غزنی حملہ اور افغان صدر اشرف غنی کے پاکستان پر الزامات


غزنی پر ہوئے افغان طالبان کے تازہ حملے کے بعد افغان صدر اشرف غنی جس طرح پاکستان پر اپنے غصے کا اظہار کرتے رہے اور انہوں نے پاکستان کی حکومت اس کے اداروں، سیاسی قیادت اور صحافیوں کا نام لے کر الزامات عائد کیے وہ اس امر کی عکاسی کرتے ہیں کہ وہ افغان طالبان کے مقابلے میں فتح نہیں پارہے افغانستان نے اپنی ناکامی چھپانے کی غرض سے تمام توپوں کا رخ پاکستان کی جانب موڑ دیا ہے۔ حالانکہ افغانستان کی صورت حال بدستور عدم استحکام کی زد میں رہنا اس کے پڑوسیوں بالخصوص پاکستان کے لیے ایک انتہائی تکلیف دہ معاملہ بن چکا ہے۔

پاکستان پر ہزار الزام عائد کیے جائیں لیکن اس حقیقت سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں کہ پاکستان افغانستان کے بعد اس تکلیف دہ صورت حال سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے غزنی میں ہوئے حالیہ واقعات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ افغان حکومت کی گرفت امریکی حکومت کے باوجود اتنی کمزور ہے کہ جب چاہے افغان طالبان ان کی حکومتی عملداری کو چیلنج کر سکتے ہیں۔ بلکہ براہ راست قبضہ بھی کر سکتے ہیں افغان طالبان نے غزنی پر تقریباً پانچ دن قبضہ برقرار رکھ کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ کہیں بھی کبھی بھی معاملات کو افغان حکومت کے کنٹرول سے باہر کر سکتے ہیں۔

غزنی کی اس صورت حال سے صرف یہ صوبہ ہی متاثر نہیں ہوا ہے بلکہ کابل جانے والے راستوں پر بھی افغان طالبان کا بہت زیادہ اثر دیکھا گیا ہے۔ فاریاب اور بغلان میں بھی اسی قسم کی خونی مداخلت کے واقعات بار بار دیکھنے کو ملتے ہیں اور یہ حقیقت بالکل سامنے آکھڑی ہوتی ہے کہ افغان طالبان افغانستان کے بہت سارے علاقوں پر اپنی باضابطہ عملداری صرف اس لیے نہیں قائم کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ فضائی طاقت ان کے پاس موجود نہیں ہے اور فضائی طاقت کے سبب سے وہ اپنی عملداری کو مستقل قائم نہیں رکھ سکتے ورنہ یہ طے شدہ امر ہے اور امریکہ کے معروف تھنک ٹینک بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ افغان حکومت کی عملداری 65 فیصد افغانستان پر ہے جب کہ 23 فیصد میں مزاحمت جاری ہے اور 12 فیصد براہ راست افغان طالبان کے کنٹرول میں ہے۔ یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب دعوی 65 فیصد کا ہے تو حقیقت میں کنٹرول کتنے فیصد پر ہو گا۔

امریکہ میں ابھی حال ہی میں دستاویز ات ڈی کلاسیفائڈ ہوئی ہیں کہ جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ امریکہ نے 1995سے 2000 تک کے دوران تیس بار افغان طالبان سے براہ راست بات چیت کی اور اپنے ناپسندیدہ افراد (دہشتگرد) کی سرگرمیوں پر پابندیوں کے حوالے سے طالبان کو قائل کرنے کی کوشش کی مگر امریکہ اس میں ناکامیاب رہا۔ خیال رہے کہ امریکہ اور بھی ایسے معاملات میں مستقل کوششوں میں مصروف رہا مگر ناکام رہا۔

اس کی ایک مثال ایران کے انقلاب کے بعد صدر کارٹر کے دور سے آج تک امریکہ ایران معاملات کی بھی ہے کہ امریکہ دوسرے فریق کو اپنی مرضی کی شرائط تک لانے میں ناکام رہا۔ اسی طرح صدر کلنٹن کے دور سے امریکہ نے افغان طالبان سے براہ راست بات چیت شروع کی بش جونیئر کا رویہ نائن الیون کے بعد سخت ہو گیا مگر اس کے بعد صدر اوباما افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان سیاسی مفاہمت کی بات کرتے دکھائی دی۔

قطر میں افغان طالبان کے دفتر کھولنے کی تجویز اس کی واضح ایک مثال ہے کہ امریکہ کس حد تک خواہش مند تھا کہ کوئی راستہ نکل جائے اور اس جنگ سے چھٹکارا مل سکے کے جس کو اس سال اکتوبر میں سترہ سال کا وقت ہو جائے گا۔ صدر ٹرمپ بھی افغان طالبان سے براہ راست بات چیت کے خواہشمند ہیں گزشتہ عیدالفطر پر جنگ بندی نے یہ تاثر قائم کیا تھا کہ شایدافغان طالبان بھی جنگ سے تنگ آچکے ہیں مگر ان کے تازہ حملوں نے اس خیال کی نفی کر دی واشنگٹن پوسٹ میں میکس بوٹ نے تحریر کیا ہے کہ افغان طالبان کو اس جنگ کے دوران یہ یقین ہو چکا ہے کہ امریکی سرپرستی کے باوجود افغان حکومت ان کو شکست نہیں دے سکتی اور شکست نہ پانے کا واضح مطلب ہے کہ آپ برابری کی سطح پر ہیں۔

اس صورت میں امریکہ کے پاس راستہ یہ ہے کہ برطانیہ کی مانند اس خطے میں اگلے سو سال تک فوج کو تعینات رکھے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا تو یہاں سے امریکہ کے لیے بڑے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ ایک تجویز وہاں یہ بھی بڑی شد ومد سے دی جارہی ہے بلیک واٹر کو افغانستان میں بہت متحرک کر دیا جائے۔ اگر ایسا ہوا تو پاکستان اور افغانستان میں دہشتگری کی صورت ایک نئی لہرکی صورت میں سامنے آسکتی ہے۔ پھر داعش کا افغانستان میں اثرورسوخ کا قائم کرنا بیک وقت پاکستان، افغانستان اور افغان طالبان کے لیے سنگین خطرات کی نشاندہی کرتا ہے کیونکہ داعش افغان طالبان سے بھی متصادم ہو رہی ہے اور ایسی صورت امریکہ کے لیے بہت پسندیدہ ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ افغانستان میں داعش کے پنپنے میں کس کا ہاتھ ہے۔

لیکن اس سب کے باوجود غزنی کے حالیہ واقعات اور اس سے پہلے کا سارا نزلہ افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان پر گرا دیا اور پاکستان کے خلاف بات کرتے ہوئے پاکستانی ممتاز صحافیوں کو بھی رگڑتے ہوئے تقریر جھاڑ دی حالانکہ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ جب کچھ ماہ قبل پختون لانگ مارچ ایک تنظیم کی جانب سے پاکستان میں کیا جارہا تھا تو انہوں نے اس کے حق میں بیان داغ دیا تھا حالانکہ یہ صریحاً پاکستان کا داخلی معاملہ تھا اور یہ حقیقت بھی ان کے ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ان کے صدارتی انتخاب کے وقت نہ صرف کہ پاکستان غیر جانبدار رہا تھا بلکہ دنیا نے اس کی غیر جانبداری کو تسلیم بھی کیا تھا۔

اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم نوازشریف نے افغان سیاسی زعما سے ملاقات کر کے ان کو یقین دلایا تھا کہ پاکستان کا کوئی پسندیدہ یا ناپسندیدہ امیدوار نہیں ہے اس پاکستانی حکمت عملی سے پاک افغان معاملات میں بہتری کی اُمید جاگ گئی تھی مگر افغان حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ فوجی طاقت اور اقتصادی مدد کے سبب سے جب کہ بھارت کو حاصل امریکی خوشنودی اور اس کی افغانستان کو دی جانے والی معاشی امداد کی وجہ سے ان دونوں کے حلقہ اثر سے باہر نکل کر سوچ ہی نہیں سکتے اور بھارت کی پاکستان کے پڑوس میں ہونے والی سرگرمیوں کی وجہ سے پاکستان کا تشویش میں مبتلا ہو جانا ایک فطری عمل ہے اور جب پاکستان یہ دیکھتا ہے کہ غزنی میں ہونے والے حملوں میں افغان طالبان کی براہ راست حمایت یہاں تک کہ پاکستان میں جنازے لانے تک کا الزام دھر دیا جاتا ہے تو پاکستان کے لیے بھی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ افغانستان سے کوئی بھلائی کی امید رکھے۔ جنازے لانے کا پتہ چل گیا مگر نہ تو جنازے لانے والوں کو پکڑا اور نہ ہی جنازوں کو روکا حالانکہ کہاں غزنی اور کہاں پاکستانی سرحد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).