پولیس والوں کے گزر اوقات


جب کوئی جوان پولیس میں بھرتی ہوتا ہے تو اس کی زندگی کا ایک نیا باب شروع ہو جاتا ہے۔ جس دن بھرتی کی خبر اہل و عیال میں پہنچتی ہے رشک آفریں جوان کے لیے رشتوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ مامے چاچے پھوپھیاں ماسیاں جوان کی نظر اتارتے دکھائی دیتے ہیں اور مقصد صرف پولیس والے بیٹے بھتیجے کا دل جیتنا ہوتا ہے۔ بیس بائیس ہزار ماہانہ کی نوکری ملنے کے بعد جوان ایسا قیمتی اثاثہ ہو جاتا ہے کہ گویا ہتھیلی کا چھالا۔ پولیس میں بطور کانسٹیبل بھرتی ہونے والے زیادہ تر جوانوں کا تعلق متوسط طبقے سے ہوتا ہے جہاں سرکاری نوکری مل جانا کسی سلطنت کی بادشاہت مل جانے سے ہرگز کم نہیں سمجھا جاتا۔

پولیس میں بھرتی ہونے کے بعد جوان کی چند ہفتے کچھ ماہ خوب آؤ بھگت کی جاتی ہے صرف رشتہ دار ہی نہیں محلے کی کئی دل پھینک دوشیزائیں بھی جوان کو دیکھ کر بلا وجہ مسکراتی اور شرماتی ہیں۔ محلے سے بھی غیر متوقع طور پر زردے اور حلوے کی پلیٹوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ پھر ایک دن کوئی ماسی پھوپھی مامی جوان کا ماتھا چوم کر کہہ جاتی ہے“ رکھو اج توں میرا پُتر“ پھر جوان کی آدھی ٹریننگ بھی مکمل نہیں ہونے پاتی اور شادی کے لیے دباؤ پڑنا شروع ہو جاتا ہے لہذا بھاری قرض اٹھا کر انڈر ٹریننگ جوان کو کپڑے کی دکان سنار کی دکان اور راشن کی دکان کا مقروض کر دیا جاتا ہے شادی کر دی جاتی ہے اور بیچارہ جوان کینٹین پہ جانے والے دوستوں سے کنی کتراتا رہتا ہے۔

میرے بہت سے بیچ میٹس کی شادیاں دوران ٹریننگ انجام پائیں اور پھر وہ بیچارے یا تو چھٹی کی عرضی لیے افسران کے دفاتر کے باہر پائے گئے یا غیر حاضر رہے یا گراونڈ میں غیر حاضری کی پاداش میں سزا کی تکالیف اور پٹِھو ٹہلتے پائے گئے۔ خیر شادی کے بعد بچے ہوجاتے ہیں جیسے میرے اب دو بچے ہیں۔ پھر بیس بائیس ہزار تنخواہ والے جوان سے بہت بڑی بڑی امیدیں وابسطہ کر لی جاتی ہیں حالاں کہ سب کو پتہ ہوتا ہے کہ تنخواہ مہینے میں ایک ہی بار ملتی ہے۔

سب سے پہلے والدین بہن بھائی چاہتے ہیں کہ ہمارا بیٹا بھائی پولیس والا ہے لہذا ہماری ہر خواہش پوری ہونی چاہیے۔ اس کے بعد بیوی یہ چاہتی ہے کہ میں پولیس والے کی بیوی ہوں یہ میرا حق ہے کہ محلے برادری میں سب سے شاہانہ انداز زندگی میرا ہو۔ قرض خواہ چاہتے ہیں کہ پولیس والا ہے اسے چاہیے ہمارا قرض جلد از جلد لوٹا دے اس نے کونسا سارا قرض تنخواہ سے ہی ادا کرنا ہے۔ اور بیس بائیس ہزار تنخواہ والا جوان منہ چھپاتا پھرتا ہے۔

آئیے ایک چھوٹی سی فیملی والے پولیس ملازم کا بجٹ ڈسکس کرتے ہیں۔ دو بچے۔ ایک بیوی۔ اور ماں باپ۔ پانچ ہزار ہر ماہ امی ابو کو دیتا ہے۔ سات ہزار کا راشن آتا ہے۔ چار اور پانچ ہزار کے درمیان بجلی کا بل آتا ہے۔ چوبیس سو کے دو سلنڈر گیس کے ہر ماہ استعمال ہوتے ہیں۔ چار ہزار دو بچوں کے سکول کی فیس ہے۔ پچیس سو سکول کے رکشے والا لیتا ہے۔ بیس بیس روپے دونوں بچے روز سکول لے کر جاتے ہیں۔ مطلب بارہ سو۔ تین ہزار دودھ والا لیتا ہے۔ پانچ ہزار کی پورے مہینے سبزی اور گوشت وغیرہ آتا ہے۔ ہر ماہ سکول میں کبھی کلر ڈے کبھی کوئی ڈے۔ ہزار روپے ماہانہ جوان کا اپنا موبائل خرچ جس میں نیٹ پیکج میسج پیکج اور کال پیکج۔ ایک ہزار سے پندرہ سو روپے تک موٹر سائیکل کا پیٹرول۔ بیماری صحت شادی غمی خوشی کہیں آنا جانا۔ جوان کا اپنا جیب خرچ تین ہزار۔ باربر شاپ کا خرچ۔ دھوبی کا خرچ۔ مہینے میں ایک اتور بچوں کے ساتھ آؤٹنگ کا خرچ۔

یہ ایک نارمل اخراجات کی فہرست ہے اور پولیس ملازم کی تنخواہ اب وقت اور حالات کے مطابق کیا ہونی چاہیے؟ جس جوان کا بجٹ ہم نے ڈسکس کیا اس کی تنخواہ سترہ سال نوکری کرنے کے بعد انتالیس ہزار آٹھ سو کچھ روپے ہے جس ماہ بیوی بچوں کے جوتے کپڑے خرید لیے دس بیس ہزار کا قرض چڑھ گیا۔ پھراس قرض کو اتارنے میں کئی ماہ درکار۔ سکول میں نئی کلاسز بیٹھنے کا سیزن شروع قرض درکار۔ کسی عزیز کی شادی قرض درکار۔ کوئی بیمار قرض درکار۔ اب ان تنخواہوں کا فیصلہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے منصف کرتے ہیں جنھیں شاید ان تمام مسائل کا ادراک ہی نہ ہو۔ کرپشن سے پاک پولیس کا راگ الاپنے والو پہلے ان قرضوں سے تو نجات دلاؤ۔ کبھی پولیس ملازمان کے مسائل بھی جاننے کی کوشش کرو۔ ایک مقروض محرومیوں کا شکار پولیس ملازم سے آپ کیسے امید کرتے ہیں کہ وہ کرپشن نہیں کرے گا۔ یا ضمیر کا سودا نہیں کرے گا۔ سب لوگ درویش نہیں ہوا کرتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).