ریاست پاکستان کی ساکھ کا سوال


خارجہ معاملات میں مبہم کیفیت کا قائم ہو جانا ایک دوسرے کی بات کی تردید کر ڈالنا یا اپنی بات کی وضاحت اس وقت پیش کرنا کہ جب وقت گزر چکا ہو۔ ذہنی الجھن یا سمت کے متعین نہ ہونے کی کیفیت کو ظاہر کرتا ہے۔ اور نوزائیدہ حکومت کے لئے ان واقعات کا ظہور پذیر ہونا سخت نا مناسب ہے۔ میری مراد مائیک پومپیو کی ٹیلی فون کال کے بعد پیدا ہونیوالی صورتحال اور کچھ دیگر پے در پے واقعات سے ہے۔ ان واقعات نے یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ آیا ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اول تو یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ مائیک پومپیو کی ٹیلی فون کال کو دو دنوں سے توقع کیا جا رہا تھا اور پاکستانی وزارت خارجہ کے اعلیٰ افسران اس پر حکومتی افراد کے علاوہ ان سے بھی رائے لے رہے تھے کہ جو حکومت سے سیاسی اختلاف رکھتے ہیں مگر پاکستان کو در پیش کسی بھی معاملے پر اپنی رائے اگر مانگی جائے تو اس کو پوری ایمانداری سے دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔

یہ سوچ وزارت خارجہ میں اور حکومت سے دور معاملہ فہم افراد میں بڑی مضبوط تھی کہ امریکی سیکرٹری (وزیر) خارجہ کا فون عمران خان کو نہیں سننا چاہیے تھا۔ کیونکہ ان کے موجودہ منصب کا تقاضا یہ ہے کہ کم از کم مبارکباد کا فون اور ابتدائی گفتگو صدر ٹرمپ کی جانب سے ہونی چاہیے تھی۔ ماضی میں جنرل مشرف کے شب خون کے بعد سے یہ افسوسناک کیفیت پیدا ہو گئی تھی کہ پاکستان کے خود ساختہ سربراہ ریاست و حکومت سے زیادہ سے زیادہ امریکی وزیر خارجہ یا ان کا نمائندہ خصوصی بات کرتا تھا۔ جنرل مشرف جس طرح اقتدار میں آئے تھے اس میں ان کے لئے کسی مبارک باد کے فون کا تو سرے سے امکان ہی موجود نہیں تھا مگر جب وہ نائن الیون کے بعد ڈارلنگ کا بھی روپ اختیار کر گئے تو تب بھی ان سے معاملات کولن پاول اور کونڈولیزا رائس ہی کرتے تھے۔ بہرحال جنرل مشرف تو ایک آمر تھے۔ آمریت یا آمریت زدہ حکومت کی اتنی ہی اہمیت ہوتی ہے۔

مگر ان کے اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد بھی یہ افسوسناک مناظر سامنے آتے رہے کہ آصف زرداری ایک بار تو امریکی خصوصی نمائندہ ہالبروک کے ساتھ خود ہی پریس کانفرنس میں شریک ہو گئے۔ حالانکہ ہالبروک اس دورے کے دوران انڈیا گئے تو ان کی پریس کانفرنس بھارتی سیکرٹری خارجہ کے ساتھ ہوئی۔ بہرحال یہ بھی ایک حقیقت تھی کہ پاکستان تازہ تازہ آمریت کے قفس سے آزاد ہوا تھا مگر پھر یہ صورتحال جو جمہوری پاکستان کی 12 اکتوبر 1999ءسے قبل تھی بحال ہو گئی۔ اور وزیر اعظم نوازشریف کو مبارک باد کا فون اور پہلا رابطہ صدر اوباما نے کیا۔ اس پورے عرصے کے دوران وزیر اعظم پاکستان کے منصب کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے خیال رکھا گیا کہ وزیر اعظم نوازشریف کی براہ راست گفتگو صرف اپنے ہم منصب سے ہی ہو۔ تاکہ عوام کے دلوں میں یہ تصور راسخ ہو کہ پاکستان کا وزیر اعظم صرف اپنے ہم منصب سے ہی گفتگو کرتا ہے اور یہ اس منصب کا تقاضا بھی ہے۔

اس لئے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مائیک پومپیو کا فون عمران خان سنتے ہی نہیں۔ لیکن معاملہ اس سے بھی زیادہ سنگین ہو گیا جب امریکہ نے ٹیلی فون پر ہوئی گفتگو کے حوالے سے یہ دعویٰ کر دیا کہ وزیر اعظم پاکستان غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔ اور عمران خان کے چاہنے والے یہ دلائل دینے لگے کہ پاکستانی سیکرٹری خارجہ بھی ٹیلیفون لائن پر موجود تھیں ان سے پوچھ لو۔ یعنی وزیر اعظم کی بین الاقوامی معاملات کے حوالے سے کی گئی بات اس وقت تک نا قابل اعتماد رہ سکتی ہے جب تک پاکستانی سیکرٹری خارجہ اس کی تصدیق نہ کر ڈالے۔ ایسے دلائل سن کر دل چاہتا ہے کہ سر پھوڑ لیں یا سر پھاڑ دیں۔

کچھ اسی نوعیت کی کیفیت بھارت سے بھی درپیش ہو رہی ہے ۔ انڈیا نے سب سے پہلے تو یہ حرکت کی کہ 25 جولائی کے بعد عمران خان کو ایک دستخطوں سے مزین بلا پیش کر دیا۔ یہاں بڑی تصویریں جاری کی گئیں حالانکہ ایسا بلا دے کر انہوں نے واضح کیا کہ وہ اب بھی عمران خان کو ایک کرکٹر کے طور پر ہی لے رہے ہیں۔ کسی دوسرے پاکستانی وزیر اعظم کو اس نوعیت کا تحفہ دینے کا مطلب ایسا نہ ہوتا مگر عمران خان کو یہ تحفہ دینا درحقیقت ان کو بس ایک کپتان کے طور پر ہی سمجھنا ہے۔ اگر عمران خان کے ساتھ اس معاملے کو تاڑ جانے والے افراد ہوتے تو یقینا وہ پہلی ملاقات میں ایسا تحفہ قبول نہ کرنے کا مشورہ دیتے۔

پھر سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ شاہ محمود قریشی کے ایک بیان کی تشہیر ایسے کی گئی کہ جیسے انڈیا نے مذاکرات کی دعوت دے دی۔ جب حقیقت حال یہ نہیں تھی تو انڈیا نے تردید کرنی ہی تھی۔ مگر انڈیا کی اس تردید کے باوجود شاہ محمود قریشی نے اپنی وضاحت پیش کرنے کے لئے اپنی بطور وزیر خارجہ پہلی پریس کانفرنس تک کا انتظار کیا کہ وہ اپنی بات کی وضاحت کر سکیں۔ اتنے وقت کو اس مقصد سے تعبیر کیا جا رہا ہے کہ وہ یہ خواہش رکھتے تھے کہ شاید انڈیا پلو پکڑا دے مگر ایسا نہ ہو سکا۔ اسی طرح دعویٰ کیا گیا کہ جاپان کے وزیر خارجہ پاکستان کے دورے پر خیر سگالی کے طور پر آ رہے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جاپانی وزیر خارجہ تشریف ہی نہیں لا رہے۔ بلکہ جاپان کے نائب وزیر خارجہ پاکستان آ رہے ہیں۔ اور یہ دورہ بہت عرصے پہلے ہی شیڈول ہو چکا تھا۔ خیال رہے کہ جاپان میں نائب وزرائے خارجہ کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔

اسی طرح چینی وزیر خارجہ کا دورہ بھی بہت عرصے سے طے شدہ ہے اور اس کی جزیات طے کی جا رہی ہیں۔ لیکن بیان ایسے کیا جا رہا ہے کہ جیسے یہ اچانک آ رہے ہیں۔ مائیک پومپیو 2+2 کانفرنس میں شرکت کرنے دہلی آ رہے ہیں۔ ان کا دورہ اسلام آباد اسی حوالے سے متوقع ہے۔ اس تمام کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان دوروں کے حوالے سے جو تاثر حکومتی حلقوں کی جانب سے قائم کیا جا رہا ہے اگر ان کی سرکاری سطح پر ان ممالک نے تردید کر ڈالی تو فون کال کی گفتگو کی تردید کے بعد سے خارجہ امور میں پاکستان کے دعووں کی تردید کا ایک مضحکہ خیز سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ ویسے بھی خارجہ سطح پر اس وقت صورتحال یہ ہے کہ نا یورپ کے حکومتی سربراہان نے مبارک باد کے فون کیے اور نہ ہی چینی صدر نے مبارک باد کا فون کیا۔ ایسے حالات میں غیر ذمہ داری کا مطاہرہ کرتے ہوئے دیگر ممالک کے حوالوں سے دعوے کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ کیونکہ معاملہ کسی سیاسی جماعت کی ساکھ کا نہیں بلکہ ریاست پاکستان کا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).