ایکسیوز می، مشرق سے مراد ہم ہیں ۔۔۔


\"zeeshanپھر سننے میں آیا ہے کہ مغرب روحانی طور پر خالی اور نا مکمل ہے، وہاں کے لوگوں کا اندرون پسماندہ ہو چکا ہے. لوگ بے چین اور بے سکون ہیں اور اور سکون کی تلاش میں بے قرار ہیں، یوں ہم ہی وہ مکمل لوگ ہیں جن سے مغرب کو سیکھنا چاہئے اور اپنی لائبریری و لیبارٹری میں ہمارے بھجن گانے چاہئیں – مغرب کا باطن کیسے ناکارہ ہے اس کے ثبوت درج ذیل ہیں مگر پہلے سن لیجئے کہ میں بھی آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ جب باطن بگڑ جاتا ہے تو ظاہر کی کٹیا میں بھی تخریب کی آگ بھڑک اٹھتی ہے –

1 – پہلا ثبوت یہ ہے کہ مغربی معاشرہ میں امن و خوشحالی ہے، اور باہمی تعاون و تبادلہ پر قائم ایک مستحکم اور مسلسل ترقی کرتا سماج موجود ہے – اگر ان کا اندرون آباد ہوتا تو یقینا پلٹنے جھپٹنے اور لہو کو گرم رکھنے کی ثقافت موجود ہوتی –

2 — ساری دنیا کے لوگ بے سکونی اور اضطراب کی تلاش میں ان کے معاشروں کا رخ کر رہے ہیں-

3 – اہل مغرب سائنس و ٹیکنالوجی سمیت علوم کے تمام میدانوں میں دنیا کی قیادت کر رہے ہیں. ان کے بے چین افراد لائبریری و لیبارٹری میں روحانی سکون کو تلاش کرتے کرتے کوئی مادی حقیقت تلاش، ایجاد یا دریافت کر بیٹھتے ہیں…. کتنے بد قسمت ہیں کہ جو ڈھونڈھنا چاہتے ہیں وہ ملتا ہی نہیں –

4 — مشرقی ایشیائی ممالک کے بدھسٹ و کنفیوشس طلباء جب وہاں تعلیم کے حصول کے لئے جاتے ہیں اور واپس لوٹتے ہیں تو ان کی اکثریت یا تو کرسچن (مسیحی) ہو کر آتی ہے یا پھر الحاد قبول کر لیتی ہے –یہ تو ہم جانتے ہی ہیں بدھ ازم سراسر نام ہی باطنی سکون و مسرت کا ہے مگر دیکھئے لوگ سکون دے کر بے چینی لے رہے ہیں –

یہ اور اس جیسی ان گنت مثالیں بتاتی ہیں کہ اقوام مغرب کے باشندے نا مکمل ہیں. انہیں مشرق سے روحانیت سیکھنی چاہئے- ایکسیوزمی، مشرق سے مراد ہمارا ملک پاکستان ہے- اگر ثبوت چاہئے تو دیکھ لیں کہ ہمارے قومی شاعر سارے مشرق کے شاعر ہیں – شاعر مشرق علامہ محمد اقبال سمیت ہمارے روحانی رہنما ہماری اور ساری دنیا کے لوگوں کی روحانی پیاس بجھا سکتے ہیں- اور اس معاملے میں ان بزرگوں کے ہم پاکستانی پیروکار بطور مثال ساری دنیا کے سامنے پیش کئے جا سکتے ہیں کہ دیکھئے کیسے نادر نمونے باطنی نشودنما کے نتیجے میں تخلیق پا چکے ہیں –دہرانا ضروری نہیں کہ جتنا سکون باطن میں ہو گا اتنا ہی ظاہر سے چھلکے گا – ہماری روحانی تکمیل اور ہمارے ظاہر و باطن کی ترو تازگی اور عروج کی کچھ مثالیں درج ذیل ہیں –

1 — ہما رے یہاں ساٹھ ہزار سے زائد معصوم شہری قتل کر دیے جاتے ہیں مگر ہم قاتلوں کے لئے جواز ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں، تاکہ انہیں معصوم ثابت کیا جا سکے— ہے ناں ہماری صلہ رحمی اور حسن سلوک کی اعلیٰ مثال کہ ہم مقتولوں سے زیادہ قاتلوں کے خیرخواہ ہیں ؟ ارے یہ سب ہماری باطنی ترقی کا نتیجہ ہے مگر دجالی میڈیا اصل بات چھپا جاتا ہے –

2 – ایک بھائی اپنی بہن کو غیرت کی نمائش میں قتل کر دیتا ہے. ایک گھنٹہ وہ لڑکی لوگوں کے بیچ سارے ہجوم سے رحم کی فریادیں کرتی رہتی ہے مگر بھائی موبائل پر کھیلتا رہتا ہے، لوگ ویڈیو بناتے رهتے ہیں اور آخر میں لڑکے کے والدین اپنے بیٹے کی غیرت کی تحسین کرتے ہیں. جبکہ روحانی طور پر کامل لوگ فیس بک و ٹویٹر پر قدم رنجہ فرما کر موم بنی اٹھائے امن کی آرزو مند خواتین اور لبرل سیکولرز پر طنز کر کے روحانی سلوک کے مزید منازل طے کرتے جاتے ہیں.

3 – ایک لڑکی کو باندھ کر گاڑی میں جلا دیا جاتا ہے- مگر ہمارا روحانی کشف و سکون اتنا لامحدود ہے کہ ہمیں ذرا بھی تکلیف و اذیت نہیں ہوتی مگر یہ مغرب پرست لبرل سیکولر طبقہ مغرب کی طرح خود بھی اتنا مادیت پسند (بلکہ مادہ پرست کہئے) ہے کہ آہ وازیاں کرتا پھر رہا ہے – اس طبقہ کو بھی مغرب کی طرح روحانی کشف و سلوک کی تلاش ہے –

4 – ایک لڑکی ICU میں ہوتی ہے، مگر اس کے ساتھ ہمارے روحانی طور پر مکمل لوگ جنسی مشق کرتے ہیں– ہماری روحانی دنیا میں آج تک کوئی تبدیلی نہیں آئی، جو بات آج سے 69 سال پہلے کے پاکستان کے لئے منٹو نے لکھی تھی کہ لٹی پٹی لڑکیاں ہسپتال کی ایمرجنسی میں جو \” کھول دو\” سنتی اور سہتی تھیں آج بھی وہی تلخ حقیقت ہے – مگر یہ باطنی طور پر پسماندہ ادیبوں کو ہر کہانی جنس (سیکس) کے گرد گھومتی کیوں نظر آتی ہے؟ منٹو اور عصمت چغتائی اگر ظاہر کے بجائے ہمارے باطن کو معیار بناتے تو خود بھی بڑے اوریا مقبول جان اور انصار عباسی بنتے، ان دونوں کو بھی اگر مشرق کے رواں دواں روحانی چشمے سے پانی پلایا جاتا تو یہ بھی حق حق کی صدائیں دیتے –

ہم پندرہ سال پہلے ایک خاتون پر تیزاب پھینک کر اسے اندھی کر دیتے ہیں مگر ہمیں شک گزرتا ہے کہ کہیں اس کے سلوک و طریقت کے منازل کی سیڑھی دیمک زدہ تو نہیں ہو گئی، یوں ایک نئی روحانی آزمائش کی منصوبہ بندی ہوتی ہے، دیکھئے درد و تکالیف دراصل فقر کے لئے لازم ہیں یوں اس خاتون کے روحانی امتحان کے لئے ہمارے تین روحانی طور پر مکمل و مظبوط افراد اسے جنسی وحشت کا نشانہ بناتے ہیں – ارے مغرب کے باسیو اس لڑکی سے اب مل کر تو دیکھو، وہ کتنی بدل گئی ہے، کھوئی کھوئی سی خلاؤں میں گھورتی یہ لڑکی اب مائی بھولی نام کی کوئی روحانی شخصیت لگتی ہے- اس سے پوچھو تو سہی کہ اب وہ کیا محسوس کرتی ہے؟ وہ کہے گی یہ دنیا جہنم ہے، یہ دنیا باطل ہے، یہ دنیا فنا ہو جائے گی، مخلوق سے کسی خیر کی توقع نہ کرو، اس دنیا میں مکمل انصاف ممکن نہیں، یہاں دکھ تکالیف اور مصائب ہیں اور موت ہی ان مصائب کا حل ہے – اسے یہ دنیا مچھر کے پر سے بھی حقیر لگتی ہو گی، وہ چلاتی پھرتی ہو گی یہ دنیا، دل لگانے کی یہ جگہ نہیں ہے – ارے اب ہم اس کو تعلیم دیں گے \”زخم سے نہ ڈرو، یہ تو روشنی کا راستہ ہے \”-

5 – ہمارے روحانی طور پر مکمل افراد اپنے روحانی طور پر کامل سیاسی نمائندے چنتے ہیں، ابھی انہوں نے حلف ہی نہیں اٹھایا ہوتا کہ انہیں گالیاں دینا شروع ہو جاتے ہیں – ہم ریاست کو ماں سمجھتے ہیں مگر اس کے ساتھ بھی وہی سلوک کرتے ہیں جو لیہ کی اس خاتون کے ساتھ ہم نے کیا – اے اہل مغرب ہم آزادی نہیں غلامی پسند کرتے ہیں، مساوات نہیں بلکہ امتیاز پسند کرتے ہیں، انصاف نہیں بلکہ قبضہ ہماری فطرت ہے –

6 – ہمارے پورے معاشرے میں جو امن ہے، سکون ہے، حقوق ہیں، خوشحالی ہے، احترام آدمیت ہے- تمام مذاہب اور فرقے سکون و اطمینان سے اپنی عبادت کرتے ہیں- ڈیوڈ اپنے نام کے ساتھ ناصر نہیں لگاتا اور اجے اپنے نام کے ساتھ پرویز نہیں لگاتا- اہل تشیع آج کل اسلام آباد میں مغرب کو انسانیت سکھانے کے لئے بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہیں

– یہاں انسان حقوق کے کارکن اتنے خوش ہوتے ہیں کہ خوشی سے نہال ہو کر ٹارگٹ کلنگ میں خود کو ہی مروا بیٹھتے ہیں- ہمارا میڈیا جتنی مہذب گفتگو کرتا ہے، وہ ساری دنیا کے لئے نظیر ہے. ہماری اسٹیلشمنٹ ساری دنیا میں امن ایکسپورٹ کرتی ہے- ہمارا جہادی ہیومن کیپٹل ساری دنیا میں امن و امان اور انسانی آزادیوں کا محافظ ہے – نیز ہم ساری دنیا کے لئے مثال ہیں، ہمارے سینے روشن ہیں، ہونٹوں پر مسکراہٹ ہے اور لباس بے شکن ہیں – ہمارے گلی محلے صفائی ستھرائی کی ساری دنیا میں بے مثال ہیں-

اے اہل مغرب ہماری نقل کرو، کامیاب ہو جاؤ گے. تم اندر سے کھوکھلے اور بیکار ہو، ہم نہیں- تم ہم سے سیکھو، ہمیں پہچانو –

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan