سو جوتے سو پیاز


2014 میں بین الاقوامی فوجیں افغان جنگ کی کامیابی کے اعلانات کے لہراتے پھرپھراتے جھنڈے تلے اپنے ملکوں میں واپس جا رہی تھیں امریکیوں کے لئے سنہری موقع تھا پتلی گلی سے نکل جاتے انگریزوں اور سوویت یونین کی طرح وعدہ کر لیتے پھر کبھی یہاں نہیں آئیں گے۔ برا ہو ان تمام اہداف اور تمام قوتوں کا جنہوں نے امریکیوں کو پھنسا لیا ورغلا لیا۔

اگر افغانستان میں قیام کا مقصد پاکستان کی تباہی تھی ایٹمی اثاثوں پر ہاتھ صاف کرنا تھا اسلامی دنیا کی ترکی کے بعد بچ رہنے والی دوسری طاقت ور فوج کو لیبیا شام اور عراقی فوج کی طرح برباد کرنا تھا تو مکمل ناکامی ہوئی ہے۔ پاکستانی جنرل بہت کائیاں ہیں ادھر ناٹو فورسز کی واپسی شروع ہوئی ادھر انہوں نے امریکیوں اور بھارتیوں کی پراکسیوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب تشکیل دے لیا۔ شمالی وزیرستان بھی صاف اور مالاکنڈ ڈویژن بھی صاف اور باڑ کی تعمیر بھی شروع۔

امریکی غلطی کر چکے ہیں جب بارک اوباما نے افغانستان میں فتح کا اعلان کر دیا تھا اس کی آڑ میں نکل جاتے چپکے سے۔ پتہ نہیں بھارتیوں نے ورغلایا یا یہودیوں نے اب کمبل سے جان چھٹتی نظر نہیں آتی۔ کبھی کہتے ہیں بلیک واٹر ایسے نجی کنٹریکٹر کو افغانستان کا ٹھیکہ دے کر جا رہے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں بھارتی افغان فوج کو سنبھال لیں۔ بھارتی بھی پورے بنیے ہی ہیں۔ چکمے دیتے رہے سی پیک کو متنازعہ علاقہ کا منصوبہ، خالص کشمیری تحریک آزادی کے سرخیل صلاح الدین کو بین الاقوامی دہشت گرد اور متعدد پاکستانی مذہبی تنظیموں کو دہشت گرد قرار دلا دیا اور بونس کے طور پر پاکستان کو گرے لسٹ میں بھی شامل کرا دیا۔ لیکن مجال ہے جو فوجی دستے افغانستان بھیجے ہوں۔

امریکی سمجھتے تھے عراق اور شام سے جمع کیے گئے داعشی شکست کو فتح میں تبدیل کر دیں گے۔ انہیں تاجکستان کے راستے روس بھی بھیجیں گے اور یغیوروں کے ساتھ کمک کے طور پر چین بھی اور انہیں ایرانیوں کے خلاف بھی استمال کریں گے اور پاکستان تو ہے ہی گھڑے کی مچھلی۔

سب برباد ہو گیا۔ داعشیوں نے اہداف تو کیا حاصل کر کے دینا تھے الٹا لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔ چینی روسی ایرانی اور پاکستانی اکھٹے ہو گئے ہیں متحد ہو گئے ہیں۔ نقصان امریکیوں اور بھارتیوں دونوں کا ہوا ہے اور فائدہ سارے کا سارا پاکستان کو۔ بھارتی ایران میں اپنے محفوظ ٹھکانوں سے محروم ہوئے اور امریکیوں نے اپنے معصوم حلیفوں افغان حکومت یہاں موجود داعشیوں اور بھارتیوں کے زر کثیر سے قائم سلیپر سیلوں کو چین روس ایران اور پاکستان کے چاہنے والے خوفناک طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ اب کوئی افغان شہر محفوظ ہے اور نہ کوئی اعلی عہدیدار جس کو جب چاہیں جہاں چاہیں مارا جا سکتا ہے۔ اسی خوف کے عالم میں اب اعلی افغان حکام دہشت گردی کے مسلسل واقعات پر پاکستان کا نام ڈرتے ڈرتے لیتے ہیں پہلے تو گویا ان کے منہ سے ہر وقت آگ کے گولے برستے تھے۔

اب تو یہ عالم ہے کوئٹہ میں خود کش حملہ ہوتا ہے کابل میں را کا مقامی چیف 14 گھنٹے کے اندر اغوا ہو جاتا ہے اور کٹی پھٹی لاش کی صورت میں ملتا ہے اور را والوں نے تاحال کابل میں نیا اسٹیشن چیف بھی تعینات نہیں کیا۔ اب تو حالات یہ ہیں افغان نائب صدر اور شمالی اتحاد کے مرکزی راہنما رشید دوستم امریکی چارٹر طیارہ سے جلاوطنی ختم کر کے افغانستان واپس آتے ہیں کابل کے ہوائی اڈے پر ان کے محافظوں کو ائر پورٹ پر ہی قتل کر دیا جاتا ہے اور امریکیوں کو پیغام دیا جاتا ہے داعشیوں کو شمالی اتحاد والوں کے ساتھ ملا کر نہ روس نہ چین نہ ایران اور نہ پاکستان کسی کو دھمکی نہیں دی جا سکتی۔

امریکیوں کو نامراد ہو کر افغانستان سے جانا ہے پہلے اکیلا پاکستان تھا اور سامنے عالمی فوجیں تھیں شمالی وزیرستان کے مولوی گل بہار تھے ازبک تھے تاجک تھے پنجابی طالبان تھے وادی تیرہ میں منگل باغ تھے مالاکنڈ ڈویژن میں صوفی محمد کا داماد تھا بلوچستان میں پراکسیوں کا ہجوم تھا اور بھارتی تھے لیکن اب کچھ باقی نہیں بچا اب بھارتی بھی پہلے کی طرح نہیں۔ اب پاکستان میں بھی صفائی ہو چکی ہے۔

اب افغانستان میں چینی بھی ہیں ایرانی بھی ہیں روسی بھی ہیں اور پاکستانی تو ہیں ہی۔ روس نے افغان امن کانفرنس میں افغان حکومت امریکیوں اور بھارتیوں کو بھی شرکت کی دعوت دی تھی۔ چار ستمبر سے شروع ہونے والی دو روزہ کانفرنس میں ان تینوں ملکوں نے شرکت سے انکار کر دیا ہے جبکہ وسط ایشیا کی تمام ریاستیں خاص طور پر ازبکستان تاجکستان اور قازقستان امن کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں پاکستان ایران اور چین تو ہیں ہی۔ یہ کانفرس افغانستان سے امریکیوں کی واپسی کا پیش خیمہ ہو گی۔

افغان حکومت نے اپنے سیکورٹی مشیر یا قومی سلامتی کے مشیر حنیف اتمار کو صرف اس لئے تبدیل کر دیا ہے اس نے امریکیوں کو بتائے بغیر کابل میں چینی سفیر سے ملاقات کر لی تھی۔ امریکیوں نے رشید دوستم اور افغان صدر میں اختلافات صرف اس لئے ختم کرائے ہیں تاکہ 13 سو کلو میٹر طویل افغان تاجک سرحد کے ذریعے داعشی اور تاجک مذاحمتی تحریک کے ذریعے روس اور سنٹرل ایشیا کے دوسرے ممالک میں انتہا پسندی کا پودا اگایا جائے اور افغانستان میں شکست کا بدلہ لیا جائے لیکن امریکیوں کے ساتھ وہ ہو رہا ہے جو سو جوتے اور سو پیاز کھانے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ الزامات لگاتے رہیں روسی اور تاجک لڑاکا طیاروں نے افغانستان میں طالبان کو نشانہ بنایا ہے لیکن جاننے والے جانتے ہیں جنہیں نشانہ بنایا گیا وہ شمالی اتحاد والے تھے یا داعشی۔ اصل میں عالمی میڈیا بھی پاکستانی میڈیا کی طرح جھوٹا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).