محبت اصلی مشین گن نہیں چلا سکتی
محبت بادلوں کی طرح آسمان سے برستی ہے
اور پانی کی طرح زمین پر بہتی ہے
اور ہوا کی طرح
چہروں اور بالوں کو چھوتی ہوئی
درختوں کے پتوں کو چھیڑتی ہوئی
کبھی نہ ختم ہونے والے راستوں نا راستوں پر
بے پا افشار چلتی رہتی ہے
محبت نفرت کا اینٹی سیرم ہے
کبھی نہ ایکسپائر ہونے والی ویکسین ہے
جو جسموں کی دبیز ترین تہوں سے گزر جاتی ہے
زمین محبت کی آخری پناہ گاہ ہے
یہاں اسے کوئی نہیں مار سکتا
تمام تر نفرتوں کے باوجود
یہاں وہ جنگلوں، پہاڑوں ندیوں، کھیتوں
اور کھیتوں میں کام کرنے والے
مردوں اور عورتوں کا روپ دھار لیتی ہے
پھولوں کے رنگوں
اور تتلیوں کے پروں میں کیمو فلاژ ہو جاتی ہے
اور کبھی کبھی تو شرارتی بچوں کی طرح
شہد کی مکھیوں
اور بھڑوں کے چھتوں میں جا گُھستی ہے
اور کبھی زیادہ غصے میں ہو
تو معصوم کیڑوں مکوڑوں کو پاؤں تلے مسل ڈالتی ہے
یا چیونٹیوں کے سوراخوں میں پانی بھر دیتی ہے
یا کھلونا مشین گن سے
نقلی فائرنگ کرتے ہوئے تڑ تڑ ہنستی ہے
محبت اس سے زیادہ کسی ذی حس کو نقصان نہیں پہنچا سکتی
انسانوں سے تو وہ تا دیر ناراض بھی نہیں رہ سکتی
سوائے دہشت گردوں کے
جن کے قریب جانے سے وہ ڈرتی ہے
کیونکہ محبت اصلی مشین گن نہیں چلا سکتی !
- مجھے یہ نظم نہیں لکھنی چاہیے تھی - 03/09/2023
- ہیلی کاپٹر - 27/08/2022
- مئی میں “دسمبر کی رات” اور کتابوں کی چھانٹی کا غم - 22/05/2020
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).