مدینہ کی ریاست کیا ایسے بنے گی؟


عمران خان نے عام انتخابات میں اپنی جماعت تحریک انصاف کی جیت کے بعد قوم سے خطاب میں اعلان کیا کہ وہ پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنائیں گے، ایک ایسی ریاست جس میں حق انصاف، امن اور آشتی کا بول بالا ہوگا اور، غربت افلاس کا خاتمہ کیا جائے گا، معاشی ترقی اور سیاسی ہم آہنگی پیدا کی جائے گی، کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ پاکستان میں سادگی کو اپنایا جائے گا جس کے لئے انھوں نے اعلان کیا کہ وہ وزیر اعظم ہاؤس میں نہیں رہیں گے اور نہ ہی اس کا بڑا اور مہنگی کاروں کا فلیٹ استعمال کریں گے۔

اس کے لئے انھیں نے کہا کہ مدینہ کی ریاست ان کے لئے ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے، جس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تمام قبیلوں کے درمیان امن آشتی کے قیام اور مدینہ سے تمام مذاہب کے لوگوں کے لئے یکساں حقوق کی یقین دہانی کرائی۔

پر عمران خان کے حلف لیتے ہی، قوم سے خطاب کے بعد اور کابینہ کی تشکیل کے ساتھ ہی حکومت کے جو انتظامات سامنے آیے ان سے سوال پیدا ہونا شروع ہو گئے کہ کیا پاکستان میں اس طرح سے مدینہ کی ریاست کے ماڈل کو لاگو کیا جائے گا؟

گو کہ ابھی نئی حکومت کو کو اقتدار سمبھالے دوسرا ہفتہ ہوا ہے پر اگر کابینہ کے پہلے اجلاس کے فیصلوں کو ہی دیکھ لیا جائے جس میں نواز شریف اور مریم نواز کے ناموں کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ کیا۔ ہم سب بھول گئے کہ مدینہ کی ریاست میں کسی کو بھی انتقام کا نشانہ بنانے سے منع کر دیا گیا تھا۔ جو کام عدالتوں کا ہے اسے عدالتوں ہی کے ذریعے کیا جانا چاہے، اور یہ کام بھی ایک عدالتی حکم کے ذریعے آسکتا تھا۔

پھر عمران خان نے کہا تھا کہ کسی بھی ایسے شخص کو وزیر مشیر یا سفیر نہیں بنایا جائے گا۔ ، جس کا ماضی داغدار ہو گا، لیکن چاہے وفاقی کابینہ ہو یا پنجاب کی کابینہ اس میں نیب زدہ لوگ نظر آتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اپنی بات پر عمل کرتے ہوے خان صاحب ایسے لوگوں کو وزراتوں عہدوں سے اس وقت تک الگ رکھتے جب تک نیب کے کیسوں کا فیصلہ نہ ہو جاتا۔

تونسہ شریف کے عثمان بزدار کو پنجاب کے بڑے صوبہ کا وزیر اعلیٰ بنانے کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا، پر ملک میں شاید پہلی بار پاور بیس تبدیل ہوئی اور وزارت اعظمیٰ سے لے کر بڑے صوبے کا چیف ایگزیکٹو ملک کے غریب علاقوں سے ہے یعنی تونسہ اور میانوالی کے غریب علاقوں عیسی خیل، قمر مشانی اور دوسرے پسماندہ علاقوں سے منتخب ہوئے ہیں، لیکن سادگی کیا دیکھیے کہ جس کے بارے میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ اس کے گھر میں تو بجلی اور گیس بھی نہیں، لیکن وزیر اعلی بنتے ہی عثمان بزدار کی اپنے گھرانے کے ساتھ سرکاری جیٹ میں سواری کرتے اور لاہور کے سیون کلب روڈ جو وزیر اعلی رہائش گاہ ہے تصویریں ان غریب علاقوں کے عوام کا سوشل میڈیا پر مذاق اڑا رہی ہیں، میں نہیں کہتا کہ انہیں خاندان کے ساتھ سرکاری جہاز میں سفر نہیں کرنا چاہے تھا لیکن ان تصویروں کے اجرا کا مقصد سمجھ سے باہر ہے۔

تازہ ترین معاملہ جو انتہائی سگین صورتحال اختیار کر گیا ہے وہ پاکپتن شریف کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر رضوان گوندل کا خاور مانیکا جو خاتون اول بشرا بی بی کے سابق شوہر ہیں کی ایما پر ٹرانسفر اور انہیں افسر بکار خاص بنا دینے کا ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق خاور مانیکا نے چیک پوسٹ پر پولیس کے روکنے کے باوجود گاڑی کو بھگا کر لے گئے، جب انہیں پیچھا کر کے پکڑا گیا تو انہوں نے پولیس اہلکاروں کے ساتھ بدزبانی کی اور دھمکیاں دیں۔

ہونا تو یہ چاہے تھا کہ ان کے خلاف کارروائی کی جاتی، لیکن نہ جانے کس کے اثر اور رسوخ پر انہیں وزیر اعلی ہاؤس طلب کیا گیا اور انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ خاور مانیکا کے ڈیرے پر جا کر ان سے معافی مانگیں۔ تاکہ خاور مانیکا کی روح کو چین آسکے اور تسکین مل سکے۔ پولیس افسر نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا جو کہ اسے کرنا بھی چاہے تھا۔

کیا عمران خان اس کی تفصیلی رپورٹ طلب کر کے ذمہ دار افراد خواہ وہ ان کے بہت قریب ہی کیوں نہ ہوں، ان کے خلاف کارروائی کریں گے؟ اور کیا پنجاب کے وزیر اعلی سے پوچھا جایے گا کہ انہوں نے کس قانون کے تحت وردی میں ملبوس ایک افسر سے اپنی موجودگی میں ایک سویلین کو باز پرس کی اجازت دی؟

خاور مانیکا خود بھی سول سرونٹ ریٹائر ہوئے ہیں، وہ گیارہویں کامن سے ہیں، موصوف انیس سو تراسی میں جب اکیڈمی میں تربیت حاصل کر رہے تھے تو مبینہ طور پر پابندی کے باوجود رات کو اپنی گلبرگ لاہور کی رہائش جا کر غل غپاڑہ کیا کرتے تھے، کیوں کہ ان کے والد ضیا الحق کی کابینہ کے وزیر تھے۔

خان صاحب کہتے ہیں کو وہ بیوروکریسی اور پولیس کو غیر سیاسی کریں گے، لیکن خاور مانیکا کی انا کی تسکین کے لئے پولیس افسر کی تبدیلی اور اسی طرح وزیر ریلوے شیخ رشید اور ریلوے کے چیف کمرشل آفیسر کی جھڑپ، اور پھر شیخ رشید کے کہنے پر پنڈی میں موٹر سائیکلوں کو گرانا، اور ان کی عید پر ایک بوڑھی عورت کے ساتھ بدتمیزی پھر وہاں ایک نجی ٹی وی کے کیمرہ مین کا موبائل توڑ دینا ایسے واقعات ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر ابتدا یہ ہے تو انتہاء کیا ہو گی، کیوں کہ ابھی تو بہ مشکل ابتدا ہوئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).