بے قرار و پریشان کو کیا کرنا چاہیے؟ ایک نفسیاتی تجزیہ



انسان اگر بیمار، بے قرار و پریشان ہے، تو اس کا علاج ڈاکٹر کے ساتھ ساتھ فطرت کے پاس بھی موجود ہے۔ درخت، پرندے، آسمان، بادل، سورج، چاند ستارے، سیارے انسان کی روحانی خوشی کا حقیقی ذریعہ ہیں۔ اگر کسی انسان کے پاس دیکھنے والی آنکھ ہے، تو اسے حقیقی خوشی کا احساس اس وقت میسر آتا ہے، جب وہ درختوں پرندوں آسمان اور سورج کی دنیا کا حصہ بن جاتا ہے۔ اس لیے جب بھی پریشانی اور بے قراری کی کیفیت ہو تو فطرت سے رجوع کرنا چاہیے۔ فطرت خوشی اور مستی سے مزین ہے۔ درخت بغیر کسی وجہ کے ہر وقت خوش و خرم دکھائی دیتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ درختوں کی کبھی یہ خواہش نہیں ہوتی کہ کاش وہ ملک کے صدریا وہ وزیر اعظم ہوتے، کاش کہ وہ امیر یا دولت مند بن جائیں۔ ان درختوں کا بڑے بڑے مالیاتی اداروں یا بنکوں میں بیلنس بھی نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ ہر وقت خوش دکھائی دیتے ہیں۔

رنگ برنگے پھول زمان و مکاں سے ماورا ہوکر خوش دکھائی دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بے قراری و پریشانی سے نجات کے لیے مزید کیا کرنا چاہیے؟ انسان کو ایسی صورت احوال درپیش ہو، تو پھر اسے ہمیشہ اپنے اندر کی دنیا کو ریلیکس رکھنا چاہیے۔ جو کچھ باہر یا اندر کی دنیا میں ہو رہا ہے، وہ ہونے دو۔ صورت احوال کو رد کرنے کی بجائے اسے قبول کرو۔ دماغ کو ادھر ادھر کرنے یا پھر دھیان کو تقسیم کرنے کی ضرورت نہیں۔ جب بھی دھیان ادھر ادھر ہو گا پریشانی اور بے قراری میں اضافہ ہو گا۔ یاد رکھیے، لمحات پرندوں کی طرح نازل ہوتے ہیں۔ ان لمحات کو ہمیشہ خوش آمدید کہنا چاہیے۔ ان سے منہ پھیرنے اور انکار کرنے کی ضرورت نہیں۔ یاد رکھیں یہ لمحات پرندوں کی طرح بھی نصیب ہوں گے اور یہ لمحات کتے کی طرح بھی انسانی زندگی کا حصہ بنیں گے۔ پرندہ بھی اڑ جاتا ہے اور کتا بھی بھونک بھونک کر خاموش ہو جاتا ہے، اس لیے خوشی اور غم دونوں کو خوش آمدید کہنا چاہیے۔

لمحات روتے بچے کے مانند اچانک انسانی کائنات کا حصہ بنتے ہیں۔ مسکراتے، قہقہہ لگاتے بچے کی طرح بھی انسان کا مقدر بنتے ہیں۔ ایسا بھی ہو گا کہ یہ لمحات روتی لڑکی کے روپ میں نازل ہوں گے اور اسی طرح مسکراہٹیں بکھیرتی لڑکی کی طرح انسان کی زندگی میں خوشیاں بکھیریں گے۔ تمام صورت احوال کو کنٹرول کرنے کا آرٹ انسان کو آنا چاہیے۔ جو انسان اس آرٹ سے محروم ہیں، پریشانی ان کا مقدر رہے گی اور زندگی اجیرن ہو کے رہ جائے گی۔ اگر ریلیکس رہنا ہے اور توازن میں رہنا ہے تو پھر تمام صورت احوال کو قبول کرنا ہی بہترین عمل ہے۔ اگر کیفیت بہت ہی بدتر ہے، تو پھر ڈاکٹر سے رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

فرض کیجیے کائنات سے سورج غائب ہو جائے، درخت کہیں نظر نہ آئیں تو یہ دنیا پرندوں سے محروم ہو جائے گی۔ اگر پرندے اور درخت اس دنیا کا حصہ نہیں رہے تو پھر ہم سب ختم ہو جائیں گے۔ کائنات کی ہر چیز خدا سے انسان اور انسان سے فطرت، ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔کوئی انسان اداس، پریشان اور بے قرار ہے، یہ پریشانی کی بات نہیں۔ یہ خوش نصیبی کی بات ہے، کیوں کہ اداسی بھی زندگی ہے۔ ایسی کیفیت ہے تو پھر کسی پارک میں کے درخت کے نیچے بیٹھ کر آسمان پر پرواز کرتے پنچھیوں کے نظارے کا لطف لینا چاہیے۔ سورج کی روشنی کو انجوائے کرنا چاہیے۔ گرمی ہے تو اس کی اہمیت سمجھو۔ موسم سرد ہے تو سردی کی کیفیت کو جسمانی اور روحانی زندگی کا حصہ بنانا چاہیے۔ پرندوں کے نغموں سے لطف اندوز ہونے والے انسان خوش نصیب ہوتے ہیں۔ سورج، چاند، ستارے، پرندے، درخت، جانور بھی انسان کی فیملی ہیں۔ ان کا حصہ بن کر غصہ، نفرت، پریشانی اور بے قراری غائب ہوجاتی ہے۔

حقیقت میں کائنات اور فطرت انسانیت کا خاندان ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ انسان نے فطرت کو بھلا دیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پریشانی اور بے قراری کی کیفیت میں انسانوں کے ساتھ کیسا رشتہ رکھنا چاہیے؟ انسانوں کے ساتھ کسی بھی کیفیت میں تعلق کو منقطع نہیں کرنا چاہیے۔ انسان اچھے ہوتے ہیں بشرطیکہ کہ وہ واقعی انسان ہوں۔ انسانوں کے ساتھ ہر صورت رشتہ برقرار رکھیے۔ ایسے انسان جو آپ جیسے ہیں۔ ہر وقت خدا سے تعلق برقرار رکھنا چاہیے۔ چرند پرند کے علاوہ پہاڑوں اور ریگستانوں کے ساتھ بھی تعلق بنائے رکھیے، کیوں کہ اسی طرح انسان کا رشتہ خدا کے ساتھ پختہ اور مضبوط ہوگا۔

پریشانی یا خوشی کی کیفیت میں ایک اور کام ہمیشہ کرتے رہنا چاہیے۔ جہاں دیکھو انسان یا فطرت قید میں ہے یا غلامی کی کیفیت میں ہے، ان کو اس کیفیت سے نکالنے میں ان کی مدد کرو۔ اس کا ساتھ دو، اس سے بھی پریشانی کی کیفیت کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ کسی غلام کو آزادی دلانے کی وجہ سے خدا مسکراتا ہے اور فطرت میں مستی و نور کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اور انسان زندگی کو خوش گوار انداز میں انجوائے کرنا شروع کردیتے ہیں۔ غلامی یا قید سے صرف انسانوں کو نہیں فطرت کو بھی آزادی دلانے میں اس کی مدد کرو۔ کبھی کبھی فطرت بھی وحشیوں کی قید یا غلامی میں آ جاتی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ فطرت کیسے کسی کی غلام ہو سکتی ہے؟ کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ کچھ وحشیوں نے پرندوں کو قید کر رکھا ہوتا ہے۔ پرندوں کا کام آسمان پر پرواز کرنا ہے، لیکن انسانوں نے انھیں پنجروں میں قید کیا ہوتا ہے۔ ان کو بھی قید سے آزاد کرانا اور آسمان پر پرواز کرنے میں ان کی مدد کرنا انسان کی ذمہ داری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).