یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی


کتاب اور انسانی تہذیب و تمدن کا شروع سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ انسان نے اس دنیا میں اپنا سفر بے سر وسامانی کے عالم میں شروع کیا اور اپنی بقاء کی جنگ لڑتا رہا۔ بقاء کے اس سفر میں انسان نے صدیوں تک ایک کٹھن اور کسم پرسی کی زندگی گزاری ہے۔

صدیوں گمنام رہنے کے بعد انسان کو ایک ایسی کلید ملی جس نے انسانی ذہن میں علم و آگہی کا انقلاب پرپا کر دیا۔ اس کلید نے جب انسانی ذہن کے تاریک دریچوں کے کلف کو کھولا تو انسان نے علم و آگہی کا چمکتا ہوا سورج دیکھا۔ انسان نے کتاب کی صورت میں اس کلید کو اپنے سینے سے لگایا اور تحقیق و مشاہدے کے ایک نئے سفر پر نکل پڑا۔

ایک وقت ایسا آیا کہ انسان میں علم اور تحقیق کے ذریعے اس وسیع و عریض کائنات کے رازوں کو جاننے کا تجسس پیدا ہوا۔ اس تحقیق میں کتاب نے انسان کو کامیابی سے ہمکنار کرایا اور انسان نے اس کائنات کے کئی رازوں سے پردہ اٹھایا۔ کتاب انسان کی تہذیب و تمدن اور ترقی کی محسن ہے۔ کتاب نے انسان کو کھانے پینے، رہن سہن اور بولنے کے آداب سکھائے۔ آج انسان اگر ایک شاہانہ اور پر سکون زندگی بسر کر رہا ہے تو بلا شبہ یہ سب کتاب ہی کی وجہ سے ممکن ہو سکا۔

کتاب نہ صرف شخصیت سازی کا اہم ذریعہ ہے بلکہ ایک با تہذیب اور زندہ معاشرے کے قیام کا بھی ایک کلیدی عنصر ہے۔ اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتا چلے گا کہ جن قوموں نے کتاب سے اپنا رشتہ مضبوط کیا وہی قومیں ترقی اور عروج حاصل کر سکیں۔ جن اقوام میں کتاب کی تخلیق، اشاعت اور مطالعہ کا رجحان رہا وہی دنیا پر حکمرانی کر سکیں اور انسانی معاشرے کے لئے آسانیاں پیدا کرتی رہیں۔ جن قوموں نے کتاب اور مطالعہ کو قدر نہ بخشی، وہ خود قدر و منزلت سے محروم رہیں۔ کتاب اور علم سے دوری نے ایسی اقوام کی قسمت میں ٖصرف مفلسی اور محکومی ہی لکھی۔ جس معاشرے میں مطالعہ اور تحقیق رک جائے وہ معاشرہ ذہنی و عقلی طور پر ساکن ہو جاتا ہے۔ جبکہ جس معاشرے میں مطالعہ اور مشاہدہ کی روش ہو وہ علم و آگہی کی خوش گوار تبدیلیوں سے لطف اندوز ہوتا رہتا ہے۔ اس بات سے شاید ہی کوئی اختلاف کرے کہ قوموں کی ترقی و عروج کتاب دوستی اور علم سے وابستہ ہے۔

فرانس کے انقلابی دانشور والٹیر نے کہا تھا ’’انسانی تاریخ میں چند وحشی و غیر مہذب قوموں کو چھوڑ کر لوگوں پر صرف کتابوں کی حکومت ہے۔” یہ بات سچ ہے کہ جس قوم پر کتاب کی حکمرانی ہو وہ وہ قوم دنیا پر حکمران ہو جاتی ہے۔ اور اس کی مثال مسلمانوں کا وہ تاریخی دور ہے جس میں مسلمان معاشرہ کتاب لکھنے، خریدنے اور پڑھنے میں سب سے آگے تھا۔ علم فلکیات، ریاضی، طب، کیمیا اور طبیعات کی کتب کی تخلیق، اشاعت اور مطالعہ مسلم معاشرہ میں عام تھا۔ معاشرے کا ہر فرد کتاب دوستی کا مزاج رکھتا تھا۔ کتاب پڑھنا ایک شاہانہ مشغلہ سمجھاجاتا تھا۔ اپنی کتاب دوستی اور علم و تحقیق کی بدولت مسلمانوں نے ایک طویل عرصے تک دنیا پر حکمرانی کی۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مسلم معاشرہ کتاب اور علم سے دور ہوتا چلا گیا اور آخر کار ترقی و عروج کی دوڑ میں دوسری قوموں سے بہت پیچھے رہ گیا۔

آج ہمارا نوجوان طبقہ بھی ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کے بھنور میں گھوم کر رہ گیا ہے۔ سمارٹ فونز، فیس بک، ٹویٹر اور واٹس ایپ کے دور میں کتاب بینی ایک اولڈ فیشن مشغلہ سمجھا جاتاہے۔ ہمارے نوجوان اپنے کورس کے علاوہ کوئی اور کتاب پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ اور شایداگر اکیڈمک مجبوری نہ ہوتی تو کورس کی کتابوں کو بھی نہ پڑھتے۔ یہ اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ کچھ نہ کرنے کے باوجود ان کے پاس وقت کا فقدان رہتا ہے۔ دراصل یہ کتاب فوبیا کا شکار ہو چکے ہیں۔ اور اس کی اصل وجہ ایک تو ان کو بچپن سے کتاب پڑھنے کی عادت نہ ڈالنا اور دوسرا خاندان یا معاشرے میں کوئی ایسا رول ماڈل نہ ہونا ہے جس میں کتاب پڑھنے کی عادت ہو۔ رہی باقی کسر وہ تو ہمارا نظام تعلیم پوری کر رہا ہے۔ ہمارا نظام تعلیم اور تعلیمی ادارے طلباء میں کتاب کی اہمیت اجاگر کرنے میں یکسر ناکام ہو چکے ہیں۔ اپنے جاری تعلیمی سفر میں کسی بھی ادارے میں آج تک نہ کتاب کی اہمیت پر کوئی ورکشاپ دیکھی اور نہ ہی کوئی کتاب میلہ۔ کتاب پڑھنے کے بڑھتے ہوئے فقدان پر جناب سعود عثمانی کا شعر یاد آگیا۔

کاغذ کی یہ مہک، یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی

اگر ہم نے دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام اور عزت واپس چاہئیے تو ہمیں بالخصوص نوجوان طبقے کو کتاب اور علم آگہی کا دامن مضبوطی سے تھامنا ہوگا۔ اور کتاب بینی کو اپنی مصروفیت کا ایک اہم جزو بنانا ہو گا۔ وگرنہ جس تیزی سے ہم آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کی طرف گامزن ہیں، اسی رفتار سے آنے والے وقت میں ہم دنیا پر ایک بھاری بوجھ بنتے چلے جائیں گے۔ جون ایلیاء کی ایک خوبصورت سطر ہے ’ ہمارے ہونے کی صرف یہ دلیل ہے کہ ہم جگہ گھیرتے ہیں۔ ‘ کہیں ایسا نہ کہ ہو کہ ہم واقعتاً صرف جگہ ہی گھیریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).