ہماری ضرورت… دیانتدار قیادت
پانامہ لیکس کی پہلی اور دوسری قسط کے بعد معلوم ہوگیا ہے کہ کرپشن کے اس حمام میں ہماری ساری قیادت ہی ننگی ہے۔ جب تک ہمیں صالح اور دیانتدار قیادت نہیں مل جاتی اس وقت تک حالات یونہی دیگر گوں رہیں گے۔ تاریخ اس پر شاہد ہے جب کسی ناکام ترین ریاست کو بھی کوئی صالح قیادت، کامیاب کپتان، وژنری رہنما اور اچھا حکمران مل گیا تو اس نے ریاست کی ناکامی کو کامیابی میں بدل دیا۔ یاد کریں سنگاپور انیسویں صدی تک ایک ہولناک قسم کا جزیرہ تھا۔ لوگ یہاں جاتے ہوئے بھی ڈرتے تھے۔ پھر 1965ءمیں سنگاپور کو ”لی کو آن یو“ کی شکل میں ایک ایسا رہنما مل گیا جس نے تیس سالوں میں ایک بنجر جزیرے کو دنیا کی بہترین ریاست بنادیا اور آج سنگاپور کو آئیڈیل سمجھا جاتا ہے۔ لوگ دور دور سے آکر ان سے رہنمائی لینے پر مجبور ہیں۔ اس کی معیشت دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں شمار ہوتی ہے۔ انہوں نے کس طرح سنگاپور کو تحت الثریٰ سے اوجِ ثریا تک پہنچایا؟ مہاتیر محمد نے تین دہائیوں میں ملائشیا کو کہاں پہنچادیا۔ جب وہ ملائشیا کے وزیراعظم بنے تو اس وقت ملائشیا کا شمار تیسری دنیا کے پسماندہ ترین ممالک میں ہوتا تھا لیکن ان کی انتھک جدوجہد کی بدولت صرف دو دہائیوں کے بعد ملائشیا کا شمار پہلی دنیا میں ہونے لگا۔ وہ ایک ایسا ملک بن گیا جو معیشت، سرمایہ کاری اور صنعت وحرفت میں یورپ اور امریکا کا مقابلہ کرنے لگا۔ دنیا بھر کے 54 ممالک ایسے ہیں جن کا سارا سرکاری کام کمپیوٹر میں منتقل ہوچکا ہے۔ ان میں ملائشیا کا دارالحکومت ”پتراجایا“ بھی شامل ہے۔ ملائشیا جیسے پسماندہ ملک کو اگر مہاتیر محمد جیسا دور اندیش حکمران نہ ملتا تو وہ کبھی ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں نہ آ سکتا۔ دبئی جہاں تیس پینتیس سال پہلے اونٹ ریس ہوا کرتی تھی۔ دبئی کا نام سن کر لوگوں کے ذہنوں میں ایک لق ودق صحراءکا تصور اُبھرتا تھا۔ پھر اس کی خوابیدہ قسمت نے انگڑائی لی اور اس کو ”زید بن سلطان النہیان“ جیسا اولو العزم رہبر مل گیا۔ انہوں نے دن رات محنت کی۔ کئی سالوں تک ہفتہ وار چھٹی بھی نہیں کی۔ ہر شعبے میں ایمان دار لوگوں کو بھرتی کیا۔ انصاف اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا۔ انہوں نے ایک دفعہ بھیس بدل کر اپنی گاڑی ممنوعہ ایریا میں پارک کردی۔ ٹریفک اہلکار آئے، گاڑی اُٹھا کر تھانے لے گئے اور چالان کردیا۔ زید بن سلطان نے بلا بھیجا: ”تمہیں معلوم ہے یہ گاڑی کس کی ہے؟“ جواب آیا: ”ملک کے بادشاہ زید بن سلطان کی ہے۔“ ”تو پھر یہ جرات کیسے کی گئی؟“ ٹریفک سارجنٹ نے جواب دیا: ”قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ آپ نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔“ اس پر زید بن سلطان نے تاریخی جملہ کہا: ”اب دبئی ترقی کی شاہراہ پر چڑھ چکا ہے۔ اس کی ترقی کوئی نہیں روک سکتا۔“
اور آج کا دبئی چالیس سال پہلے والے دبئی کا عکس ہے۔ تین دہائیاں پہلے جہاں اونٹوں، گھوڑوں اور گدھوں کی ریسیں ہوا کرتی تھیں اب وہاں پر آسمان کی بلندیوں کو چھوتی ہوئی جگمگاتی عمارتیں ہیں۔ اگر دبئی کو زید بن سلطان النہیان جیسا قابلِ فخر حکمران نہ ملتا تو آج بھی وہاں ریت کے ٹیلے ہی ہوتے۔ سراب کبھی حقیقت کا روپ نہ دھارتی۔ یہی حال روانڈا کا تھا۔ جب بھی بد امنی، محرومی ، کرپشن،غربت وغیرہ کا ذکر آتا تھا تو اکثر لوگ روانڈا کی مثال دیتے تھے۔ پسماندگی و ناانصافی کا تذکرہ ہوتا تھا تو بھی روانڈا کی مثال دیتے تھے۔ ظلم کی بات ہوتے ہی روانڈا کی منظر کشی شروع کردیتے تھے، لیکن یہ روانڈا سن 2000ءسے پہلے کا روانڈا تھا۔ اس کے بعد کا روانڈا بدل چکا ہے۔ آپ روانڈا کی اس تاریخ کو سامنے رکھیں اور اس کے بعد پاکستان کے حالات پر نظر دوڑائیں تو کئی مماثلتیں دکھائی دیں گی۔ ہمیں بھی روانڈا کی طرح اقدامات کرنے ہوں گے، بلکہ اس سے چار قدم آگے بڑھ کر کام کرنا ہوگا۔ روانڈا طرز کا ایک جنگی جرائم کاٹربیونل قائم کریں۔ مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچائیں۔جب تک ملک افراتفری کا شکار رہے گا، اس وقت تک یہاں خوشحالی کی کونپلیں نہیں پھوٹ سکیں گی۔ ہمارے پڑوسی ملک چین کو اگر ماﺅزے تنگ جیسا انقلابی شخص اور چواین لائی جیسا زیرک رہنما نہ ملتا تو چین کبھی ترقی نہ کرتا اور آج بھی چینی قوم ”چینی“ سے زیادہ حیثیت نہ رکھتی۔ آج چین کی صنعت کاری نے امریکا ویورپ کی منڈیوں پر قبضہ کررکھا ہے اور شاید عنقریب وہ سپر پاور بھی بن جائے۔ چینی قوم کی ہی کہاوت ہے ”آلو نہ مانگو، آلو کا بیچ مانگو۔“ ہمارے حکمران چین کے دوروں پر دورے تو کرتے رہتے ہیں لیکن ان سے کچھ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جہاں پر سیاسی طوفان کا ریلا آئے یا کالی آندھی چلے۔ آمریت راج کررہی ہو یا جمہوریت کرشمے دکھارہی ہو، کبھی ملک کی ترقی نہیں رُکتی۔ ملک کے عوام کی بھلائی اور فلاح کے لیے شروع کیے گئے منصوبے یونہی رواں دواں رہتے ہیں۔ ان کے انفرا اسٹرکچر میں ترمیم ممکن نہیں لیکن پاک وطن میں عجب چلن ہے جب بھی دوچار سال بعد صدر، وزیراعظم اور دیگر وزارتوں کے قلمدان بدلتے ہیں تو پہلے سے جاری منصوبوں کو یکسر ختم کرکے اپنی منشا کے مطابق دوسروں پر کام شروع کردیا جاتا ہے۔ دوسرے ملکوں میں لانگ ٹرم پالیسی ہوتی ہے اور ہمارے ہاں شارٹ ٹرم بھی نہیں بلکہ پرسنل پالیسی چل رہی ہے۔ فردِ واحد ہی پوری قوم کی قسمت کا فیصلہ کرتا ہے۔ ایک ہی شخص کے ہاتھوں پوری قوم یرغمال بنی رہتی ہے۔ بدقسمتی سے قائداعظم محمد علی جناح کے بعد ملک کو کوئی ایسا حقیقی رہنما میسر نہیں آیا جو بیچ منجدھار میں پھنسی ہوئی قوم کی کشتی کو کنارے لگادیتا بلکہ ہر حکمران نے قوم کی پریشانیوں میں اضافہ ہی کیا۔ آپ ایک ایک کا غیرجانبدارانہ تجزیہ کرکے دیکھ لیں۔
کسی نے ملک کو دولخت کیا تو کسی نے کلاشن کوف کلچر کو فروغ دیا۔ کسی نے قوم کے محسن کو قوم کے سامنے رسوا کیا تو کسی نے عدل وانصاف کا خون کیا۔ کسی نے لاشوں پر سیاست کی تو کسی نے محبِ وطن شہریوں کو دشمنوں کی گود میں ڈال کر اربوں ڈالر کمانے کے دعوے کیے۔ کسی نے قوم کے قیمتی اثاثے کوڑیوں کے دام فروخت کیے تو کسی نے قوم کے خون پسینے کی کمائی سے سرے محل تعمیر کیے۔ کسی نے بھوک اور پیاس سے سسکتے عوام کو چھوڑ کر گھوڑوں اور گدھوں کو مربع اور بادام کھلانے میں رتی برابر شرم محسوس نہ کی۔ کسی نے اپنوں کو نوازنے کے لیے بنیادی قوانین میں تبدیلیاں کیں۔ کسی نے قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دی۔ کسی نے ”سب سے پہلے عوام“ کا خوشنما نعرہ لگایا تو کسی نے روٹی، کپڑا اور مکان کا۔ کسی نے ”سب سے پہلے پاکستان“ کہا تو کسی نے ذاتی عناد کی خاطر جمہوریت پر شب خون مارا۔ جب پاک وطن کے حکمرانوں کی اس دلگداز تاریخ پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے سب اپنی اپنی بقا اور مفاد کی جنگ لڑتے نظر آتے ہیں جبکہ ان کا ظاہری نعرہ ”سب سے پہلے پاکستان“ اور ”سب سے پہلے عوام“ ہی رہا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب پہلی دفعہ بے نظیر بھٹو برسراقتدار آئیں تو پورے ملک میں ایک جشن کا سماں تھا۔ بچوں سے بوڑھوں تک، مزدور سے تاجر اور عام سے خاص تک سب نے شکرانے کے سجدے کیے۔ پھر کیا ہوا؟ جب نواز شریف بھاری مینڈیٹ لے کر اقتدار میں آئے تو پوری قوم کو اُمید ہوچکی تھی کہ بس اب ہماری ترقی کو کسی کی نظر نہ لگ جائے۔ پھر کیا ہوا؟ 1999ءمیں جب جنرل پرویز مشرف نے قوم سے اے میرے ہم وطنو! کہہ کر مخاطب کیا تو قوم نے سمجھا شاید اب تو ہمیں صحیح رہنما مل ہی چکا ہے لیکن پھر جو کچھ ہوا اور ہورہا ہے وہ کھلی کتاب کی طرح سب کے سامنے ہے بلکہ دکھ تو اس بات کا ہے آج بھی ہمارے رہنما اسی قسم کے نعرے لگاکر قوم کو مشتعل کررہے ہیں۔ قوم نے اپنا ملک بچانے کے لیے اپنا تن من دھن ہر آڑے وقت میں قربان کردیا اور ہر اس شخص کا ساتھ دیا جس نے خود کو قوم کا ”نجات دہندہ“ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ بے بس قوم آج بھی پیٹ پر پتھر باندھ کر اور اپنے خون پسینے کی کمائی میں سے ٹیکس دے کر ملک کی ترقی وخوشحالی کے لیے کوشاں ہے لیکن انہیں کوئی صحیح، صلاح اور دیانتدار قیادت نہیں مل رہی جو ملک و قوم کی تقدیر بدل دے۔ اچھا لیڈر ہمیشہ اپنی ٹیم کو بڑی ہوشیاری سے ناکامی کے بھنور سے نکال دیتا ہے اور اپنے عمل سے اپنی قوم کی رہنمائی کرتا ہے۔ بے شک ہماری ضرورت صالح قیادت ہے، جب تک ہمیں ایسی قیادت نہیں مل جاتی اُس وقت تک اسی قیادت پر اعتماد کرنا چاہیے، کیونکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ خواہ حکمران کیسے بھی ہوں، ان کی اطاعت کرنی چاہیے۔ بخاری شریف میں ہے: ”حکمرانوں کی اطاعت کرو اگرچہ وہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔“ بنے بنائے سیٹ اپ کو تباہ و برباد نہیں کرنا چاہیے۔ پانامہ لیکس کی آڑ میں ملک میں اختلاف و انتشار نہیں پھیلانا چاہیے، ورنہ خاکم بدھن ہمارے حالات شام، عراق، فلسطین اور مشرقِ وسطیٰ جیسے ہوتے دیر نہیں لگے گی۔
- جنرل ضیاءالحق شہید کو برا کہنے والے۔۔۔ - 18/08/2016
- ترکی، ایدھی اور قندیل - 21/07/2016
- فلسفہ روزہ سمجھنے کی ضرورت - 31/05/2016
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).