بہاولپورکا عجائب گھر۔۔۔ جنوبی پنجاب کی ثقافتی اقدارکا امین



ترقی یافتہ معاشروں میں عجائب گھرکی اہمیت مسلمہ ہے۔عجائب گھرکا قیام متمدن قوموں کی پہچان اوران کے ورثے وثقافت کی بقاء و ارتقاء کی ضمانت ہوتے ہیں۔ متمدن قومیں نسلِ نو میں ثقافت کے تحفظ ان کے فروغ کے بارے میں شعور وآگاہی پیدا کرنے کے لئے عجائب گھر وں کا قیام عمل میں لاتی ہیں۔عجائب گھرایک ایسا ادارہ ہے جہاں تاریخی،سائنسی،سماجی وثقافتی اہمیت کی حامل اشیاء عوام اور تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے افراد کو معلومات وتفریح فراہم کرنے کے لئے رکھی جاتی ہیں

اس وقت بھی دنیا میں آرٹ،ہسٹری،ملٹری اینڈ وار،آرکیالوجیکل،نیچرل ہسٹری،موبائل اوراوپن ائیراقسام کے عجائب گھرلوگوں کو معلومات و تفریح فراہم کرنے کے علاوہ تحقیقاتی مراکزکے طور پر بھی کام کر رہے ہیں ۔پاکستان میں ان عجائب گھروں کی تعداد قیام پاکستان کے وقت سات تھی جن میں لاہور، پشاور ، ہڑپہ، موہنجوداڑو،ٹیکسلا اور قلعہ لاہور کا آرمری عجائب گھرشامل تھے تا ہم ان عجائب گھروں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ جب ہم سابقہ ریاست بہاولپور کی تاریخ عجائب گھر کے حوالے سے دیکھتے ہیں تو قدامت کے لحاظ سے یہ بھی کسی سے کم نہیں ہے۔

برصغیر کی دوسری بڑی ریاست ،ریاست بہاولپور جس نے پاکستان کے ساتھ غیر مشروط الحاق کیا تھا اس ریاست کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ا س کا اپنا ایک عجائب گھرـ”سلطانی میوزیم”کے نام سے ڈیرہ نواب صاحب احمدپورشرقیہ میں موجود تھا ۔عجائب گھرمیں ٹیپو سلطان کی تلوار ،نادر شاہ کی پیٹی ،ٹوپیاں،سکے اور نوادرات کا سرمایہ موجود تھا۔اگرچہ یہ ایک چھوٹاسا عجائب گھرتھاجس میں نوابین ان کے اہل ِخانہ،غیرملکی شخصیات اور سرکاری و ذاتی مہمانوں کو جانے کی اجازت تھی تاہم اس عجائب گھرنے ریاست بہاولپور میں دیگر عجائب گھروں کے قیام کے لئے راہ ہموار کی تھی ۔1942ء میں ریاست بہاولپور کے چڑیا گھر میں ایک عجائب گھرتعمیر کیا گیا جو کہ آج بھی قائم ہے۔اسی طرح گورنمنٹ صادق ایجرٹن کالج بہاولپور کے پرنسپل سر ڈکنسن نے اپنے نام کی مناسبت سے “ڈکنسن ہال”کے نام سے کالج میں ایک عجائب گھر قائم تھا۔

خطہ ء بہاولپور جغرافیائی حوالے سے پنجابی،سندھی،سرائیکی،بلوچی اور بیکانیری و صحرائی ثقافت کا اہم مرکز رہا ہے۔ہمسایہ ملک بھارت کا صحرائے راجھستا ن بہاولپورکے چولستان اور مشرقی بارڈر سے تین سو میل تک متصل ہے ۔ بہاولپور کا علاقہ آج سے تقریباًپانچ ہزار سال قبل بھی اعلیٰ تہذیب وتمدن کا گہوارہ تھا،اس کے صحرائے چولستان میں کم وبیش (32)قلعوں کے آثار ملتے ہیں جن میں سے قلعہ ڈیراور کو عصری ،تاریخی وجغرافیائی حوالے سے بڑی اہمیت حاصل ہے۔ گذشتہ دنوں ریڈیو پاکستان بہاول پور کی ٹیم جو اسٹیشن ڈائریکٹر طارق حسین شاہ ، ڈپٹی کنٹرولر نیوز سجاد پرویز ، نیوز ریورس پرسن نجمہ حنیف ، سب ایڈیٹر رضوان عباس اور سینئر صحافی خالد خلیل سید پر مشتمل تھی نے عجائب گھر کا خصوصی دررہ کیا۔اس موقع پر ڈائریکٹر عجائب گھر محمد زبیر ربانی ، اسسٹنت ڈائریکٹر رشید احمد، آرٹسٹ فواد احمد اور افسر تعلقاتِ عامہ نادیہ نورین نے ریڈیو پاکستان کی ٹیم کیو خوش آمدید کہا ۔

اس موقع پر عجائب گھر کے ڈائریکٹر محمد زبیر ربانی نے بتایا کہ بہاولپور کی جغرافیائی ،تاریخی وثقافتی پــسِ منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے حکومت پنجاب نے 1971ء میں بہاولپور میں ایک عجائب گھر قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔اس وقت یہ لاہو ر کے عجائب گھر کا ہی منصوبہ تھامگر 1990ء میں اسے ایک خودمختار ادارے کی حیثیت دے دی گئی اور یہاں کے مالی وتنظیمی معاملات نمٹانے کے لئے بورڈ آف گورنر ز تشکیل دیا گیا۔بہاولپور کے عجائب گھرکو بنیادی طور پر”ایتھنالوجیکل میوزیم”کا درجہ حاصل ہے کیونکہ اس میں قومی ،علاقائی اور مقامی ثقافت سے متعلق نادر ونایاب اشیاء موجود ہیں جن کی درجہ بندی کے لئے دس گیلریاں بنا ئی گئی ہیں تاہم کچھ اہم نوادارت باہر بھی مشتہرکیے گئے ہیں ۔

عجائب گھر کے مرکزی دروازے پر نصب دوسری جنگ عظیم میں استعمال ہونے والی توپیں ہیں جو نواب آف بھاولپور سر صادق خان عباسی خامس کو انکی خدمات کے اعزاز میں عطاء کی گئیں۔ لیکن عجائب گھر میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلی نظر سر صادق خان عباسی کے زیر استعمال رہنے والے منفرد فورڈ ووڈی اسٹیشن ویگن ہے جو لکڑی اور دھات کا بہترین امتزاج ہے ۔عجائب گھر کا ایک اور اہم ترین آرٹیکل بھاپ سے چلنے والے ایک صدی پرانا ریلوے انجن ہے جو احمد پور شرقیہ اور ہیڈ پنجندکے درمیان چلتا تھایہ کچھ عرصہ محکمہ انہار کی تحویل میں بھی رہا جس کو 2004ء میں سابق ڈائیریکٹر عجائب گھر حسین احمد مدنی کی ذاتی کو ششوں سے عجائب گھر کا حصہ بنایا گیا۔اس عجائب گھر کی گیلریز کو مختلف موضوعاتی عنوانات سے منسوب کیا گیا ہے۔

عجائب گھر کی گیلریز کا آغاز تحریکِ پاکستان گیلری سے ہوتا ہے جس میں مسلمانوں کی دو سو سالہ جدوجہد کو تصویری شکل دی گئی ہے۔برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی آزادی کی یہ جدوجہد 1857ء سے 1947ء  تک کے واقعات پر مشتمل ہے۔گیلری میں تصویری شکل میں آویزا ں سب سے پہلا واقعہ1757ء میں نواب سراج الدولہ کے دور میں پیش آنے والاجنگ پلاسی کا ہے۔ واقعاتی ترتیب کو مدِنظر رکھتے ہوے اس گیلری میں نواب آف میسور، ٹیپو سلطان کے بہادری کے واقعات ،مغلیہ حکومت کا اختتام،مسلم کش فسادات،برطانوی سامراجیت اور 1857ء کی جنگ ِآزادی کے واقعات کو پیش کیا گیا ہے۔اس طرح قائداعظم محمد علی جناح،محترمہ فاطمہ جناح، ڈاکٹرعلامہ اقبال و دیگر قومی رہنماؤں کو الگ الگ نمایاں تصاویر میں دکھایاگیا ہے۔ تحریکِ پاکستان کے لئے قلم کے ذریعے جذبہ حریت پیدا کرنے والے مسلم زعماء میں سے سرسیداحمد خان،مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خان کی تصاویر بھی اس گیلری کا حصہ ہیں۔

قیام پاکستان اور مہاجرین کے آمد کے تمام حالات وواقعات کو بھی اصل شکل میں اس گیلری میں پیش کیا گیا ہے۔طالب علموں کے لئے یہ گیلری کسی سرمائے سے کم نہیں ہے۔تحریکِ پاکستان سے متعلق اس گیلری کو اپنے اصل حقائق کے ساتھ دیکھنے سے اپنے قائدکی جرأت وبے باکی اور جدوجہد سامنے آتی ہے تو وہیں پر وطن کی محبت اور آزادی کی قدردل میں گھر کر جاتی ہے۔ تین پہیوں والی ایک منفرد اے سی گاڑی جوصادق گڑھ پیلس میں نواب صاحب اور انکی والدہ کے استعمال میں رہنے والی گا ڑیوں میں سے ایک ہے اس گیلری میں نمائش کے لئے رکھی گئی ہے۔ ڈائرکٹر عجائب گھر زبیر ربانی نے مزید بتایا کہ دوسری گیلری اسلامی آرٹ گیلری کے نام سے جانی جاتی ہے۔

اس میں 712ء کے بعد کے اسلامی فنون کو پیش کیا گیا ہے جب محمد بن قاسم نے سندھ کو فتح کیا تو وہاں پر ایک مستقل حکومت کی بنیاد رکھی جس کے ساتھ ہی یہاں پر نئے فنون و دستکاریاں متعارف ہوئیں۔مسلمان اپنے اعلیٰ تہذیب و تمدن اور اسلامی تعلیمات کی رو سے ایک الگ مقام رکھتے ہیں لہذا مسلمانوں نے اپنے اسی الگ تشخص کو برقرار رکھنے کے لئے اپنا لباس بھی اپنی روایات اورمذہب کے مطابق بنایا۔اس گیلری میں اونٹ کی کھال اور ہاتھی دانت سے بنی اشیاء ،کپڑے،زیورات اور دھاگے سے تیار شدہ انواع واقسام کے نوادرات موجود ہیں۔ پارچہ جات میں سلک،سوسی اور کھدر کے کپڑوں پرکڑھائی،بلاک پر نٹنگ ، خوبصورت شالوں اور چغوں سے اس گیلری کو مزین کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سامان حرب اور مغلیہ دور سے متعلق اشیاء رکھی گئی ہیں۔

سامانِ حرب میں مسلمانوں کے زیرِ استعمال رہنے والے نیزے ، ڈھالیں ،تلوار،تیر ،خنجر،زرہ بکتر ،بندوقیں، توپ کی نالیاں، مسلمانوں کی فتوحات اور جنگوں کی یاد دلاتے ہیں ۔ لکڑی اور تانبے کے منعقش چیزوں کا ذخیرہ بھی اسی گیلری میں دیکھنے کو ملتا ہے۔وسط میں نواب سر صادق خان کے استعمال میں رہنے والی دو توپوں کو بھی عوام کے لیے مشتہر کیا گیا ہے۔ میوزیم کی گیلری تین حصوں پر مشتمل ہے جس میں قبل ازاسلام دور کی اشیاء رکھی گئی ہیں۔ تین حصوں کی تقسیم کچُھ اس طرح ہے ۔زمانہ قبل ازتاریخ ، گندھاراآرٹ اور ہندو آرٹ۔

وادی سندھ کی تہذیب یا پتھر کا زمانہ اس گیلری کا ایک اہم حصہ ہے۔ پاکستان ایک قدیم تاریخی ورثے کا امین ہے۔ یہاں سے پانچ ہزار سال قبل از مسیح دور کے قدیم آثار دریافت ہوئے ہیں۔ یہ آثار پاکستان کے علاقے پوٹھوہار ، وادی سوان، خانپور کی غاریں ، روہی کی پہاڑیاں ، مہر گڑھ اور کلی گْل محمد کے مقامات سے ملتے ہیں۔ ان سب کا زمانہ تقریباًپانچ لاکھ سال سے پانچ ہزار (ق ۔م) تک محیط ہے ۔ پتھر کے بعدکے دور کے انسان نے مختلف دھاتوں سے مختلف اقسام کی اشیاء بنانا شروع کر دیں تو ان کا استعمال عام ہو گیا۔ اس دور کے آثار ہمیں بلوچستان اور پنجاب میں چھوٹی چھوٹی بستیوں کی صورت میں ملتے ہیں۔ اس کلچر نے آگے چل کر ممتدن ثقافت کی شکل اختیار کر لی۔ وادی سندھ میں موہنجوداڑو اور پنجاب میں ہڑپہ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔

آثارقدیمہ گیلری کے دوسرے سیکشن میں گندھارا آرٹ کو پیش کیا گیا ہے۔ جو گندھارا تہذیب کی عکاسی کرتا ہے گندھارا آرٹ کے نودرات جہاں پر ان کے عقائد و افکار کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں وہیں پر ہی ان تعمیراتی نودارت کے تخلیق کاروں کی صلاحیت اور ذوق و شوق کو بھی ہمارے سامنے لاتے ہیں۔ فن تعمیرات کے یہ نمونے اپنی خوبصورتی اور اچھوتے پن کی وجہ سے نایاب ہیں۔ نمائش کے لئے رکھے گئے نودرات میں مہاتمابْدھ کے مجسموں کے علاوہ پتھر کی سیلیں جن پر مہاتمابْدھ کی زندگی اور اس کی تعلیمات پر مبنی پیغامات کندہ ہیں۔ ان مجسموں میں سب سے اہم مجسمہ سوئی وہار(بہاولپور )کے قدیم ٹیلوں کی کھدائی کے دوران ملنے والا گوتم بُدھ کا وہ نادر مجسمہ بھی موجود ہے جہاں پر وہ مسکراتے ہوئے نظر آرہے ہیں جن کا تعلق پانچویں صدی عیسوی سے ہے۔سرسوتی کا معجزہ، مہاتما بُدھ کی موت کا منظر ،چونے کے سر،ورزش کرنے والا پتھر اور خاص طور پر پتھر کی گول پلیٹ جس کے وسط میں ایک جوڑا ہاتھ میں پیالہ لئیے کھڑا ہے انتہائی قا بل دید ہیں۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

سجاد پرویز

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سجاد پرویز

سجاد پرویز ڈپٹی کنٹرولر نیوز، ریڈیو پاکستان بہاولپور ہیں۔ ان سےcajjadparvez@gmail.com پر بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

sajjadpervaiz has 38 posts and counting.See all posts by sajjadpervaiz