کیا ملا منصور کی ہلاکت سنگ میل ہے؟


\"obama\"امریکہ کے صدر باراک اوباما نے ہفتہ کے روز پاک افغان سرحد پر ایک ڈرون حملے میں طالبان کے سربراہ ملا اختر منصورکی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سنگ میل قرار دیا ہے۔ حیرت ہے امریکی صدر ایک ایسی تنظیم کے سربراہ کو مارنے پر خوشی اور کامیابی کا اعلان کررہے ہیں ، جس کے ساتھ گزشتہ ایک دہائی سے مذاکرات کرنے اور اسے افغانستان کے سیاسی عمل کا حصہ بنانے کے لئے کوششیں کی جارہی تھیں۔ امریکہ اب بھی چار ملکوں کے نمائندوں پر مشتمل گروپ کا رکن ہے جو طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کے لئے کام کررہا ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم نے ایک طرف پاکستانی علاقے میں ڈرون حملہ پر امریکہ سے احتجاج کیا ہے اور اسے ملکی سالمیت کے خلاف قرار دیا ہے تو دوسری طرف ابھی تک ملا منصور کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی گئی۔ امریکہ، افغانستان کے صدر اشرف غنی، چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبد اللہ اور افغان انٹیلی جنس ایجنسی نے بھی اس خبر کی تصدیق کردی ہے۔ لیکن جس ملک کے پاس اس ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے دونوں افراد کی لاشیں ہیں، وہی یہ تصدیق کرنے سے انکار کر رہا ہے۔ ڈرائیور کی شناخت کرلی گئی ہے لیکن ملا اختر منصور کی ہلاکت کی تصدیق کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ طالبان کے بعض لیڈروں نے بھی یہ مان لیا ہے کہ ملا منصور ہلاک ہو چکا ہے۔ اتوار کو نئی قیادت کا فیصلہ کرنے کے لئے شوریٰ کا اجلاس بھی طلب کرلیا گیا تھا۔

ملا اختر منصور نے گزشتہ برس امریکہ اور افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس عمل کو افغان انٹیلی جنس نے ملا عمر کی موت کی خبر عام کرکے نقصان پہنچایا تھا۔ اس کے بعد طالبان جنگجو گروہوں پر قابو پانے کے لئے ملا منصور نے سخت حکمت عملی اختیار کی تھی۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کو بھی اس حکمت عملی کی کسی حد تک سرپرستی حاصل تھی لیکن اس بات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ طالبان لیڈر اپنے معاملات میں بہت زیادہ مداخلت برداشت نہیں کرتے۔ پاکستان کی اس بات میں بھی وزن ہے کہ طالبان کو اسی وقت مذاکرات پر آمادہ کیا جا سکتا ہے جب ان کے سب گروہ کسی ایک مضبوط لیڈر کی کمان میں مربوط ہوں۔ اسی لئے پاکستان نے ملا منصور کو ایسے لیڈر کے طور پر مستحکم کروانے کے لئے ضرور کوششیں کی ہوں گی۔ لیکن دس ماہ کی مختصر مدت میں ملا عمر جیسے بانی لیڈر کا خلا پر کرنا ممکن نہیں تھا۔ وہ دو دہائی تک طالبان کے لیڈر رہے تھے اور کوئی گروہ ان کی قیادت کو چیلنج نہیں کرتا تھا۔ ملا منصور کی ہلاکت کے بعد صورت حال مزید پیچیدہ اور مشکل ہو چکی ہے۔ اس میں پاکستان کے لئے ہی حالات دشوار نہیں ہوں گے، امریکہ اور افغان حکومت کے لئے بھی امن کے لئے کام کرنا اور تمام افغان دھڑوں کو بات چیت کے ذریعے سیاسی عمل کا حصہ بننے پر آمادہ کرنا آسان نہیں ہوگا۔

ان حالات میں امریکی صدر کی اس بات میں وزن نہیں کہ ملا منصور کو مار کر کوئی بڑا سنگ میل عبور کرلیا گیا ہے۔ امریکہ نے اس حملہ سے اپنی عسکری برتری کا مظاہرہ تو ضرور کیا ہے لیکن اسے ایک بہتر اور دانشمندانہ سیاسی اور سفارتی کوشش قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ملا اختر منصور کی موت سے افغان طالبان کے ساتھ اعتماد کی فضا مزید خراب ہوگی جو مذاکرات اور قیام امن کے لئے ضروری ہے۔ امریکی صدر اور حکومت کو اگر ابھی اس ڈرون حملہ کے مہلک اثرات کا اندازہ نہیں ہے تو جلد ہی یہ حقیقت ان پر آشکار ہونا شروع ہو جائے گی۔ اب جو بھی شخص طالبان کی قیادت کا دعویدار ہوگا، وہ خود کو امریکہ دشمن ثابت کرنے کے لئے زیادہ شدت پسندی سے کام لے گا۔ اگر افغانستان میں امن امریکی حکومت کا بنیادی مقصد ہے تو وہ اسے پانے کے راستے سے بھٹک چکی ہے۔

اسی طرح پاکستان کی طرف سے غیر واضح حکمت عملی اختیار کرنے سے بھی کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکے گا۔ پاکستان کو یا تو طالبان گروہوں کے ساتھ مکمل لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے ’کوئٹہ شوریٰ‘ کے نام سے بلوچستان میں طالبان قیادت کی موجودگی کو ختم کرنا ہوگا یا طالبان کے لیڈروں پر یہ واضح کرنا ہوگا کہ اگر وہ پاکستان کی مدد اور تعاون چاہتے ہیں تو انہیں اس کی بات بھی ماننا پڑے گی۔ افغانستان میں مزید خوں ریزی پاکستان کو سفارتی لحاظ سے تنہا کرنے اور افغانستان میں بھارت کے رسوخ میں اضافہ کا سبب بنے گی۔ یہ صورت حال کسی طرح بھی پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ ملا منصور کی بے وقت موت سے پاکستان کی پوزیشن اور امن مذاکرات کے امکانات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ لیکن اس بحران سے نکلنے کے لئے فریقین میں اعتماد پیدا کرنا ضروری ہے۔ امریکہ اور افغان حکومت افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف بھارت کو سرگرمیوں کی اجازت دے کر ، اس اعتماد سازی میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتیں۔ نئی صورت حال میں خرابی کی بجائے بہتری کا پہلو نکالنے کے لئے سب کو پرانی حکمت عملی کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali