شیخ رشید اور ڈھیلی نیکر


اک عورت کسی سیانے حکیم کے پاس گئی ۔ وہ اپنے بچے کی شرارتوں سے بہت پریشان تھی ۔ اس نے حکیم سے عرض کیا “بھائی کوئی نسخہ تجویز کریں اس کی شرارتیں کم ہو جائیں ” ۔ سیانے نے بچے کو دیکھا اور اور عورت سے کہا اسے ڈھیلی نیکر پہناؤ ۔ عورت نے کہا تمہارے پاس دوا لینے آئی ہوں نہ کہ مشورہ ۔ نیکر کا شرارتوں سے کیا واسطہ ۔ حکیم نے عرض کیا یہ سالہا سال کا آزمودہ نسخہ ہے ۔ تم بھی آزماؤ افاقہ ہوگا ۔

کم و بیش بارہ برس ادھر کی بات ہے شیخ رشید صاحب نے ریلوے کا محکمہ سنبھالا ۔ یہ جنرل پرویز مشرف صاحب کا پہلا اور غالباً آخری دور صدارت تھا ۔ جنرل صاحب کے دائیں بائیں ہر جگہ شیخ رشید نظر آتے ۔ وزیر اطلاعات تو شیخ صاحب تھے ہی لیکن ظاہر ایسے کرتے جیسے عملاً مشرف صاحب کی حکومت وہی چلا رہے ہیں ۔ ہر چینل ہر اخبار پہ وہی نظر آتے ۔

بات شروع ہی ایسے کرتے جیسے مشرف صاحب بس ان کے اشارہ ابرو ، حکم کے منتظر ہیں ۔ ” میں نے مشرف صاحب کو کہا ہے ” ۔ ” میں نے مشرف صاحب سے کہہ دیا ہے ” ۔ “میری جنرل صاحب سے بات ہوگئی ہے ” ۔ ادھر قصر صدارت میں بھی شبانہ روز رنگ و نور کی محفلیں جمتیں ۔ صبح و شام رقص و سرور جاری رہتا ۔ شیخ صاحب بھی ذرا رنگین مزاج واقع ہوئے ہیں ۔ ان محافل میں کبھی کبھی صدر محفل ترنگ میں آکر گلاس سر پہ رکھتے اور اپنی مدھر آواز میں محو رقص ہو کے گنگناتے ۔

لہرا کے جھوم ، جھوم کے لا مسکرا کے لا
پھولوں کے رس میں چاند کی کرنیں ملا کے لا

اسی دھن میں صدر صاحب کے دست رات شیخ صاحب بھی لے اٹھاتے سخن مستانہ می گویم ولے ہوشیار می گردم ۔ تب مشرف صاحب کا سورج اپنی پوری آب و تاب پہ تھا ۔ نہ لال مسجد کا واقعہ ہوا تھا نہ ہی افتخار چوہدری کا قضیہ کھلا تھا ۔ راوی ہر طرف چین ہی چین لکھتا تھا ۔ مستقبل کی منصوبہ بندی جاری تھی ۔ شیخ صاحب نے اک دن صدر صاحب کے حضور عرض کیا آپ وزارت عظمیٰ کے لیے ادھر ادھر ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں لیکن کبھی اس ہیرے پہ نظر نہیں کی ۔ بندہ تو روز اوّل سے آپ کا تابع دار ہے ۔ روز اوّل سے ہے میری زندگانی آپ کی ۔ ہے تو میرے پاس لیکن ہے نشانی آپ کی ۔

ادھر قاف لیگ کے کرتا دھرتا چوہدری برادران بھی پرویز الہی کو اگلا وزیر اعظم بنانے کی پیش بندی کر رہے تھے ۔ مشرف صاحب نے ہیرے پہ نظر کیا کرنی تھی ۔ جاسوس نے بات چوہدریوں تک پہنچا دی ۔ چوہدریوں نے ہیرے کو کھڈے لائن لگانے کا فُول پروف منصوبہ بنایا ۔ ایک پنتھ دو کاج ۔ شیخ صاحب سے جان بھی چھوٹ جاتی اور نیا بندہ بھی اسی کی جگہ فٹ ہوجاتا ۔ چوہدریوں نے محمد علی درانی کو وزیر اطلاعات بنوا کر شیخ رشید کو ریلوے کی ڈھیلی نیکر پہنا دی ۔ انہی دنوں شیخ صاحب کی مٹی خوب پلید ہوتی رہی ۔ نجی محفلوں میں شیخ صاحب کی ترقی معکوس پہ خوب ٹھٹھا اڑتا ۔ لیکن شیخ صاحب حوصلہ مند تھے اور حالات کا تقاضا بھی یہی ۔ چپ چپیتے کونے میں پڑے رہنے میں ہی عافیت تھی ۔ اتنے مرد میدان تو نہ تھے مشرف صاحب یا چوہدریوں سے پنگا لیتے ۔ شیخ جی مجبوراً حالات کو ہضم کر گئے ۔

شیخ صاحب نے میڈیا پہ وزارت ریلوے کو بھی ایسے پیش کیا جیسے کوئی جیمز بانڈ کی فلم ہو ۔ تب سوشل میڈیا اتنا تیز نہ تھا اور مختلف چینلز کو شیخ صاحب خوب ہینڈل کرنا جانتے تھے ۔ شیخ صاحب نے میڈیا پہ اپنی وزارت اطلاعات والی جگہ بنائی رکھی اور اپنی کارکردگی کا ڈھونڈو را خوب پیٹا ۔ ٹی وی پہ بیٹھ کر دن رات زبان سے ریل کے انجن خوب چلائے ۔ اصلاً کچھ نیم تسلی بخش قسم کی کارکردگی تھی ۔

لیکن اب جو نیا پاکستان معرض وجود میں آیا ہے اس میں شیخ صاحب کی بھی ایک سیٹ ہے ۔ وہ سیٹ بھی بابا جی انصاف والے اور عمران خان کے مرہون منت ہے ۔ شاید محکمہ خوراک و زراعت والوں کا بھی کچھ عمل دخل ہو ۔ شیخ صاحب اسی ایک سیٹ کی بنیاد پر وزارت داخلہ کے متمنی امیدوار و منتظر تھے ۔ مانا کہ عمران خان کو سیاست نہیں آتی لیکن خان صاحب اتنے بھی بھولے نہیں ایک سیٹ پہ وزارت داخلہ دان کردیں ۔

خان صاحب نے بھی پرانا آزمودہ نسخہ آزمایا اور پندار محبت کا بھرم رکھتے ہوئے شیخ صاحب کو دوبارہ ریلوے کی ڈھیلی نیکر پہنا دی ۔ شیخ صاحب دو چار دن تو بجھے بجھے نظر آئے لیکن حالات سے سمجھوتے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ شیخ صاحب نے وزارت ریلوے کو ایسے پیش کرنے کی کوشش کی جیسے ٹارزن کی واپسی ۔ منہ میں سگار لیے دھواں دار انٹری لیکن ٹھس ہوگئی ۔ شیخ صاحب نے زبان درازی کی کوشش کی تو آگے سے منہ کی کھانا پڑی ۔

اب مسئلہ یہ ہے یہ نیکر بہت ڈھیلی ہے ۔ جس کی پہلی وجہ شیخ صاحب کے پیش رو خواجہ سعد رفیق ہیں ۔ خواجہ سعد رفیق سے لاکھ اختلاف سہی لیکن خواجہ سعد رفیق نے ریل کو صحیح معنوں میں پٹری پہ ڈالا ۔ وہ ریلوے جس پہ لوگ بلور صاحب کے دور میں چرس زدہ کی پھبتی کستے تھے ۔ خواجہ صاحب کے دور میں توانا ہوئی ۔ خواجہ سعد رفیق نے ریلوے کے تن مردہ میں جان ڈالی ۔ نقصان زدہ ریلوے خواجہ صاحب کے دور میں پچاس ارب کے ہندسے کو چھونے لگی ۔ ریلوے میں جدت آئی ۔ نئے انجن اور روٹس پہ کام ہوا ۔ پرانے روٹس بحال ہوئے ۔ صفائی ستھرائی اور انتظام میں بہتری آئی ۔ عملے کے رویے اور تعلیم و تربیت کا انتظام ہوا ۔

ریلوے اب شیخ صاحب کے بس کا روگ نہیں ۔ اس کی پہلی خواجہ سعد رفیق اور دوسری وجہ سوشل میڈیا ہے ۔ اب وہ بارہ برس پرانا زمانہ تو نہیں اب سوشل میڈیا کا دور ہے ۔ سوشل میڈیا بھی غم دل کی طرح نکتہ چیں ہے ۔ شیخ صاحب نے پچھلے پانچ سال صرف ٹی وی پہ بیٹھ کر باتیں ہی ٹھوکی اور زبان سے پکوڑے تلے ہیں ۔ ان پانچ سالوں میں خواجہ سعد رفیق نے اسٹیشن پٹری پہ پسینہ بہا کر ریلوے کو ترقی کی راہ پہ ڈالا ۔

ان پانچ سالوں جس رفتار سے ریلوے میں کام ہوا شیخ صاحب کی عادت طبیعت صحت اور عمر اس کی متحمل نہیں ۔ اوپر سے خواجہ سعد پرانا سیاسی ورکر ہے اور شیخ صاحب کی حرکتوں سے خوب واقف ہے ۔ خواجہ اپنے کاموں کا کریڈٹ شیخ صاحب کو آسانی سے لینے نہ دے گا ۔ اس پہ مستہزاد شیخ صاحب کی ہمنوا اینکروں کے ساتھ مل کر ریٹنگ لینے کی کوشش کو سوشل میڈیا خاک میں ملا دے گا ۔ جیسا کہ پچھلے چند روز میں ہوا ہے ۔ شیخ صاحب کی کیفیت اونٹ اور پہاڑ والی ہے ۔ کالم اختتام پہ پہنچا تو ملکہ ترنم نورجہاں کا گیت ذہن میں آگیا ۔
مزے تے ماہیا ہن آن گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).