ناکوں پر پولیس والوں پر کیا گزرتی ہے؟


مہذب باشعور اور اچھی تربیت کے حامل پاکستانی جب کہیں پولیس کا ناکہ لگا دیکھتے ہیں تو اپنی گاڑی کی رفتار بہت آہستہ کر لیتے ہیں۔ رات کے اوقات میں اپنی گاڑی کی لائٹس مدھم کر لیتے ہیں پولیس ناکہ پہ کھڑے جوان کو ہرگز علم نہیں ہوتا کہ جس گاڑی یا موٹر سائیکل سوار کو وہ روک رہا ہے وہ ایک عام شریف شہری ہے یا خود کش بمبار۔ یہ آپ کا حق ہے کہ آپ رک جائیں کیوں کہ آپ جانتے ہیں آپ کو علم ہے کہ سامنے پولیس کا ناکہ ہے اور باوردی جوان آپ کا دوست اور محافظ ہے۔

میں چشم دید گواہ ہوں میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو گرمی کے موسم میں ناکے پہ کھڑے جوانوں کو اپنی ٹھنڈی گاڑیوں سے نکل کر پانی کی بوتلیں تک پکڑاتے ہیں۔ اپنی گاڑی کی تلاشی کرواتے ہیں گاڑی کے تمام کوائف ہمراہ رکھتے ہیں۔ دھول مٹی گاڑیوں کا دھواں بے ہنگم شور موسمی شدت کا مقابلہ کرتا وزنی ہیلمنٹ جیکٹ پہنے اسلحہ سے لیس جوان آپ کی ایک مسکراہٹ سے اور ذرا سے پیار سے کھل اٹھتا ہے اس کی ساری تھکان اتر جاتی ہے تمام تر صعوبتوں تکالیف کے باوجود اس کے لیے ایک طویل مشکل ڈیوٹی انجام دینا آسان ہو جاتا ہے۔

اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ پولیس کی طرف سے عوام کے تحفظ کے لیے لگائے گئے بہت سارے ناکہ جات پہ کھڑے باوردی آن ڈیوٹی جوان کبھی دس دس بیس بیس روپوں کے عوض اپنے ضمیر، وردی اور شہداء پولیس کی عظیم قربانیوں کا سودا کرتے دکھائی دیا کرتے تھے مگر اب حالات بالکل مختلف ہیں اور اس میں بھی شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ ان ناکہ جات پہ بنیادی سہولیات جیسے چھاؤں، پینے کا صاف پانی، فارغ از ڈیوٹی جوانوں کے بیٹھنے یا ریسٹ کا انتظام، واش روم جیسی بنیادی سہولت، شہری آبادی سے دور ناکہ جات پہ پک اینڈ ڈراپ کی سہولت، میس کا انتظام، ڈیوٹی تبدیلی کے اوقات کا آج بھی کوئی مناسب بندوبست نہیں کیا جاتا محض جوانوں کو ناکہ ڈیوٹی سنا دی جاتی ہے اور کوئی حوالدار یا اے ایس آئی بطور ناکہ انچارج تعینات کر دیا جاتا ہے۔

بہت کم ہی ایسے افسران ہوتے ہیں جو دوران گشت ناکہ جات کو چیک کرتے یا وہاں جا کر کچھ دیر تشریف فرما ہوتے ہیں۔ لہذا پولیس کے ان ناکہ جات کو اہمیت نہیں دی جاتی جس وجہ سے بہت سارے حادثات وقوع پذیر ہوتے ہیں اور ٹرکوں گاڑیوں موٹر سائیکل سواروں سے دس دس بیس بیس وصول کرنے کا بازار گرم رہتا ہے۔ عوام کی طرف سے پولیس ناکہ سے گاڑی موٹر سائیکل بھگا کر گزرنا ایک طرح کا فیشن اور جرات مندی کا کام تصور کیا جاتا ہے۔ کیا آپ دس بیس پچاس بچانے کے چکر میں ناکہ توڑ کر بھاگتے ہیں یا آپ کسی جرم میں ملوث ہیں۔ آپ کی گاڑی چوری کی ہے۔ آپ کے پاس منشیات ہے غیر قانونی اسلحہ ہے ایسا کیا ہے آپ کے پاس رکیے اپنی شناخت کروائیے۔ ورنہ پولیس والے کے پاس ایسا کوئی آلہ نہیں کہ وہ سمجھ سکے کہ آپ کیوں ناکہ توڑ رہے ہیں۔

اگر آپ سچ مچ عزت دار شہری ہیں تو ناکے پہ پولیس کے روکنے پہ رک جانا آپ کی عزت توقیر میں مزید اضافے کا سبب بنے گا۔ آپ سیاست دان ہیں۔ صحافی ہیں۔ وکیل ہیں طالب علم ہیں عام شہری ہیں یا چور ڈاکو سمگلر جب آپ ناکہ توڑ کر فرار ہوتے ہیں ناکے پہ کھڑے جوانوں کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ بے شک آپ وقتی دل لگی ہی کر رہے ہوں آپ کی یہ حرکت کسی بڑے سانحہ یا ناقابل تلافی نقصان اور حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔

پچھلے دنوں فیصل آباد میں ناکے پہ کھڑے پولیس ملازمان نے دو نو عمر ہم جماعت لڑکوں پہ گولیاں برسا دیں کیوں کہ وہ بھی بلا وجہ ناکہ توڑ کر پولیس کے ساتھ اٹھکیلیاں کرنا چاہتے تھے۔ کچھ عرصہ قبل لاہور کی شاہراہ پہ ایک امیر زادے نے بے قابو گاڑی ناکے پہ کھڑے پولیس ملازم پہ چڑھا دی اور اسے موت کے گھاٹ اتار دیا اسی طرح ایک اچکزئی نے پولیس ولے کو بیچ چوراہے اپنی گاڑی کے ٹائروں سے کیڑے مکوڑے کی طرح کچل دیا۔ جب ہم ایلیٹ فورس بہاول پور میں ڈیوٹی کر رہے تھے تو دوران ناکہ ہمارے ایک انتہائی بہادر اے ایس آئی صاحب کو ایک تیز رفتار اے پی وی نے گاڑی کے بمپر سے اٹھا کر کپاس کی فصل میں دے مارا اور وہ موت کی اندھیری وادیوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گم ہو گئے۔ وہ ایک انتہائی غریب خاندان کے واحد کفیل تھے۔

اسی طرح حاصل پور میزائل چوک میں دو موٹر سائیکل سواروں نے ناکے پہ کھڑے جوانوں پہ گولیاں برسا دی تھیں۔ ناکے پہ کھڑے پولیس ملازمان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ آج کل کے تعلیم یافتہ مگر غیر تربیت یافتہ بچوں کا شغل میلہ ہے۔ بچے تو بچے بڑے بڑے قد والے لیڈر اور عوامی نمائندے صحافی وکلاء حضرات ناکہ جات پہ رکنا تلاشی کروانا اور دومنٹ انتظار کرنا گوارا نہیں کرتے۔ کسی محکمے پہ افسر پہ ملازم پہ یا نظام پہ انگلی اٹھانے سے پہلے اپنا احتساب کیا جانا ضروری ہے بچوں کی تربیت میں قانون کی پاسداری کا درس ضروری ہے۔ اگر آپ حکومتی نمائندے ہیں۔ کوئی وزیر مشیر ہیں یا کسی نہ کسی طرح آپ کی پہنچ اقتدار کے ایوانوں تک ہے تو عام شہری سے آپ کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔

آپ رول ماڈل ہو، لوگ آپ کو دیکھ کر سیکھتے ہیں۔ اپنے بچوں کو عزیز و اقارب کو دوستوں کو اپنے کردار اور عمل سے قانون کی پاسداری کا سبق دیں۔ پولیس کو نفرت بھری نظر سے دیکھنا اور ناکے پہ کھڑے جوانوں کو حقیر سمجھنے کی بجائے اپنی جان و مال کا محافظ سمجھا جانا ضروری ہے اگر آپ خود اپنی پولیس کا احترام نہیں کریں گے پولیس کو عزت نہیں دیں گے تو پھر کبھی چائنہ کے مزدور آپ کے محافظوں کا گریبان پکڑیں گے یونیفارم پھاڑیں گے اور کبھی آپ کی پولیس کے جوان آپ کی تذلیل کرتے نظر آئیں گے۔ کبھی عام شہری پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنتے رہیں گے اور کبھی ناکے پہ کھڑے محافظ جرائم پیشہ عناصر کی مکروہ کاروایوں کا شکار ہوتے رہیں گے۔

کرپشن بے راہ روی کے تدارک کے لیے پولیس کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ ناگزیر ہے تاکہ پولیس کے ناکہ جات پہ اس دس بیس لینے کی لعنت سے چھٹکارہ پایا جاسکے اورکرپشن سے پاک معاشرہ تشکیل پا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).