مارکیز کی ایک کہانی اور تماشے کا انسانی شوق



بہت دن ایسے گزرے کہ میں خود اس بات کا تعین نہ کر پائی کہ تیزی سے بدلتے حالات و واقعات نے مجھے کہاں لا کھڑا کیا ہے؟ مجھے اعتراف ہے کہ میں گذشتہ صدی کی آخری دہائیوں میں جنم لینے والی ایک پرانی روح ہوں، شاید اسی لیے، مجھے اس نئی صدی کے ابتدائی عشروں کی انقلابی اور برق رفتار تبدیلیوں کو سمجھنے میں کچھ وقت لگے گا۔ کیونکہ اب میں اپنی ریاست میں، قوم کے نام پر، ایک ایسا سیاست زدہ ہجوم دیکھتی ہوں جو عزت، مروت، تہذیب اور رکھ رکھاؤ کی تمام مروجہ اقدار کو پاٹتا چلا جا رہا ہے۔ جو عدم برداشت اور دشنام طرازی میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ گویا اہلِ علم و فکر کا کسی سیاسی مسئلے پر اپنی رائے پیش کرنا، آپ اپنی بخیہ گری کرانے کے مترادف ٹھہرا۔

آپ نے مارکیز کی بچوں کے لیے مسیحی تناظر میں لکھی گئی، ایک بوڑھے فرشتے کی تخیلاتی کہانی تو پڑھی ہو گی، جو جانے کہاں سے، ایک ایسی بستی میں آ نکلتا ہے، جس کے مفاد پرست لوگ اس کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرتے ہیں۔ کوئی اسے بستی کے لیے باعثِ رحمت گردانتا اور اپنی مراد بر آنے کے انتظار میں کئی کئی دن اس کی کرامتوں کے رونما ہونے کا منتظر رہتا۔ جبکہ کسی کے لیے وہ ایک بلائے نا گہانی یا عذابِ الٰہی کا روپ تھا، جو یقیناً کسی آسمانی سازش کے بعد وہاں وارد ہوا تھا۔

ایک تیسرا گروہ بھی تھا جس نے فرشتے کو مستقبل میں اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنے کا سوچا:
”ان میں سے سب سے بھولے کا خیال تھا کہ اِس کو ساری دنیا کا مئیر نامزد کر دیا جائے، ذرا زیادہ عقل کے پوڑھوں نے محسوس کیا کہ اس کو پنج ستاری جنرل ہونا چاہیے کہ ساری جنگیں فتح کر لے، چند خیال پرستوں نے آس لگائی کہ اس سے نسل کشی کا کام بھی لیا جا سکتا ہے کہ وہ روئے زمین پر پَردار سیانوں کی ایک ایسی نسل پیدا کر دے جو پوری کائنات کا چارج سنبھال سکے۔ ‘‘ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔

اور پھر وہ وقت بھی آیا جب بستی کے کچھ لوگوں نے اس فرشتے کو اسیر کیا اور اس کی کی نمائش سے خوب دولت سمیٹی۔ ہر صبح تماشبین کی ایک بہت بڑی تعداد اُس کے حال پر ترس کھانے جمع ہو جاتی ہے۔ وہ قطار در قطار اسیر فرشتے کو دیکھنے کے لیے، پانچ سینٹ کی رقم ادا کرتے، اُس کی حالت پہ افسوس کرتے، اُس کے بارے میں جو منہ میں آتا ہے الٹی سیدھی رائے زنی کرتے اور لوٹ جاتے۔ اور پھر جلد ہی اُس بستی کے لوگ، بستی میں ہونے والے، ایک خاتون کے نئے مکڑی تماشے میں گم ہو نے لگے۔

مجھے لگتا ہے ہماری حالت بھی اُس بستی کے لوگوں جیسی ہے۔ مثالیت پسندی میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ ہم میں سے ہر ایک نے اپنی پسند کے فرشتہ صفت راہنماؤں کے بت تراش رکھے ہیں۔ یہ پسندیدہ بت انسانی خامیوں سے مبرا ہیں۔ ان راہنماؤں کے جھوٹے سچے بیانات کی حمایت و مخالفت میں ہم تہذیب کی ہر حد عبور کرنے کو تیار ہیں۔ ستم تو یہ کہ ہر نئے راہنما کا بُت بھی ایک مخصوص مدت تک ہمارے معیارات پر پورا اترتا ہے، پھر جونہی وہ کہیں چوکتا ہے، ٹوٹتا ہے، یا کسی دانستہ حادثے کا شکار ہو کر پاش پاش ہوتا ہے، ہم پھر سے کمال مہارت سے اپنی محرومیوں کا عکس دکھاتا، ایک نیا بت تراش لیتے ہیں اور اس میں ان خصوصیات کو دیکھنے کی آرزو میں مبتلا ہو جاتے ہیں، جو بسا اوقات بشری تقاضوں سے بھی ماورا ہوتی ہیں۔

دراصل ہم سیاست زدہ لوگ ہیں، جو ہر روز ایک نیا تماشا چاہتے ہیں۔ جسے ہمارا ہر وقت کا چیختا چلّاتا میڈیا بار بار نمایاں کرکے دکھاتا ہے، ایک دوسرے پر غیر مصدقہ الزامات عائد کرتا ہے، باہمی نفرتوں کو ہوا دے کراپنی ریٹنگ بڑھاتا ہے اور بہت سے لوگوں کو اسکرین پر وحشیانہ انداز سے چلّاتا ہوا یا باہم دست و گریباں چھوڑ کر نئے سپانسر ڈ تماشوں کی تلاش میں نکل جاتا ہے۔

سچ پوچھئے! تو وطنِ عزیز پر مسلط اس سیاست کی سیاست نے دوستی اور محبت جیسے خوبصورت رشتوں کا حقیقی حسن گہنا ڈالا ہے۔ مروتیں کہیں کسی نعرے کی شکل فضا میں تحلیل ہو گئی ہیں اور ہر طرف عدم برداشت اور بد لحاظی کی فضا قائم ہے۔ جس نے باہمی نفرت ہی نہیں منافقت اور اشتعال انگیزی کو بھی جنم دیا ہے۔

ذرا سوچئے! محبت، برداشت اور سماج کے ہر فرد کے احترام کا وہ سبق، جو ہم نے اپنے بڑوں سے سیکھا تھا، کیا آ ج ہم اپنی نسلوں کو اس سبق کی روشنی سے فیضیاب کر پائے؟ اپنے بچوں کے ننھے اذہان میں سیاسی تعصبات نقش کرنے کا سہرا ہم کس کے سر سجائیں؟ کب تک اپنی اوردوسروں کی دل آزاری سے خود کو مصنوعی تسکین پہنچاتے رہیں؟ ایک مہذب اور پر امن سماج کے قیام کے لیے، ہمیں واپس اپنی عمدہ اخلاقی اور تہذیبی اقدار میں لوٹنے کی ضرورت ہے۔ وگرنہ یاد رکھئے! تماشا دیکھنے کا شوق کبھی کبھی تماشبینوں کو خود تماشا بنا ڈالتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).