بینا سے نابینا: سماجی کارکن ڈاکٹر فاطمہ شاہ


میٹرک میں گولڈ میڈل حاصل کرنے اور لیڈی ریڈنگ میڈیکل کالج دہلی، بھارت سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد بطور سرجن عملی زندگی کی ابتدا۔ شادی کے بعد گھریلو زندگی کی ترجیح اور پھر ڈاکٹر ہونے کے باوجود الرجی کے ساتھ موتیا کے باعث بینائی سے محروم ہونے والی حوصلہ مند خاتون ڈاکٹر فاطمہ شاہ کی کہانی۔ انھوں نے (1914 تا 2002) نابینا ہونے کے بعد ایک نئے عزم سے زندگی گزاری اور دنیا بھر سے اپنی سماجی خدمات پہ تحسین حاصل کی۔

فاطمہ شاہ جب پیدا ہوئیں تو وہ اتنی صحت مند تھیں کہ ابھرے ہوئے گالوں کی وجہ سے آنکھیں بالکل نظر نہیں آ رہی تھیں۔ جس پر دائی کے منہ سے نکل گیا۔ ’’اے ہے بچی تو بغیر آنکھوں کے پیدا ہوئی ہے۔‘‘ اس وقت کسے پتا تھا کہ فاطمہ شاہ ایک دن واقعی بینائی سے محروم ہو جائے گی۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اپنی معذوری کے باوجود انھوں نے سوشل ورک میں بہترین کام کر کے پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کیا۔

ڈاکٹر فاطمہ شاہ 1914 میں پنجاب کے شہر بھیرا میں پیدا ہوئیں۔ ان کا گھرانا بہت پڑھا لکھا تھا۔ والد پروفیسر عبدالمجید قریشی علی گڑھ یونیورسٹی میں شعبہ ریاضی کے چیئر مین تھے۔ان کے گھرانے میں تعلیم کی اہمیت کی وجہ سے ڈاکٹر فاطمہ شاہ نے چودہ سال کی عمر میں علی گڑھ یونیورسٹی کی زیر نگرانی میٹرک کے امتحان میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ ان کے ابا اور نانا کی خواہش تھی کہ فاطمہ ڈاکٹر بنیں، لہذا دہلی کے لیڈی ہارڈنگ میڈیکل کالج سے فاطمہ شاہ نے ایم بی بی ایس کیا۔ یہاں بھی انھیں میکڈونلڈ اسکالر شپ ملا۔

تعلیم مکمل ہونے کے بعد انھیں لکھنو کے ڈفرن اسپتال میں ہاوس سرجن کی نوکری مل گئی۔ 1937 میں ان کی شادی گورکھ پور، ہندوستان کی ایک مشہور شخصیت جواد علی شاہ سے ہو گئی۔ انھوں نے شادی کے بعد نوکری چھوڑ دی۔ اب ان کے پاس دو بچیاں تھیں۔ یہ زمانہ تھا کہ جب ہندوستان تقسیم ہو کر دو الگ ملک بھارت اور پاکستان بن گئے تھے۔ اسی زمانے میں وہ کچھ دنوں کے لیے پاکستان گھر خریدنے آئیں، تو آزادی کی تقریبات خصوصا قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کی حلف اٹھانے کی تقریب کے لیے رک گئیں۔ بدقسمتی سے اس کے بعد اتنے ہنگامے ہوئے کہ انھیں جانے کا موقع ہی نہیں مل پایا۔

1952 کا ایک دن ان کے لیے بہت اداس تھا، جب ان کے میاں نے انھیں طلاق کے کاغذات بھجوائے۔ یہ دکھ ان کے لیے بہت زیادہ تھا۔کچھ اس کا صدمہ اور کچھ آنکھوں میں الرجی کے ساتھ موتیے کا اثر، کہ فاطمہ شاہ کی دونوں آنکھوں کی بینائی رفتہ رفتہ ختم ہونے لگی۔ حالاں کہ فاطمہ اس وقت ڈاکٹر کے طور پر کام کر رہی تھیں۔ ایک روز صبح چار بجے ان کی آنکھ کھلی تو انھیں لگا کہ اب وہ کبھی نہیں دیکھ پائیں گی۔

انھوں نے عین اس لمحے ﷲ سے دعا مانگی کہ ’’یا ﷲ! اگر میری بیماری نہیں جاتی تو میرا دماغی توازن قائم رکھنا۔‘‘ بینائی سے محروم ہونے کے بعد ان پر بہت برا اثر پڑا۔ صدمے کی وجہ سے انھوں نے لوگوں سے ملنا چھوڑ دیا۔ گھر میں بیٹھی رہتیں۔ کسی نے ان کو بتایا کہ کوئی محترمہ خاص طور پر ڈاکٹر فاطمہ شاہ سے ملنے آئی ہیں۔ فاطمہ شاہ کو پتا ہی نہیں تھا کہ یہ اجنبی خاتون ان کی زندگی کو بدل دیں گی۔ انھوں نے کہا، ’’ہیلو ! میرا نام ازبیلا گرانٹ ہے، اور میں افریقا کے چوبیس ملکوں سے ہوتی ہوئی آ رہی ہوں۔ میری عمر ساٹھ سال ہے، امریکا سے آئی ہوں اور مکمل نابینا ہوں۔

فاطمہ شاہ کو ہر گز یقین نہیں آیا۔ انھوں نے حیرت سے پوچھا ’’کیا آپ یہ سفر بالکل اکیلی کر رہی ہیں؟‘‘ انھوں نے کہا، ’’نہیں ، میرے ساتھ یہ میرا آسکر ہے‘‘، پھر انھوں نے ایک سفید چھڑی فاطمہ شاہ کے ہاتھ میں دی اور کہا ’’میٹ آسکر‘‘۔ یعنی آسکر سے ملو۔ یہ وہ وقت تھا کہ ان کے دماغ میں ایک روشنی سی چمکی کہ جب یہ عورت ساٹھ سال کی عمر میں دنیا کا سفر کرتی ہوئی اکیلی یہاں پہنچی ہے اور اس قدر ہنستی ہوئی آواز کے ساتھ، تو میں یہاں صوفے پر بیٹھی رہوں اور کمرے سے بھی باہر نہ نکلوں؟ ازبیلا گرانٹ نے فاطمہ شاہ کو راضی کر لیا کہ انھیں پاکستان میں نابینا افراد کی اپنی ایک جماعت بنانا ہو گی۔ اپنی مدد آپ کے تحت کام کرنا ہو گا۔ اس جماعت کی لیڈر فاطمہ شاہ ہوں گی، جو نابینا افراد کے لیے سماجی کام (سوشل ورک) کریں گی۔

ڈاکٹر فاطمہ شاہ کو بچپن ہی سے سوشل ورک کا شوق تھا۔ ان میں چیزوں کو منظم کرنے اور دوسرے لوگوں کی مدد کا جذبہ پیدائشی تھا۔ اب انھیں اپنی اس صلاحیت کو آزمانے کا موقع مل گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم دردی اور رحم کی بجائے نابینا افراد کے مسائل کو سمجھنے کے لیے سائنسی سمجھ بوجھ اور نقطہ نظر ہونا چاہیے‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا رحم اور محض ہم دردی، انھیں احساسِ کم تری میں مبتلا کر سکتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نابینا افراد کے مسئلے سمجھے جائیں۔

ڈاکٹر فاطمہ شاہ نے ملک میں ’’پاکستان ایسویسی ایشن آف دی بلائنڈ‘‘ قائم کی۔ یہ ایسوسی ایشن 1960 میں قائم ہوئی۔ نہ صرف ملک میں بلکہ دنیا کے نابینا افراد کے لیے بھی انھوں نے ’’انٹرنیشنل فیڈریشن آف دی بلائنڈ‘‘ بنائی۔ وہ ’’ورلڈ بلائنڈ یونین‘‘ کے علاوہ ’’فیڈرل کونسل نیشنل پارلیمنٹ‘‘ کی ممبر بھی رہیں۔ انھوں نے اپنے کسی بھی سفر کے دوران کسی گائیڈ کو ساتھ نہیں لیا۔ حکومت نے انھیں تربیتی کورس کرنے کے لیے ملک سے باہر امریکا بھیجا۔

وہاں سے لوٹیں تو پاکستانی حکومت کا یہ قانون ختم کروا دیا، جس کی وجہ سے باوجود صحت مندی، ذہانت اور قابلیت کے معذور لوگ کام نہیں کر سکتے۔ انھوں نے تعلیمی اداروں میں بریل طریقہ تعلیم شروع کروایا۔ اس کے علاوہ ملکی اور غیر ملکی سفر کرنے والے بینائی سے محروم افراد کے کرایوں میں پچاس فی صد رعایت کی پابندی بھی کروائی۔

ان سماجی فلاحی کاموں کی وجہ سے انھیں بہت سے انعامات ملے۔ جن میں سب سے اہم تمغائے امتیاز ہے، جو حکومتِ پاکستان کی طرف سے ملا؛ لیکن سب سے بڑا شکریہ کا وہ تحفہ جو لاکھوں نابینا افراد کے دل سے ڈاکٹر فاطمہ شاہ کے لیے ادا ہوتا ہے۔

ڈاکٹر فاطمہ شاہ کی زندگی کی کہانی ان کی کتاب ’’سن شائن اینڈ شیڈوز‘‘ یا ’’دھوپ چھاؤں‘‘ میں پڑھیے، اور اندازہ لگائیے کہ انھوں نے اپنی زندگی کے اندھیروں کو روشنی میں کس طرح بدلا۔ آئیے ہم سب مل کر ان کے کام کو آگے بڑھائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).