اسلام اور جمہوریت


عصر حاضر میں عالمی سیاسی گہما گہمی کے تناظر میں سیاسی نظام حکم کی ماہیت ایک اہم مبحث ہے ، یورپ میں جمہوریت کی کامیابی اور اسلامی نظام حکم کی غلط تشریحات کی باعث جمہوریت اور اسلام کا تعلق مبہم مسئلہ بن گیا ہے ، ایک طرف جمہوریت کو عین اسلامی اصول کے موافق مثالی نظام حکم اور دوسری طرف جمہوریت کو کفریہ نظام قرار دیا جاتا ہے، عوام الناس اس مسئلہ کے متعلق ( مروجہ ) بحث سے مزید ابہام کا شکار ہوگئے ہیں اور حقائق سے نا آشنا ہے۔

جمہوریت اور اسلام پر بحث کرنے سے قبل اول جمہوریت کا مختصر تعارف ضروری ہے، جمہوریت کا بنیادی فلسفہ عوام کی حکمرانی ہے، جس کو “عوام کی عوام پر عوام کے ذریعے حکمرانی ” سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس فلسفہ کی بنیاد پر جمہوریت عوام کی مطلق حکمرانی کا نام ہے ۔ پارلیمانی نظام عوام کی حکمرانی کو عملی شکل دینے کی ایک صورت ہے، جس میں عوام پارلیمان کے ارکان کو منتخب کرتے ہیں، اور یہی ارکان پارلیمان کے ذریعے قانون سازی کے عمل میں حصہ لیتے ہیں ۔ یوں پارلیمان کو قانون سازی کا مکمل اختیار ہے، اگر پارلیمان آئین سے متصادم قانون پاس کرے تو اس کو عدالت کے ذریعے کالعدم کیا جا سکتا ہے ، تاہم پارلیمان آئین میں ترامیم کرنے کا بھی مجاز ہے، لہذا پارلیمان ملک کا اعلی (ان ممالک میں جہاں سینٹ کی اہمیت نہیں ہوتی) اور بااختیار ادارہ ہوتا ہے۔

جمہوریت کا تصور مغربی مفکرین کی جانب سے یورپ میں قائم مذہبی حمایت یافتہ بادشاہت کے مقابل انقلاب فرانس سے قبل پیش کیا گیا، ابتداء میں یہ تصورات انفرادی طور پر پیش کیے گئے لیکن بعد ازاں جمہوریت نے پورے عالم میں ایک نافذ العمل نظام کی شکل اختیار کرلی۔

جمہوریت کے اول الذکر تعارف سے واضح ہوتا ہے کہ نظام جمہوریت اور اسلامی سیاسی اصول میں کئی اختلافات ہے،تمام اختلافات کا ذکر ممکن نہیں، صرف دو بنیادی اختلافات ذکر کیے جاتے ہیں۔ اسلام میں حق حکمرانی اللہ کو حاصل ہے، علماء کرام اس ضمن میں سورہ یوسف کی آیت “ان الحکم الا اللہ” کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں ، جبکہ جمہوریت میں عوام کو مطلق حکمرانی حاصل ہے، مثال کے طور پر اگر پارلیمان میں یہ منظور ہوجائے کہ ملک میں شراب کی خرید و فروخت کی اجازت ہے، تو یہ قانون نافذ ہوجائے گا اور جمہوری نظام میں اس قانون پر کوئی اعتراض قابل قبول نہیں ہوگا، اسی طرح اگر پارلیمان میں خواتین کے حجاب پر پابندی لگادی جائے تو یہ قانون (اسلامی اصول کے خلاف ہونے کے باوجود) جمہوری اعتبار سے با لکل جائز ہوگا۔

جمہوریت اور اسلامی نظام حکومت میں دوسرا بنیادی فرق مرجع نظام سے متعلق ہے ، اسلامی اصول میں نظام حکومت کو قرآن و سنت کے طے کردہ اصول اور شریعت کے مطابق ہونا چاہیے، جبکہ جمہوری نظام کی بنیا د مغربی مفکرین کے اصول ہے، قابل غور بات یہ ہے کہ اسلامی اصول اور جمہوریت کے مراجع صرف مختلف ہی نہیں بلکہ متضاد ہے، کیو نکہ جمہوری اصول کا مرجع وہ نظریات ہے جو بشری کو ششو ں کا نتیجہ ہے ، جبکہ اسلام میں مرجع نصوص وحی (قرآن سنت) ہے، جن کا تعلق بشری کوششوں سے نہیں کلام اور الہام الہی سے ہے۔ ان دونوں اختلافات سے ثابت ہوتا ہے جمہوریت اور اسلامی نظام میں اصولی اختلافات ہے، جن کو نظر اندا ز کرنا ناممکن ہے۔

جمہوری نظام کی اسلامی اصولوں سے عدم مطابقت کے پیش نظر درمیانی راستہ نکالنے کی کئی کوششیں ہوچکی ہے، جمہوریت کے اصول میں رد و بدل کر کے اس کو اسلامی اصول کے مطابق تشکیل دیا جاتا ہے یا اسلامی نصوص کو توڑ موڑ کر جمہوریت کے موافق پیش کیا جاتا ہے ، لیکن یہ کو ششیں اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم غالب ثقافت (جو کہ آج کل مغربی ثقافت ہے) سے مرعوب ہیں، او ر ہماری کوشش ہے کہ کسی طرح ہماری ثقافت غالب ثقافت کے مطابق ہوجائے تاکہ اقوام عالم کے سامنے ہماری سبکی نہ ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت کو اسلام کے مطابق ڈھالنا موروثی ، بادشاہی اور فردی حکومت سے قدرے بہتر ہے، لیکن اعلی اسلامی اقدار او ر اصول ہونے کے باوجود اغیار سے مطابقت کی خواہش فکری تبیعت کی علامت ہے۔

ایک انتہائی اہم او ر قابل غور نکتہ یہ ہے کہ فلسفہ جمہوریت اور عملی جمہوریت میں بہت فرق ہے، مثال کے طور پر جون رالز کی کتاب نظریہ انصاف (Theory of Justice) میں عصری جمہوریت کے عملی اصول میں عوامی مظاہروں کو سرکاری طاقت سے روکنے کو جائز قرار دیا ہے ، جو کہ فلسفہ جمہور یت کے منافی ہے ، اس کے علاو ہ جمہوریت میں اقتدا ر تک پہنچنے میں سرمایہ کی اہمیت سے سب خوب واقف ہے۔

آخر میں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ ا سلامی نظام سیاست کو عملی شکل دینا علماء کی ذمہ داری ہے ، اس حوالہ سے کچھ کامیاب کوششیں ضرور ہوئی ہیں، تاہم ایک مکمل متفقہ اسلامی سیاسی نظام عوام الناس کے سامنے علماء کی جانب سے پیش نہیں کیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).