سحر سگ گزیدہ


کراچی میں ہم لوگ پیر الٰہی بخش کالونی جس کو پیر کالونی یا اب پی آئی بی کالونی کہا جاتا ہے، میں رہتے تھے۔ ہمارا گھر متحدہ قومی موومنٹ کے فاروق ستار سے تین چار گلیوں کی دوری پر ہر دل عزیز تکہ ہاؤس کے بالکل سامنے والی سڑک کی پہلی گلی میں دائیں جانب واقع تھا۔

وہ ایک منزلہ وسیع گھر تھا جس کے بالمقابل وہ تین منزلہ عمارت تھی جس کے سامنے والی طرف حبیب بنک واقع تھا۔ اسی عمارت کی تیسری منزل پر ایک گھر کی چھت پر ایک خونخوار کتا رہتا تھا۔ وہ کتا ہر وقت بھونکتا رہتا تھا۔ ہم بچے اس گھر میں جانے سے ڈرتے تھے کیونکہ جب بھی ہم اس گھر کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس گھر کے دروازے پر پہنچتے تو ساتھ ہی اوپر چھت کی طرف جاتی ہوئی سیڑھیوں پر وہ کتا بھاگتا ہوا آ جاتا اور زور زور سے بھونکنے لگتا ۔

وہ کتا اتنے زور سے بھونکتا تھا کہ دل اچھل کر حلق میں آ جاتا تھا۔ آج بھی اگر کوئی کتا بھونک رہا ہو تو مجھے وہ کتا یاد آ جاتا ہے۔ بھونکتے ہوئے کتوں سے دور ہی رہنا بہتر ہوتا ہے۔

ہم کراچی سے پنجاب آئے تو ہر چیز مختلف تھی۔ زبان وبیان، رہن سہن، اطوار و اقدار، موسم اور لوگ سب کچھ تبدیل ہو چکا تھا۔ پنجاب میں ہمارا ننھیالی گھر کافی بڑا تھا جو عقبی جانب سے نہایت غیر محفوظ تھا۔ وہاں تقریباً دو کنال کا خالی پلاٹ تھا جس کے اختتام پر چھوٹی سی کچی دیوار حد بندی کرتی تھی۔

کراچی کی لگی بندھی اور مشینی زندگی کے مقابلے میں یہاں کی زندگی پرسکون اور ٹھہراؤ والی تھی۔ ہم بچوں کو خوب بھاگ دوڑ کے مواقع بھی ملتے تھے۔

قریباً دس ماہ کے بعد ہماری زندگی میں ایک تبدیلی آئی۔ ایک صبح سو کر اٹھے تو معلوم ہوا گھر میں چوری ہو گئی ہے اور چور ہماری سائیکلیں اور دو پالتو بکرے لے اڑے ہیں۔

یہ اس گھر میں ہونے والی پہلی چوری تھی۔ گھر کے بڑے پریشان ہو گئے۔ پھر حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اس سلسلے میں فوری طور پر گھر کی عقبی دیوار کو پکا اور بلند تعمیر کروایا گیا۔ اور ساتھ ہی ایک کتا پالنے کا فیصلہ ہوا۔

کتے کا سن کر میرے ذہن میں کراچی والا بھونکتا ہوا کتا تازہ ہو گیا۔ میں نے دبے دبے الفاظ میں کتے کی آمد کے خلاف احتجاج کیا مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔ میرا احتجاج ویٹو کر دیا گیا اور خوب دیکھ بھال کر ایک السیشن نسل کا کتے کا بچہ ہمارے گھر آ گیا۔

کتوں کے بھونکنے کی عادت کے باعث میں کتوں سے فاصلے پر ہی رہتا ہوں چناچہ میں شروع شروع میں اس کتے سے بھی فاصلے پر رہا۔ صرف میرا چھوٹا بھائی ہی کتے کو “ڈیل” کرتا رہا۔ ہمارے گھر آ جانے کے بعد اس نے بھونکنا کم کر دیا۔ البتہ خوب چوکس تھا اور ساری رات گھر کے کھلے علاقے میں بھاگتا دوڑتا رہتا۔ اس کی وجہ سے ہمارے گھر میں محلے کے بچوں اور بڑوں کا آنا جانا رفتہ رفتہ کم ہو گیا۔ رفتہ رفتہ وہ کتا بڑا ہوتا چلا گیا اور اس کی شرافت کو دیکھ کر میں نے بھی اس پالتو کتے کے ساتھ دوستی کر لی۔

ویسے تو وہ کتا بہت اچھا تھا مگر اس میں دو بہت بری عادتیں تھی۔ پہلی تو یہ اگر اس کو وقت پر ہڈی وغیرہ نہ ڈالی جاتی تو وہ بھونکنا شروع کر دیتا اور بھونک بھونک کر آسمان سر پر اٹھا لیتا۔ اور دوسری یہ کہ جب اس کے سامنے روٹی پڑی ہو تو وہ اپنے سامنے کسی کو برداشت نہیں کرتا تھا۔

ایک دن کا ذکر ہے میں گھر سے باہر تھا۔ واپس آیا تو ہمارا پالتو کتا دروازے کے قریب ہی ایک درخت کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ میں حسب معمول اس کے قریب گیا مگر میری نظر اس روٹی پر نہ پڑسکی جو اس کے سامنے پڑی ہوئی تھی۔ وہ روٹی پتا نہیں کس نے اس کے سامنے ڈال دی تھی۔

میں جب کتے کے انتہائی قریب پہنچا تو کتے نے زور زور سے بھونکتے ہوئے ایک دم مجھ پر حملہ کر دیا۔ اس کے دانت میری قمیص کے دامن میں پیوست ہو گئے اور چررر کی آواز کے ساتھ میری قمیص سامنے سے دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ میرے منہ سے زوردار چیخ نکل گئی اور میں وحشت زدہ انداز میں پیچھے ہٹا۔ کتا میری قمیص کے دامن کا ایک ٹکڑا منہ میں دبائے پیچھے ہٹ گیا۔

اس دن سمجھ میں آیا کہ کتا تو کتا ہی ہوتا ہے۔ اگر کوئی اور اس کو ہڈی ڈال دے تو وہ مالک پر حملہ کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتا۔

کتے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک وفادار جانوار ہوتا ہے مگر وہ کتا مجھ پر حملہ کرنے کے کچھ دن کے بعد ہمارے گھر سے چلا گیا۔ مجھے میرے دوست نے بتایا کہ اس نے ہمارے کتے کو تیسری گلی کے ایک گھر میں دیکھا ہے۔ میں نے اس کی بات کو نظر انداز کر دیا۔

مگر آج تقریباً چوبیس برس کے بعد مجھے وہ واقعہ تمام تر جزئیات کے ساتھ نا جانے کیوں پھر سے یاد آ گیا۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad