1564 سے شروع ہونے والی کہانی کے کردار گیلیلیو اور نیوٹن


انسانوں کی اس دنیا میں آمد اور ان کی کاوشوں کی کہانیوں میں ہمیں کہیں کہیں قدرت کا خاص انتظام نظر آتا ہے اور جہاں یہ انتظام نظر آ جاے تو سمجھ جائیں کہ نہ یہ کہانی عام ہے اور نہ ہی اس کے کردار۔ ایسی ہی ایک کہانی شروع ہوتی ہے سن 1564 میں جب دنیا کے نقشے پر دو ایسے کردار قدم رکھتے ہیں جو اپنے اپنے میدان میں فکر ونظر کا زاویہ بدل دیتے ہیں۔ یہ دو کردار ہیں گلیلیو گیلیلی اور ولیئم شکسپئیر۔ آج ہم ذکر کریں گے عظیم سائنس دان اور مفکر گیلیلیو کا جسے جدید فزکس کا بانی کہا جاتا ہے اور جس نے صدیوں سے چلے آتے قدرتی فلسفہ کے مضمون کو باقاعدہ جدید سائنس میں بدل دیا۔

گلیلیو 1564 میں اٹلی میں پیدا ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاپائیت اپنے استحصالی رویوں کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو سختی سے کچلنے پر بضد تھی۔ ان آوازوں میں ایک آواز مارٹن لوتھر کی بھی تھی جو ساری زندگی پاپائیت کے چند رائج تصورات کے خلاف لڑتا رہا اور جلا وطن ہوا۔ وہ چاہتا تھا کہ پاپائیت اپنے استحصالی رویے کو بدلے اور عیسائیت کے چند احکامات کی تشریحات میں عقلی اور منطقی استدلال کے مطابق تبدیلی لائے۔ لوتھر اور اس کے ہزاروں حامی لوگوں کے مطالبات جائز اور عیسائیت کی بنیادی تعلیمات کے اندر تھے اس کے باوجود پاپائیت نے اس کو نہ صرف مرتد اور گستاخ قرار دے کر اس کی تحریر پر پابندی لگا دی بلکہ اسے جلا وطن بھی کر دیا۔

گیلیلیو

مگر پاپائیت یہ نہیں جانتی تھی کہ آگے چل کر ایک ایسا کردار سامنے آنے والا ہے جو صرف عقائد کی تشریحات پہ انگلی نہیں اٹھاے گا بلکہ سیدھا عقائد پر وار کر دے گا۔ اب ایک طرف ان عقائد پر اندھا یقین رکھنے والے تھے تو دوسری طرف وہ لوگ جو افلاطون اور ارسطو کے 1800 سال پرانے چند غلط سائنسی اصولوں کو حرف آخر سمجھنے والے تھے۔ ایسا ہی ایک اصول اور عقیدہ زمین کی گردش کے متعلق تھا کہ زمین کائنات کا مرکز ہے اور دیگر سیارے اس کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ مسیحیت کی مقدس کتابوں میں بھی اس کا ذکر کچھ یوں ملتا ہے “زمین مظبوطی سے قائم ہے اور یہ حرکت نہیں کر سکتی” ایک اور جگہ لکھا ہے ” خدا نے زمین کو اس کی بنیاد پر دھرا ہے اور یہ کبھی حرکت نہیں کر سکتی”۔ ایک جگہ لکھا ہے ” سورج طلوع ہوتا ہے اور غروب ہوتا ہے اور واپس اپنی جگہ پر آ رہتا ہے”۔

گلیلیو نے پہلی بار ان ہزاروں سال پرانے عقائد کو جھٹلایا اور کہا کہ نظام شمسی کا مرکز سورج ہے اور دوسرے سیارے بشمول زمین اس کے گرد گردش کرتے ہیں۔ اس ایک تحقیق سے ارسطو کا 1800 سال پرانا اصول اور عیسائیت کا 1500 سال پرانا عقیدہ زمین پر آ گرا۔ گلیلیو کو کلیسا کی انکوائری کمیٹی کے آگے پیش کیا گیا ۔ ایک طویل بحث کا سلسلہ شروع ہوا اور کچھ اثرورسوخ والے گلیلیو کے حامی بھی تھے مگر اس کے باوجود اس کو ملحد قرار دے کر عمر قید کی سزا سنا دی گئی اور اسکی تحریروں پر پابندی لگا دی گئی۔ اپنی وفات سے چار سال پہلے گلیلیو مکمل اندھا ہو گیا اور ساتھ ہی بے خوابی اور ہرنیا کی بیماری کا شکار بھی۔ انہی بیماریوں اور عمر قید کے عذاب میں وہ 1642 میں فوت ہو گیا۔ چرچ نے اسے اس کے بزرگوں کے مقبرے میں دفنانے کی بھی اجازت نہ دی اور اسے ایک الگ جگہ پر چھوٹے سے کمرے میں دفنایا گیا۔

نیوٹن

کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ جس سال گلیلیو دنیا سے جاتا ہے اسی سال نیوٹن دنیا میں آتا ہے۔ گلیلیو سیر تھا تو نیوٹن سوا سیر۔ اور دوسری طرف پاپایئت کے استحصالی پر پرزوں کا دم خم بھی کمزور پڑتا جا رہا تھا۔ نیوٹن نے جہاں دوسرے اہم سائنسی موضوعات کو آگے بڑھایا وہیں اس نے گلیلیو کی نظام شمسی کی تحقیق کو بھی آگے بڑھا کر ایسے مدلل دلائل اور تحقیق کیساتھ دنیا کے آگے رکھا کہ کسی اعتراض کی گنجائش ہی نہ رہی اور ارسطو کی 1800 سالہ سائنس قصہ پارینہ بن گئی۔ گلیلیو اور نیوٹن کی بدولت سائنس کو ایسی درست سمت اور رفتار ملی کہ پھر سائنس نے مڑ کر نہ دیکھا جس کی بدولت آج کا عام انسان بھی ایسی ایسی سہولیات سے مستفید ہو رہا ہے جو پہلے دور کے بادشاہوں تک کو نصیب نہ تھیں۔ نیوٹن کا ایک اور عظیم کارنامہ کشش ثقل کی دریافت ہے جس کے بارے میں اب 400 سال کے بعد 2015 میں سا ئنس دانوں نے اعلان کیا کہ وہ اس کو مشاہدے میں لانے کے قابل ہو گئے ہیں۔ اب ایک بار سائنسدان اس کے مکمل مشاہدے کے بعد اس کو استعمال میں لانے کے قابل ہو گئے تو پھر سے ایسی سائنسی جدت اور ایجادات سامنے آئیں گی کہ دنیا محو حیرت ہوکر ایک عرصہ تک نیوٹن کے احسانات پہ قدرت کا شکر ادا کرتی رہے گی –


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).