونا ہی رو لیں تو بہت ہے۔ اوپر سے تم کو عزت دے ڈالی۔ بس بھئی اب اور نہیں، انقلابیو، تبدیلی کے سرخیلو! معذرت قبول ہووے، اور لیجیے صاحب کا لاحقہ ختم کر ڈالا اور پکارتے ہم بھی “اوئے سلیم صافی،،، تیری۔۔۔

(حضرات ایک ضروری اعلان سماعت فرمائیے، دلیل کی موت ہو گئی ہے۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).