لاقانونیت اور رشوت کی حمایت مت کریں


بطور قوم ہمارے رویے ہماری ایک قوم نہ ہونے کی چغلی کھا رہے ہیں، بابائے قوم حضرت قائدِ اعظمؒ نے جو ولولہ تازہ مسلمانان برصغیر کو دیا تھا وہ کب کا عنقا ہوچکا، شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبال ؒ کے فلسفہ خودی سے قوم تو قوم حکمران بھی مفقود الخبر، اتحاد ایمان تنظیم کا سلوگن عرصہ ہوا ہَواہوچکا، روزمرہ کے رویوں پر غور کریں کہ ہمیں کیا اور کیسا ہونا چاہئیے تھا اور اب ہم کیا بن چکے ہیں؟ دل مردہ او ضمیر قومے میں جا چکا ہے، اکثر کا شاید مرچکا ہے، جن بحرانوں سے ہم دوچار ہیں قوم کو ان کی درست خبر ہے نہ اسے کوئی آگہی دینے کی کوشش کی گئی ہے، ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں نے ہر شعبہ زندگی کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے، اگر ہمارے رویے ٹھیک ہوتے تو جو حالت ہماری اس وقت ہے ایسی ہرگز ہرگز نہ ہوتی۔

عرصہ پہلے کی بات ہے موٹر وے پر سفر کرتے ہوئے ایک واقعہ پیش آیا، ایک معروف ٹرانسپورٹ کمپنی کی گاڑی میں مسافروں کو اس طرح ٹھونسا گیا تھا جس طرح قربانی کے جانوروں کو ٹرکوں میں ٹھونسا جاتا ہے یا غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والے تارکین وطن کو انسانی اسمگلرز گاڑیوں میں ٹھونستے ہیں، ایک جگہ موٹروے پولیس نے گاڑی کو روک لیا اور گنجائش سے زائد سواریاں بٹھانے پر دو ہزار روپے چالان کرنا چاہا، عین اس وقت جب آفیسر چالان کاٹنے لگا ایک سفید ریش بزرگ گاڑی سے برآمد ہوئے اور لگے آفیسر کی منتیں کرنے کہ چالان نہ کریں، آفیسر نے سوال کیا کہ باباجی گاڑی آپ کی ہے؟ تو بزرگ نے جواب دیا نہیں میری نہیں ہے۔ پھر آفیسر نے دریافت کیا کیا گاڑی مالک کے ساتھ آپ کی کوئی رشتہ داری ہے؟ باباجی نے انکار میں سر ہلایا۔

افسر نے ایک بار پھر استفسار کیا کہ کیا گاڑی ڈرائیور آپ کا کوئی رشتہ دار یا قریبی عزیز ہے؟ باباجی نے جواب دیا میرا کوئی بھی تعلق ان میں سے کسی سے بھی نہیں ہے۔ موٹر وے پولیس افسر نے بزرگ سے کہا کہ بزرگو! یہ لوگ آپ کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک کررہے تھے، انہیں چالان کریں گے تو آئندہ یہ ایسا کام نہیں کریں گے پھر آپ کیوں رکاوٹ بن رہے ہیں؟ آپ کی جیب سے تو چالان کی رقم نہیں جائے گی یہ جرمانہ تو کمپنی بھرے گی لیکن باباجی اپنی ضد پر اڑے رہے اور آفیسر کو مجبور کرتے رہے کہ چالان بالکل نہ کریں یا پھر جرمانہ کم عائد کریں۔ موٹر وے سے اترتے ہی گاڑی کا پھر وہی حال تھا اب گاڑی عملہ کے پاس ٹھوس جواز تھا کہ عائد شدہ جرمانہ کا ازالہ کرنا ہے۔

ایک سرکاری دفتر میں ایک صاحب کا کچھ کام تھا، کام بھی جائز تھا لیکن ان صاحب نے ذہن میں پہلے ہی یہ بات بٹھا لی کہ رشوت دے کر یہ کام کرانا ہے، اس کا اظہار میرے سامنے کیا تو میں نے کہا مجھے کوشش کرنے دو اور وہ کام محض متعلقہ افسر سے ایک ملاقات میں ہوگیا بغیر کسی رشوت کے، یہیں مجھے یہ نکتہ سمجھ آیا کہ فخرِ کائنات ﷺ فدا امی و ابی نے بجا طور پر ارشاد فرمایا کہ الراشی والمرتشی کلاھما فی النار۔ رشوت دینے والے کا ذکر پہلے فرمایا اور رشوت لینے والے کا ذکر بعد میں۔

حقیقت یہی ہے قوم کو قوم بنانے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہی نہیں گئی، تعلیمی نظام پر جس طرح کے تجربےکیے گئے اور ابھی بھی جاری ہیں الامان، الحفیظ۔ قوم کی روح کچل ڈالی گئی ہے، نئی نسل کی مؤثر تربیت کا کوئی اہتمام نہیں کیا گیا کہ اسی میں حکمرانوں کی بھلائی ہے، لارڈ میکالے نے کہا تھا اس قوم کے نظام تعلیم کو تبدیل کردو، پھر مزے سے ان پر حکومت کرو وہی پالیسی آج بھی جاری ہے۔ جب قوم کو جاہل رکھا جائے گا، آگہی اور شعور کے دروازے اس پر بندکیے جائیں گے تو پھر دہشت گرد ہی پیدا ہوں گے۔ پھر بیرون ملک کا کوئی وکیل یہ کہے گا کہ پاکستانی قوم پیسوں کی خاطر کچھ بھی کر سکتی ہے۔

قوموں کی تربیت اچھی تعلیم سے ہوتی ہے، اس کے لئے ایک اچھا اور میعاری نظام تعلیم اور نصاب کا ہونا بہت ضروری ہے کہ یہی قوموں کے رویے بناتا ہے، انہیں قوم بناتا ہے کیا کبھی ہم قوم بن سکیں گے؟ کیا نئی نسل کو ہم کچھ اچھا دے سکیں گے؟ یا پھر یہ صرف سوشل میڈیا اور تبدیلی کے نعروں پر تھرکتے رہیں گے اور کچلی روح کے ساتھ نا آسودہ حسرتوں کو دل میں لئے رینگ رینگ کر سسکتے سسکتے زندگی جیسے تیسے گزارتے رہیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).