آزادی اظہار رائے کا استعمال


مجھے اچھی طرح یاد ہے، جن دنوں میں نے میٹرک کلیئر کیا تو ان دنوں ایک نئی ویب سائٹ تھی“ارکٹ“ جس میں صرف بارہ تصاویر رکھنے کی اجازت تھی اور کمنٹس بھی محدود تھے۔ ان دنوں مجھے یاد ہے جب یوٹیوب پر کوئی گانا سرچ کرو تو ایک یا دو گانے آتے تھے، مگر اب حالات خاصے حد تک بدل چکے ہیں۔ اب کسی بھی خبر کو شہرت حاصل کرنے کے لیے سوشل میڈیا ایک ٹول بن چکا ہے، مگر دوسری جانب سوشل میڈیا پر لوگ خاص کر نوجوان آزادی کا ضرورت سے زیادہ غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔

کچھ روز قبل میں نے فیس بک پر ایک وِڈیو دیکھی، جو کہ اے ڈی سی عرفان میروانی کی تھی۔ عرفان میروانی اپنے دوست احباب میں ایک محنتی انسان سمجھے جاتے ہیں؛ خیر ماجرا کچھ یوں ہے، کہ وہ انکروچمنٹ کے حوالے سے آپریشن کر رہے تھے اس دوران ایک خاتون نے ان کی وِڈیو بنائی اور کچھ سوالات کیے جن کا عرفان صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا اور خاموشی اختیار کی۔ یہ ایک عقل مندی کا مظاہرہ تھا، مگر پھر ان خاتون نے یہ وِڈیو سوشل میڈیا پر ڈال دی۔ اس وِڈیو میں خاتون بتا رہی تھیں، کہ حکومت نے کے ایف سی کا دیو ہیکل جنریٹر کو نہیں گرایا۔

یہ وِڈیو دیکھ کر میں حیران ہوا اور یہی سوچنے لگا کہ جناب اگر یہ اس جنریٹر کو گرا دیتے تو شارٹ سرکٹ ہو سکتا تھا اور کسی بڑے نقصان کا اندیشہ بھی ہو سکتا تھا؛ خیر اس کے بعد پھر اس وِڈیو پر ہر شخص اپنے کمنٹس دینے لگا۔ جس کا جو دل کر رہا تھا، وہ کہتا گیا۔ ایک صاحب تو یہ کہہ گئے کہ کوئی بھی سی ایس ایس کر کے افسر لگ جاتا ہے۔ ارے جناب سی ایس ایس کرنا اگر اتنا ہی آسان ہوتا تو شاید مجھ جیسا کم عقل بھی آج افسر ہوتا، مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر بغیر سوچے سمجھے کسی پر الزام تراشی اور تنقید بہت آسان ہے۔

ایسا ہی ایک واقعہ جو پاکستان کے نامور صحافیوں میں سے ایک سلیم صافی کے ساتھ پیش آیا۔ سلیم صافی نے جیو نیوز کےایک پروگرام پر تجزیہ دیتے ہوئے نواز شریف کے حوالے سے انکشاف کیا تھا کہ وزیر اعظم ہاؤس کا خرچ نوازشریف خود دیتے تھے۔ سلیم صافی کو یہ بات کرنی تھی کہ مسلم لیگ نواز کے چاہنے والوں نے اس تجزیے کو سوشل میڈیا پر شیئر کردیا۔ اس وِڈیو کےاپ لوڈ ہوتے ہی سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہو گیا۔ جن لوگوں نے اس بات کو پسند نہ کیا، انھوں نے جو کچھ سلیم صافی کے بارے میں کہنا شروع کیا، وہ خاصا حیران کن تھا۔

سلیم صافی پر تنقید کرنے والے اگر پی ٹی آئی اسپوٹر یا ورکر ہیں، تو ان پر ذمے داری زیادہ بنتی ہے کہ وہ پہلے اس بات کو کنفرم کرتے اور پھر کچھ بولتے مگر انھوں بنا تحقیق کے اور وقت ضایع کیے بغیر تہذیب کادامن ہاتھ سے چھوڑ دیا۔ سوشل میڈیا کا استعمال اب شاید زندگی کا ایک حصہ بن چکا ہے اور اس پر کسی کی تذلیل کرنا نہایت آسان بھی ہے۔ جو دوست بغیر سوچے سمجھے کچھ بول دیتے ہیں، انھیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر آپ جس خبر پر تجزیہ دے رہے ہیں، اس کو پہلےکنفرم کرلیں تو آپ کا بہت وقت بچ جائے گا، فضول بحث سے بچ جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).