بیمار کا حال کیوں اچھا ہے؟


دنیا بھر میں یو تو بے شمار پیشے، بہت سے پروفیشنزیاذرائع آمدنی پائے جاتےہیں جن میں زمانہ ء قدیم سے چلے آنے والے پیشے بھی شامل ہیں اور دور جدید میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی محیر العقول ترقی سے تخلیق ہونے والے ذرائع روزگار بھی۔ مگر ہر دور میں چند پیشے یا پروفیشنز ایسے ہیں جنہیں معزز پیشے یا نوبل پروفیشنز کہا جاتا ہے، مثلا تعلیم، طب اور عدلیہ، صحافت وغیرہ، ان شعبوں اور پیشوں سے وابستہ افراد کی ہمیشہ دل سے عزت کی گئی اور کی جاتی رہی ہے، بہ نسبت دوسرے شعبہ جات کے افراد کے۔ ایک طبیب یا ڈاکٹر، ایک استاد اورایک قاضی یا جج یا سچا صحافی ہمیشہ اور ہر دور میں باعثِ تکریم و عزت سمجھے جاتے رہے ہیں۔

وطن عزیز میں کم قسمتی سے یہی معزز شعبہ جات اس لحاظ سے بد ترین زوال کا شکار ہیں کہ ان ہی شعبوں میں سب سے زیادہ کرپشن اور پیسے کا عمل دخل ہو گیا ہے، اور انسانی خدمت کا جذبہ کمزور پڑ گیا ہے، زیر نظر تحریر ان ہ تین شعبوں میں سے ایک یعنی شعبہ طب کے بارے میں ہے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ پیش خدمت ہے جس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ پیسے کی ہوس نے کس طرح اخلاقی قدروں کا جنازہ نکال دیا ہے۔

ہمارے ایک دوست کی اہلیہ کے پیٹ میں تکلیف شروع ہوئی، علاقے کے مقامی ڈاکٹر صاحب نے شبہ ظاہر کیا کہ پتے میں پتھری ہو سکتی ہے، ٹیسٹ وغیرہ کرائے گئے تو کنفرم ہو گیا کہ پتے میں پتھری ہی ہے، جب یہ بات دوست احباب اور خاندان والوں کو پتہ چلی تو جیسا کہ ہمارے ملک میں عام ہے کہ حسبِ روایت مختلف نسخے، ٹوٹکے اور علاج بتائے جانے لگے، کہ بھائی بس یہ آزما لیں پتھری غائب ہو جائے گی، یہ کرلیں تو بس جیسے جادو ہو جائے گا، وغیرہ وغیرہ، لیکن وہ صاحب اور ان کی اہلیہ پڑھے لکھے لوگ تھے چنانچہ انہوں نے ان باتوں کو ایک کان سے سنا بتانے والوں کو سراہا اور شکریہ ادا کرتے ہوئے فورا دوسرےکان سے نکالا، اور سیدھے علاقے کے ایک ایسے اسپتال جا پہنچے جو کہ ان علاقے کا معروف اسپتال تھا اور وہ جس ادارے میں ملازم تھے، ان کے ادارے کے پینل پر تھا، بس ان سے چوک یہ ہوگئی کہ انہوں نے جاکر معلوماتی کاؤنٹر پر پہلے ہی کہہ دیا کہ میرا پینل ہے، ان کا ادارہ ایک معروف ادارہ تھا، بس پھر تو جیسے ایک جادو سا ہو گیا، انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور فورا سرجن صاحب کے پاس ریفر کر دیا گیا جو لیزر ٹیکنالوجی سے پتے کی پتھری نکالنے کے ماہر تھے، انہوں نے سادہ لوحی میں سرجن صاحب کو بھی ادارے کا نام اور پینل کا بتا دیا، بس جی، پھر کیا تھا، سرجن صاحب نے بغور ساری رپورٹوں کو دیکھا اور پھر بڑے سنجیدہ لحجے میں یو ں گویا ہوئے،

“ آپ کا کیس کافی خراب ہوگیا ہے، پتہ سکڑ کر خطرناک حدود میں داخل ہو گیا ہے، اور کچھ دن نہ آپ آتے تو اس نے کینسر بن جانا تھا وغیرہ وغیرہ“ غرض انہوں نے جب تک اچھی طرح اپنے ان مریضوں کے ہوش نہیں اڑا دیے خامو ش نہ ہوئے، مزید فرمایا کہ، آپریشن تو ہو جائے گا مگر کافی دن اسپتال میں رکنا پڑے گا۔ انہوں نے مزید ٹیسٹوں کی ایک فہرست اس ہدایت کے ساتھ عطا کی کہ یہ ٹیسٹ اس اسپتال سے ہی کرانے ہوں گے کہیں اور کے میں قبول نہیں کروں گا۔ وہ مع بیگم گھبرائے ئے ہوئے باہر نکلے تو شاید کوئی نیکی یا دعا کام آ گئی کہ ایک دم خیال آیا وہ بھی ان سے زیادہ پریشان ان کی اہلیہ کو کہ، کسی اور ڈاکٹر سے سیکنڈ اوپینیئن ( مشورہ ثانی )بھی لینا چاہیے، القصہ مختصر، وہ کسی عزیز کی معرفت اسی شعبے کے ایک بڑے ڈاکٹر کے پاس پہنچے، کیونکہ ریفرنس تگڑا تھا یا شاید وہ معروف ڈاکٹر صاحب میں انسانیت اور اپنے یم بی بی ایس کی ڈگری لیتے وقت کا ” ہیپوکریٹک اوتھ ”یاد تھا، سو انہوں نے بتایا کہ ایسا کچھ مسئلہ نہیں ہے مائنر لیزز آپریشن ہے، 24 گھنٹے میں آپریشن کرا کر آپ کی اہلیہ گھر پر ہوں گی۔ اور ان سرجن صاحب نے صرف بل بڑھانے کے لئے آپ کو یہ کہانی سنائی ہے۔ اور پھر ایسا ہی ہوا، ان کی اہلیہ ایک دن کے قیام کے بعد پتہ کا کامیاب آپریشن کر وا کر گھر آ گئیں۔

یہ تو دیگ کا ایک دانہ تھا صرف جناب، ورنہ وطن عزیز میں شعبہء ہذا میں کیا کیا کمائی کے طریقے نکا ل لئے گئے ہیں وہ اب میڈیا اور سوشل میڈیا کی بے پناہ رسائی کے باعث بڑی حد تک بے نقاب ہو گئے ہیں۔ جعلی ڈاکٹروں اور اتائیوں کو تو چھوڑیں باقاعدہ سند یافتہ اور ہیپٹوپیٹک حلف یافتہ ڈاکٹرز اور ان کے رجسٹرڈ اسپتالوں میں کسی وینٹی لیٹر پر موجود مریض کے انتقال کے باوجود دنوں تک مردہ جسم کو مصنوعی تنفس اور مشینوں کی مدد سے زندہ ظاہر کرکے پیسے بنانا، میٹرنٹی یعنی پیدائش کے ضمن میں نارمل ڈلیوری کی بجائے تقریبا زبردستی آپریشن کردینا، تشخیص و علاج میں ہونے والی اپنی کوتاہی کو مریض یا اس کے متعلقین کے سر ڈال دینا تو اب ایک عام سی بات ہو گئی ہے۔ میڈیکل کمپنیز اپنی دواؤں کی پروموشن کے لئے اور ڈاکٹر کو اسی کمپنی کی بنائی ہوئی دوا تجویز کرنے کے لئے ٹکا کر مراعات اور تحائف کی شکل میں رشوت ہی تو دیتی ہیں۔ وہ جنہیں مسیحا کا اعلی تر رتبہ عطا ہوا ہے، وہ اپنا مقام اور مرتبہ بھول کر بس پیسے کمانے کی مشینیں بن گئے ہیں۔

تو جناب کسی معاشرے میں جب، مسیحا سمجھے جانے والا ظالم، رہبر سمجھے جانے والا رہزن اور اچھا سمجھے جانے ولا اندر سے برا ہو، اور پیسہ ہی سب سے بڑی فضیلت اور خصوصیت سمجھا جانے لگے تو پھر ایسے معاشرے خطرے کی سرخ لکیر جس کے بعد صرف تباہی اور بر بادی ہی بچتی ہے، کے بہت قریب آ جاتے ہیں۔ اور پھر ہم تو مسلمان ہونے کے مدعی بھی ہیں اور کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ایک عام مسلمان ہمیشہ اچھا انسان اور ایک اچھا مسلمان تو بہت اچھا انسان ہوتا ہے، کیا ہم اس تعریف پر پورا اتر رہے ہیں۔ یہ سوال خود سے ضرور پوچھئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).