بیورو کریسی میں تبدیلی کی لہر


حق گوئی بے باکی کو پسند کیا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بے لاگ بھی رہا جانا ضروری ہے انسان کو یکتا عمل پر کاربند رہنے کی تحریص ملے یہ بھی حوصلہ افضاء بات ہے لیکن ہم سچ بیانی کو تمام تر خطرات کا خدشہ مول لے کر جاری رکھنے کی جسارت اس لئے نہیں کر سکتے کہ ہر کسی کا کوئی اپنا ہے ایک فیملی بیک گراوٗنڈ ہے ایک کلیہ ہے ایک ضابطہ ہے جس کے تحت آپ کو اس بات کا تعین کرنا ہے کہ بہادری اور بیوقوفی درمیان ایک باریک دھارے سے آپ کہیں حماقت کے گڑھے میں گر نہ پڑیں۔ کیونکہ متعین کردہ حدود کو پار کرنا ابلاغ کے لئے بازیچہ اِطفال اس لئے نہیں ہے کہ انہیں سخت گائیڈ لائنز دی جاتی ہے اوران کو زیرِنگرانی رکھا جاتا ہے۔

مجھے کسی واحد اپنے نے یہ بغاوتی طرز کی تحریریں لکھنے سے روک دیا ہے اور صرف اچھے اچھے اصلاحی کالم لکھنے کی تنیبیہ کی ہے۔ بہتر تریاق رکھنا ہر کسی صاحبِ عقل کا حق ہے اور اس سے محروم رکھا جانا قابلِ قبول نہیں تصویر کے دونوں رُخ خود بھی دیکھنا اور دکھانا بھی راقم جیسوں کا فرض سمجھا جاتا ہے عالمی قوتوں کا اہم فیصلوں پر اثر اندوز رہنا بھی باعث تفکر اور فکری اعتبار سے بڑے ہچکولے کی بات ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اپنی حکومت کے پہلے سو دنوں میں کتنی کامیاب رہتی ہے اس کا پتہ تو لگ ہی جائے گا خیر ہر پاکستانی کو یہ آرزو بر لائی ہے کہ ملکی استحکام کے لئے بہتر اقدامات کیے جانے چاہییں اور دعا بھی یہ ہی ہے کہ اپنے اچھے مقاصد میں پی ٹی آئی کامیاب رہے۔

تونسہ جیسے نظر انداز ہوئے علاقے سے وزیرِ اعلیٰ آنا بہت اچھا قدم ہے اگر بزدار صاحب کٹھ پتلی کی بجائے اپنے جیسے عام لوگوں کے غم گسار رہ سکیں کُرسی انہیں سرخاب کے پر لگا کہ اونچا نہ اڑا دے۔ وزیرِاعظم بیوروکریسی کو اپنے ماتحت رکھنے یا گھر کی مرغی بنا کر رکھنے کو تیار نہیں نہ ہی اپنی سرپرستی کرنے یا اپنے شخصی دباوٗ کے زیر سایہ چلانے پر رضامند ہیں انہوں نے اہم بیوروکریٹس اور ان کی کارکردگی پر فہرستیں تیار کر لی ہیں اور وہ اچھے کردار والے بابو کو بغیر کسی پریشر کے کام کرنے دینے کی جستجو لئے سوچ و بچار کر رہے ہیں۔ اہم تقرر و تبادلےکیے جانے کا امکان ہے یہ بات طے ہے کہ وزیرِ اعظم پوری نیک نیتی سے کانٹ چھانٹ سے یہ فیصلے کریں گے کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں یہ ملک کا معاملہ ہے اسے فہم و فراست سے دیکھا جانا یقینی ہونا چاہیے۔

ایسا قفس جو مجبوریوں کو آڑے لے آئے فیصلوں میں ردو بدل لے آنے کا سبب ضرور بن سکتا ہے مگر اپنی لگن کو سامنے رکھتے ہوئے اس احتمال کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ میری تقرریوں پر اہم لوگوں سے بات ہوئی ان کا کہنا تھا کہ واقعی بیوروکریسی ہی تو ملک چلاتی ہے ایسی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ سراسر نقصان کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے جب کپتان کو اس سب سے نمٹنا ہے اداروں کا وقار بلند کرنا ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ عثمان بزدار کو سب سے بڑے صوبے کے فیصلے کرنے میں بہت احساس ذمہ داری دکھانے کا عندیہ دیں۔ چونکہ یہ افسر بابو ہی تمام اسکیمیں رکھتے ہیں اور مدرک ہوتے ہیں کہ کیسے کس طرح کسی کارِ ترقی کو انجام دلایا جائے تو ان کا چناوٗ یا ذمہ داری کا سونپا جانا تمام تر باتوں کا جائزہ لینے کے بعد کیا جانا چاہیے۔
جو بھی درونِ دل ہے وہ باہر نہ آئے گا
اب آگہی کا زہر زباں پر نہ آئے گا

معروف صحافی برادرم مسعود چوہدری نے سب سے پہلے 10 اگست 2018 ء کو ستائس اہم عہدوں پر پنجاب اسمبلی میں دی جانے والی ترقیوں پر کالم لکھا وہ لکھتے عارف شاہین صاحب اورعلی عمران صاحب کو ایڈیشنل سیکریٹری گریڈ 19 سے اسپیشل سیکریٹری گریڈ 20، طارق محمود صاحب کو AAA گریڈ 18 سے ڈائریکٹر آئی ٹی گریڈ 19، حافط خورشید صاحب کو پرائیویٹ سیکریٹری گریڈ 18 سے سٹاف افسر گریڈ 19، نوید اسلم صاحب کو سینئراسٹیٹ افسر گریڈ 18 سے ایڈیشنل سیکریٹری گریڈ 19، غلام معین الدین، عامرحبیب، اور فیض الباسط صاحبان کو ڈپٹی سیکریٹری گریڈ 18 سے ایڈیشنل سیکریٹری گریڈ 19، سجاد صدیقی صاحب کو ڈپٹی ڈائیریکٹر گریڈ 18 سے ڈائیریکٹر گریڈ 19 میں ترقی دے دی گئی۔

فیصل بٹر صاحب، تہمینہ تابش صاحبہ، نعیم اختر صاحب، اور رائے سلیم صاحب کو اسسٹنٹ سیکریٹری گریڈ 17 سے ڈپٹی سیکریٹری گریڈ 18 میں ترقی دے دی گئی۔ سلطان احمد صاحب سینئر ٹرانسلیٹر گریڈ 17 کو ڈپٹی ڈائیریکٹر گریڈ 18 جبکہ خالد محمود صاحب سینئر ٹرانسلیٹر گریڈ 17 کو ڈپٹی سیکریٹری گریڈ 18 میں ترقی دے دی گئی۔ جبکہ دیگر ترقی پانے والوں میں رائے مظہر صاحب، عادل شہزاد صاحب، عبدالصمدصاحب، عدنان ریاض صاحب، عبدالقہارصاحب، محمد میاں جمیل صاحب، عظیم بٹ صاحب، منور صاحب، مصطفی صاحب، اشفاق صاحب، اور محسن نور صاحب شامل ہیں۔ انہوں نے بہت دلچسپ اسرار و رموز دکھلائے اور بتائے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ بحث و تمحیص یہ ہے ہی نہیں کہ اشخاص کرپٹ ہیں بلکہ سسٹم ہی ایسا ہے کہ کوئی پوچھنے والا نہ ہے منظور نظر لوگوں کو نوازا گیا ڈی پی سی کے نہ ہوتے ہوئے مروجہ قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے یہ ترقیاں دی گئیں۔

اب ملک بھر کی بیوروکریسی میں اکھاڑ پچھاڑ کا عمل شروع ہوجائے گا ضرورت اس امر کی ہے کہ جسے بھی سیکرٹری، ہوم سیکرٹری، چیف سیکرٹری اور دیگر اہم ذمہ داریاں دی جائیں اس کا کٹھا چٹھا کھول کر سامنے رکھا جائے اور پھر ہی اسے کلین چِٹ دی جائے ہمارے پاکستان کے بیوروکریٹس میں بیشتر احسن ہیں اور وہ کسی بھی غلط کام میں حکمران کا ساتھ نہیں دیتے بلکہ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہیں ایسے اچھے لوگوں سے ملک بھرا پڑا ہے مگر افسوس لائم لائٹ میں یا فوکس میں صرف چند کرپٹ لوگوں کو دکھایا جاتا ہے جو اچھے ایمپریشن کو مندمل کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے ہیں ان کےکیے کو زائل کرنے کے لئے اچھے کھرے لوگوں کی تعیناتی ضروری ہے کیونکہ اگر ایسے ہی سفارشی اور کھلنڈرے قسم کے لوگ اوپر آتے رہے تو شدید چاہت اور کوشش کے بعد بھی ملک کی تقدیر سنور نہیں سکے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).