چند تصویر بے حیا چند حسینوں کے ”خطوط“!


پچھلے دنوں کسی ظالم نے ”لوح قلم“ کو ” لوہے قلم“ چھاپا تو عبد الروف صاحب نے اسے اردو کا جنازہ قرار دیا۔ عبدالرؤف صاحب ( ہمارے استاد ہیں اور بہت سیکھا ہے ان کے زیر سایہ) زبان کے معاملہ میں بہت سنجیدہ ہیں اور کبھی درستی سے نہیں چوکتے اور بہت لوگوں کا شین قاف درست کرواتے رہتے ہیں۔ ہمیں یہ عادت انہیں سے ودیعت ہوئی ہے کہ دوسرے کی گفتگو پر کڑی نظر رکھتے ہیں اور اگر گفتگو کوئی حسینہ کر رہی ہو تو گفتگو پر بھی کڑی نظر رکھتے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ننانوے فی صد حسینائیں پھلانگنے کو ٹالنا کہتی ہیں اور چشم تصور میں ہیجان برپا کر دیتی ہیں کیونکہ ٹاپنا لفظ ہی ایسا ہی کہ لگتا ہے کوئی عزت ہی نہیں بچی۔ خدارا! لفظ پھلانگنا استعمال کیا کریں چاہے کبھی پھلانگنے کی ضرورت پڑے یا نہ پڑے۔ ایسے ہی اکثر آ پ لفظ پھاڑی سنتے ہوں گے جو اپنی ” وضع قطع ” سے ہی بہت معیوب لگتا ہے۔ خربوزہ کی پھاڑی، تربوز کی پھاڑی وغیرہ حالانکہ قاش کیسا خوبصورت لفظ ہے اور کیا اچھا صوتی اثر ہے لیکن پنجابی زبان میں شاید کتے والا کاش زیادہ غالب آ جاتا ہے اس لیے قاش سے کوئی رغبت پیدا نہ ہو سکی۔

خیر لفظ تو کثرت استعمال سے اپنی ہیئت و معانی بدل لیتے ہیں لیکن کسی کی ملکیت تو نہیں ہوتے جو درد محسوس کرے البتہ کسی شاعر کا شعر اگر دوسرے سے منسوب کر دیا جائے تو اسے یقیناً بہت تکلیف ہو گی۔ ہم نے پروگرام خبرناک میں یہ سلسلہ شروع کر رکھا ہے کہ اشعار کو ان کے حقیقی مالک تک پہنچایا جائے چاہے مالک خود ابدی نیند ہی جا سویا ہو۔ اشعار کو نسا اسد عمر کے جاری کردہ نئے نوٹ ہیں جو ہمارے کسی کام آ سکیں گے۔ ایک دن بھولا کانا اور بھولا انجانا ہمارے ہاں تشریف لائے اور بد قسمتی سے ن م راشد کی گماں کا ممکن سامنے پڑی تھی۔ بھولا انجانا، جیسا کہ نام ہی سے واضح ہے، کچھ نہ کچھ جاننے کی تگ و دو میں رہتا ہے اور بھولے کانے پر رعب ڈالنے کی سبیل کرتا رہتا ہے، نے پوچھا کہ کبھی راشد کو پڑھا ہے اور جواب کچھ یوں تھا،

”قبر تے رکھ کے مٹی پاؤ جی“ کانا بولا۔ او جناب! انہاں دی تے قبر ہی نہیں ہیگی۔ مٹی کتھوں پاواں؟ انجانے نے جواب دیا۔ کیوں جی شاعر صاحب دریا برد کر دیے گئے تھے؟ کانے نے طنز کیا۔ ”دریا برد کیے گئے ہوتے تو موجیں نہ لگ جاتیں۔ آ س پاس مچھلیاں ہی مچھلیاں“۔ انجانا بولا۔ ” تو پھر کیا دیوار میں چنوا دیے گئے تھے“۔ کانا گویا ہوا۔
اؤ نہیں یار مرنے کے بعد جلنا پسند کیا تھا انہوں نے۔ انجانا بولا۔ لوجی! جل جل کے تو جان دیتے ہیں شاعر اور انہوں نے پھر مرنے کے بعد جلنا ہی پسند کیا“۔

معاف کیجیے گا میں شعور کی رو میں بہہ کر موضوع سے ہٹ جاتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ قاری بھی وہ جھٹکا محسوس کرے جو میں کر رہا ہوتا ہوں۔ ظاہر ہے وحدت فکر بلاگ یا کالم کی بنیادی ضرورت ہے لیکن ” بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر“۔ رسول حمزہ توف کا ایک ناول ہے، ” میرا داغستان“ جو دراصل اخبار کے ایک مدیر کے لیے لکھا گیا کالم تھا اور رسول حمزہ توف جب لکھنے سے فارغ ہوا تو وہ ایک شاہکار تصنیف کر چکا تھا۔ کیا خوبصوت ناول ہے جس میں کہیں کہانی کی تکنیک پر بحث ہے تو کہیں داغستانی کلچر پر کلام، کہیں ادبی حوالے ہیں تو کہیں داغستان کا بکھرا حسن، کہیں شعری اقتباسات ہیں تو کہیں زندگی کا حاصل۔ کردار، کہانی، خیال، منظر کمال فن سے گندھے ہوے ہیں۔ فیض احمد فیض کی نظم ” داغستانی خاتون اور شاعر بیٹا ”رسول حمزہ توف کے اس ناول ہی کا حصول ہے۔

میں بات کر رہا تھا ایسے اشعار کی جو دوسرے شعرا کے ساتھ غلط طور پر منسوب کیے جاتے ہیں یا اصل شکل میں برقرار نہیں رہے کیونکہ تحقیق نہیںکی جاتی اور مکھی پہ مکھی ماری جاتی ہے۔ ہم نے خبرناک میں یہ تحقیقی کام شروع کر رکھا ہے اور بہت سے اردو دانوں کو ورطء حیرت میں ڈال چکے ہیں۔ اشعار کی تفصیل میں جانے سے پہلے میں شکریہ ادا کروں گا پروفیسر اصغر یزدانی اور پروفیسر لیاقت عظیم کا جو ہماری راہنمائی فرماتے رہتے ہیں۔

ایک شعر ہے، ”چند تصویر بتاں چند حسینوں کے خطوط / بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ ساماں نکلا“

یہ شعر غلط طور پر مرزا غالب کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے حالانکہ اس کے شاعر کا در اصل کسی کو پتہ ہی نہیں۔ البتہ معروف شاعر بزم اکبر آ بادی کی ایک غزل ہے جس میں اس سے ملتا جلتا شعر موجود ہے اور وہ یوں ہے کہ،

”ایک تصویر کسی شوخ کہ اور نامے چند/ گھر سے عاشق کے پس مرگ یہ ساماں نکلا ”
اسی غزل کا مطلع ہے،
”یوں تو دلچسپ بہت عالم امکاں نکلا / جب کیا غور تو اک خواب پریشاں نکلا“۔

غالب سے منسوب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ غالب کی ہی زمین پر بزم اکبر آبادی نے غزل کہی اور مرزا غالب کی غزل کا تو خیر جواب نہیں،
”شوق ہر رنگ رقیبِ سروساماں ساماں نکلا / قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا“۔

ایک بہت ہی مشہور شعر ہے میر تقی میر کا، ” سرہانے میر کے آ ہستہ بولو/ ابھی تک روتے روتے سو گیا ہے“
یہ شعر دراصل یوں ہے کہ،
”سرہانے میر کے کوئی نہ بولو / ابھی تک روتے روتے سو گیا ہے“۔

حکیم مومن خان مومن کا ایک شعر بہت غلط لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ غلط شعر کچھ یوں ہے،
”اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک / شعلہ سا چمک جائے ہے انداز تو دیکھو ”
درست شعر کچھ یوں ہے کہ، ” اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک / شعلہ سا لپک جائے ہے انداز تو دیکھو“۔ اسی طرح ایک شعر ہے کہ،
عمر دراز مانگ کر لائے تھے چار دن

دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں یہ شعر بہادر شاہ ظفر سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن دراصل ہے سیماب اکبر آ بادی کا۔ ان کی کتاب ” کلیم عجم ” میں یہ شعر کچھ اس طرح درج ہے کہ،
”عمر دراز مانگ کے لائی تھی چار دن“ اسی طرح ایک بہت بڑی غلطی یہ ہے کہ
”نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں / کسی کے کام کو نہ آ سکے میں وہ ایک مشت غبار ہوں ” کو بہادر شاہ ظفر سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن دراصل یہ شعر جان نثار اختر صاحب کے والد مضطر خیر آبادی کا ہے۔ ایک اور مشہور شعر لیجیے جو اقبال سے غلط طور پر منسوب ہے
”خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی / نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا“ اب یہ شعر
مولانا ظفر علی خان کا ہے اور ان کی کتاب ” بہارستان ”میں موجود ہے۔ خبرناک بہت دلچسپ تحقیق پیش کر رہا ہے اور امید ہے بہت سے ادب شناس اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).