وزیر اعظم کا دورہ جی ایچ کیو اور ہمارے صحافی



پاکستان میں سول ملٹری تعلقات ہمیشہ سے ایک ایسا موضوع رہا ہے جو نہ صرف صحافت کے گرو حضرات کے لیے نہایت سنجیدہ بحث کا سبب رہا ہے بلکہ صحافت کے طالبعلموں کے لیے بھی یہ دلچسپی سے خالی نہیں۔ ایوب خان دور کے بعد سے سول ملٹری تعلقات میں اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آتا رہا۔ بھٹو شہید بے شک پہلے بہتر تعلقات کے بعد سول ملٹری تعلقات کی بڑھتی خلیج کو باوجود کوشش کم نہ کر سکے اور اس خلیج کے اثرات پاکستان پیپلز پارٹی کے دورِ زرداری تک واضح دیکھنے میں آئے۔ نواز شریف کے تو کیا ہی کہنے ان کی کبھی اداروں سے نہ بن سکی نہ امید ہے ۔ اور سونے پہ سہاگہ عدلیہ اور ملٹری دو ایسے ادارے رہے جن کے ساتھ نواز حکومت کی کبھی نہیں بن سکی ۔ وجوہات کیا ہیں؟ لاحاصل بحث ہے۔ نتیجہ کیا رہا؟ سب کے سامنے ہے۔ کیوں کہ ایسا راز ہے جو زباں زدِ عام ہے اب۔

لیکن اس جدید دور میں بھی محسوس ایسا ہوتا ہے کہ پاکستان میں صحافت کنویں کے مینڈک کے مصداق ایک مخصوص دائرے میں گھوم رہی ہے۔ اور وزیر اعظم عمران خان کے دورہ جی ایچ کیو کی جس طرح سے منظر کشی ایک بہت سینئر ٹی وی اینکر نے ایک بہت بڑے چینل پر بیٹھ کے کی اس سے صحافت کے طالبعلموں کو یقیناً دُکھ ہی نہیں بلکہ صدمہ ہوا ہو گا۔ ذکر موجودہ وزیر اعظم کے دورے کا ہو رہا تھا لیکن تصاویر نواز شریف کے دورہ جی ایچ کیو کی چلا کر تاثر یہ دینے کی کوشش کی جارہی تھی کہ اس وقت مصافحے میں اتنی گرم جوشی نہیں تھی جتنی آج عمران خان اور ٹیم کے ساتھ ملتے ہوئے افسران نے دکھائی۔ یہ صحافت ہے؟ کیا صرف ایک مصافحہ زیر بحث لایا گیا؟ نہیں بلکہ پورے ایک ادارے کو زیر بحث لایا گیا۔ اور پورے ادارے کے وقار پہ بات کی گئی۔ ایک سول وزیر اعظم نے اعلیٰ ترین فوجی قیادت سے انتہائی مثبت انداز میں ملاقات کی۔ اور نہ صرف وزیراعظم بلکہ کابینہ اراکین بھی ان کے ہمراہ تھے۔

آئی ایس پی آر کا انتہائی مثبت بیان بھی سامنے آیا۔ لیکن حیرانی اس بات پہ ہوئی کہ اس معاملے پہ پاور پلے کھیلنے والے نہایت سینئر صحافی نواز شریف اور راحیل شریف کی تصاویر چلا کر یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کرتے رہے کہ اس وقت سول ملٹری تناو کی سی کیفیت تھی اور اب ایسا نہیں ہے۔ حد تو یہ کہ شرکائے کانفرنس کے چہروں کی مسکراہٹوں کو بھی ذومعنی جملوں سے مخصوص رنگ دیا جاتا رہا۔

سوال تو یہ ہے کہ بھئی کوئی آپ سے پوچھے، آپ کو مصافحے کی گرمجوشی کا اندازہ میلوں دور سے کیسے ہو گیا کیا آپ صحافی ہیں یا ٹیلی پیتھی کے ماہر؟ آپ بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ جیسا کردار کیوں نبھا رہے ہیں؟ ایک جمہوری حکومت پاکستان کے مضبوط ادارے کے ساتھ تعلقات کو مثبت سمت میں لے جا رہی ہے تو آپ کیوں متنازع بنانے پہ تلے ہوئے ہیں؟ کرسی صدارت پہ کون بیٹھا ہوا ہے، کون نہیں، دائیں جانب کون بیٹھا کون نہیں، بائیں جانب کون بیٹھا کون نہیں، خدارا اس ملک کے حالات پہ کچھ رحم کیجیے، اور اداروں کے درمیان تعلقات کو اپنے کچھ وقت کے تجزیے کی بھینٹ نہ چڑھائیے۔آپ اندازہ لگائیے، کہ ایک جانب سول ملٹری تعلقات ایک مثبت راہ پہ آگے بڑھ رہے ہیں۔ اور دوسری جانب خود ساختہ سینئر صحافی ٹائپ لوگ پرانے دور سے موازنہ کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جیسے آج حالات خاص ہیں جو پہلے نہیں تھے، اور کچھ ایسا رنگ بھرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جیسے آج مہربانی خصوصی ہے۔ فوج ایک جمہوری ادارہ ہے اور اس نے ہمیشہ جمہوری کردار ادا کیا ہے۔ نام نہاد تجزیہ کار اپنی دوکان کی سیل بڑھانے کو کبھی سول حکومت پہ تنقید کے نشتر برساتے نظر آتے ہیں۔ کبھی مثبت اعشاریوں کو متنازعہ بناتے دکھائی دیتے ہیں۔

جو ہم پہلے حاصل نہیں کر سکے وہ ہو سکتا ہے آج حاصل کر لیں۔ جو ہم آج حاصل نہ کر سکے۔ ہو سکتا ہے آنے والے دنوں میں حاصل کر لیں۔ پاکستان میں اداروں کو اپنا اثاثہ سمجھیں۔ پاکستان میں میڈیا پچھلے کچھ سالوں سے جس طرح ایک پارٹی بن کر ابھرا ہے اس کا خاصہ بن گیا ہے کہ یہ عام سے معاملات کو بڑھا چڑھا کر متنازعہ، اور نہایت متنازعہ معاملات کو یکسر نظر انداز کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ حد تو یہ ہے کہ اسے یہ بھی ادراک نہیں رہا کہ کون سے معاملات سر عام زیرِ بحث لائے جا سکتے ہیں اور کون سے نہیں۔

وزیر اعظم پاکستان کے آٹھ گھنٹے جی ایچ کیو میں گزارنے سے ایک مثبت تبدیلی کا آغاز ہوا ہے۔ اداروں کے درمیان تعاون کی فضا پیدا ہو رہی ہے۔ باہمی اعتماد جو مفقود تھا پیدا ہونا شروع ہو گیا ہے۔ ترجمان پاک فوج، وزیر اطلاعات اور غیر جانبدار میڈیا پرسنز اس پورے معاملے میں مثبت تبدیلی کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔ چند ریٹنگ کے شوقین حضرات سے گذارش ہے کہ تھوڑا برداشت کر لیجیے، موازنے سے بہتر ہے کہ آپ بھی مثبت تبدیلی کو قبول کر کے ماضی کی تلخیوں کو گزر جانے دیجیے، اور مصافحوں کی سختی نرمی، مسکراہٹوں یا سلوٹوں کو گننے کے بجائے ایک حقیقی پاکستان ہونے کا ثبوت دیجیے، اور مثبت پاور پلے کھیلیے۔ماضی کی تلخیوں اور آج کی گرمجوشی کو جب آپ ذومعنی انداز سے عوام کو بتاتے ہوئے اپنی ریٹنگ بنانے کی چکر میں ہوتے ہیں تو ایک پورے ادارے پہ بات کر رہے ہوتے ہیں۔ تقاضائے ہوش مندی محترم۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).