برسات، چھوٹا راجن اور میں


ٹرین کی روانگی تین بجے تھی، مگر میرے ذہن میں چار بجے کا وقت سمایا ہوا تھا۔ گاوں سے لوکل ٹرین دو بجے چلتی ہے، جو آدھے گھنٹے میں رانچی پہنچا دیتی ہے۔ اطمینان سے کھانا وانا کھانے کے بعد اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ، اسٹیشن پہنچا تو پتا چلا آج ٹرین تاخیر سے آ رہی ہے۔ تفصیلات معلوم کرنے پر اطلاع ملی کہ ابھی تو ٹرین لوہردگا سے بھی نہیں چلی اور اگر چند منٹ میں چل بھی گئی، تو ڈیڑھ  گھنٹے سے کم وقت میں اٹکی اسٹیشن نہیں پہنچے گی۔ اس کے بعد اٹکی سے رانچی کی مسافت بھی تقریبا اتنی ہے۔
میں نے سوچا ریل گاڑی سے بہتر ہے، بس سے سفر کیا جائے۔ بس پکڑنے کے لیے بازار کی اَور نکلا تو مجھے خیال آیا، ایک مرتبہ پھر سے ٹکٹ دیکھ لینا چاہیے۔ بائک پر بیٹھے بیٹھے موبائل فون نکال کر ٹکٹ جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ ٹرین تو دو پچپن پر ہے۔ یعنی ہمارے پاس پچاس منٹ بھی نہیں، اور گھر سے رانچی ریلوے اسٹیشن  اپنی سواری سے بھی کم از کم سوا، ایک  گھنٹے کا وقت لگ جاتا ہے۔ میرے تو جیسے پاوں تلے سے  زمین ہی نکل گئی؛ کاٹو تو لہو نہیں۔ دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو گئیں، خود پر جھنجلاہٹ اور افسوس بھی ہو رہا تھا کہ  پہلےٹکٹ  کیوں نہ دیکھ لیا۔
اُدھر دفتر میں بھی چھٹی نہیں، اِدھر ٹکٹ کے پیسے بھی ضایع جائیں گے۔ گھر میں ابو نے بہت کہا تھا: “ٹکٹ واپس کرا دو اور دو چار دن اور رُکو، تم سے بہت ساری باتیں کرنا ہیں”۔  لیکن پتا نہیں  مجھ پر کون سی دھن سوار تھی، میں نے اُنھیں پڑھائی اور ملازمت کی دُہائی دی، کچھ مجبوری بھی تھی، گھر پر مزید رُکنے کا مطلب نہیں بنتا تھا۔
اب واپس ہوتے ہوئے عجیب سی خفت کا احساس  ہو رہا تھا، اور واقعی دفتر کے حالات بھی کچھ ایسے تھے کہ مزید رُکا نہیں جا سکتا تھا۔ بقر عید کے  دوسرے ہی دن کسی بھی طرح مجھے دفتر حاضر ہونا تھا، اور میں  پہلے ہی تین دن مزید چھٹی لے چکا تھا۔ جب ملازمت مستقل نا ہو تو مختلف قسم کے خدشات میں گھرے رہتے ہیں۔ کچھ اس لیے بھی میں پریشان تھا۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کیا جائے۔
بھائی نے  تسلی دینے کو، ’’وہی ہو گا جو منظور خدا ہوگا‘‘، کا نعرہ لگاتے ہوئے کہا: “چلیے رِسک لیتے ہیں، بائک ہی سے رانچی چلیں گے، آگے کا اللہ مالک ہے”۔
نہ ہیلمٹ، نہ بائک کے کاغذات؛ میں کچھ متذبذب ہوا، تو وہ کہنے لگا:
“پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے،  اگر ٹرین چھوٹ بھی گئی، تو گھوم گھام کر واپس آ جائیں گے”۔
بسم اللہ پڑھ کر اس نے بائک تیزی سے دوڑانا شروع کر دی۔ ابھی ہم نے آدھا راستہ بھی طے نہ کیا تھا، کہ ابر برسنے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے بارش بہت تیز ہو گئی؛ اتنی تیز کہ بائک سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ پانی کے قطروں کی ایسی دھاریں تھیں، کہ سڑک سجھائی نہ دے رہی تھی۔تب بھائی کی ہمت جواب دے گئی؛ کہنے لگا:
“بھیا! ایسا لگتا ہے جیسے آج قدرت کو بھی منظور نہیں کہ آپ سفر کریں؛ اس لیے اب واپس لوٹ چلیے۔“
مجھے مووی ’انسیپشن‘ کا وہ سین یاد آ گیا، جب بظاہر ساری راہیں مسدود ہو جاتی ہیں اور ٹام ہارڈی، لیونارڈو ڈی کیپریو سے افسوس بھرے لہجے میں کہتا ہے، کہ ہم اتنی قریب پہنچ کر بھی منزل کو نہیں پا سکے۔ میں نے بھائی سے کہا:
”یار اب اتنے دور آ گئے ہیں، قدرت کو منظور نہیں ہوتا تو شاید ہم یہاں تک بھی نہیں پہنچ پاتے۔ واپس جانا مناسب نہیں ہے؛ بس خدا کا نام لے کر گاڑی تیزی سے چلاتے رہو؛ باقی کا آگے دیکھتے ہیں۔“
وہ تھک چکا تھا۔ موسلادھار بارش کی وجہ سے واقعی کچھ بھی سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ کہنے لگا:
”بھیا! مجھے کچھ بھی نظر نہیں آ رہا، میں نہیں چلا سکوں گا!“
بائک میں میرا ہاتھ  صاف نہیں، اور دہلی میں ہونے والے حادثے کے بعد اور بھی خوف آتا ہے؛ پھر بھی میں نے بھائی سے کہا:
“لاو بائک مجھے دو، بس کلمہ پڑھ لو، آج کچھ بھی ہو سکتا ہے!“
اب میں ہوا سے باتیں کر رہا تھا اور میرے ذہن میں سکیتو مہتا (معروف مورخ، قلم کار اور فلم اسکرپٹ رائٹر) کی باتیں اور چھوٹا راجن کا واقعہ چل رہا تھا۔
داود ابراہیم (جسے متعدد جرائم اور دہشت گردانہ حملوں کا ماسٹر مائنڈ گردانا جاتا ہے) کے حوالے سے رائٹر سکیتو مہتا نے اپنی معروف کتاب ”میکسیمم سٹی: بمئبے لوسٹ اینڈ فاونڈ“ (مہا نگر: گم شدہ بمبئے اور اس کی تلاش) میں لکھا ہے، کہ جب گینگسٹر کو پکڑنے کے لیے پولیس نے پوری ممبئی کے چپے چپے پر نفری متعین کر دی اور بہت تیزی سے اس کی تلاش شروع ہو گئی، تو اس نے ہندوستان چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا۔ طیارے کے ذریعے اسے ہوائی اڈہ پہنچنا تھا، جس کے لیے کم سے کم ڈیڑھ گھنٹا درکار تھا۔
اس کے پاس محض ایک گھنٹے کا وقت تھا۔ جس گاڑی میں وہ سفر کر رہا تھا، پولیس اس گاڑی کا تعاقب کر رہی تھی۔ اس نے گاڑی بیچ سڑک کھڑی کی اور اُچک کر ایک بائک پر جا بیٹھا؛ بائک والے سے کہا، بائک اندر گلی میں گھسیڑ لو۔ بائکر سمجھ دار تھا یا خوف زدہ، اس نے ایسا ہی کیا۔ گلی میں داخل ہونے کے بعد اس نے اِدھر اُدھر دیکھا، اسے قدر سکون ہوا تو بائک والے سے حقیقت احوال بیان کردی۔
“مجھے ہوائی اڈے پہنچنا ہے اور میرے پاس صرف آدھا گھنٹا ہے، کیا یہ ممکن ہے کہ تم مجھے ہوائی اڈے چھوڑ دو؟ منہ مانگا انعام دوں گا”!
بائکر نے جواب دیا،
“میں کوشش کر سکتا ہوں، باقی آگے بھگوان مالک ہے”۔
مختلف گلی کوچوں، شاہ راہوں، پگ ڈنڈیوں، نالیوں، گڈھوں سے گزرتے ہوئے، اس نے آدھے گھنٹے سے پہلے ہی ہوائی اڈے پہنچا دیا۔ داود نے پہچان لیا کہ یہ شخص کام کا ہے۔ اس نے اس کا رابطہ نمبر لیا اور کہا میں تم سے ملوں گا۔ یہ بائکر اور کوئی نہیں، چھوٹا راجن تھا؛ جو بعد میں داود کا قریبی، بہت قریبی اور ازلی دشمن بنا۔ یہاں بتاتا چلوں کہ راجندر سدا شیو نکھلانجے عرف چھوٹا راجن متعدد خطرناک جرائم، قتل اور بم بلاسٹ جیسے مقدموں میں ماخوذ قرار پانے کے بعد ممبئی کے تالوجا جیل میں “عمر قید” کی سزا کاٹ رہا ہے۔
2000ء؛ بنکاک میں داود ابراہیم کے گرگوں کی فائرنگ سے بھی چھوٹا راجن محض اپنی تیز رفتاری کی وجہ ہی سے بچ نکلنے میں کام یاب ہو گیا تھا۔
مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں
محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 170 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah