سیاسی کنٹینرز اور سُسر جی


آج کل اسلام آباد کے سیرینا چوک پر بے ترتیبی سے ایک طرف پڑے ہوئے کنٹینرز سیاسی رہنماؤں کی بے حسی کا مذاق اُڑا رہے ہیں اور کسی بڑے سیاسی رہنما کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ کیا کوئی بھی جماعت اس وسیع انتظام کا فائدہ اٹھانے کو تیار نہیں ہے اور کیا پاکستان کے سیاسی مسائل ختم ہو گئے ہیں کہ کنٹینرز آئے پڑے ہیں مگر کسی سیاسی تحریک کا۔ آغاز نہیں ہوا ہے؟

پاکستان کی سیاست میں کنٹینرز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ دارالحکومت کی سڑکوں پر نہایت ہی خوبصورتی کے ساتھ سجانے اور شہریوں کا دل لُبھانے کے لئے رنگ برنگے کنٹینرز، دنیا کے طول و عرض سے ہزاروں میل کا سمندری اور ہوائی سفر طے کر کے اسلام آباد پہنچتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کنٹینرز ہمارے دوست ممالک چین، ترکی، ملائشیا اور کچھ ہماری محبوب دنیا یعنی امریکہ اور یورپ سے آتے ہیں۔

اگرچہ ان کنٹینرز کو منگوانے کا بنیادی مقصد اسلام آباد کے چوکوں چوراہوں پر سجانا اور بعض اوقات قومی مفاد کی خاطر منعقدکیے جانے والے دھرنوں اور جلسوں میں سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کو اپنے چاہنے والوں کی دستبرد سے بچانا ہوتا ہے مگر پھر بھی کنٹینرز بھیجنے والے ممالک ان کے خالی ہونے کا فائدہ اُٹھانے سے چُوکتے نہیں اور ان میں کچھ اشیائے تجارت وغیرہ بھی ٹھونس دیتے ہیں۔ ان کنٹینرز کا اس طرح بے دردی سے تجارتی استعمال ناجائز ہے اور کتنا ناجائز ہے اس کا فیصلہ تو ریحام خان کی اگلی کتاب پر ہی ہو گا، فی الحال ہمیں ان کی سیاسی افادیت پر بات کرنا ہے۔

کنٹینرز کی سیاسی مقبولیت اپنی جگہ مگر ان کی حقیقی افادیت ابھی تک محلِ نظر ہے۔ سیاسی ثقافت میں بنیادی حیثیت اختیار کر جانے والے کنٹینرز کی مثال نئی نویلی دلہن کے سسرالیوں میں سُسر جی کی سی ہے کہ کسی کام کے نہیں ہوں گے مگر ہر کام کے لئے دستیاب ہوں گے، ہر وقت بلا ضرورت سر پر سوار رہیں گے اور ڈانٹنے پر بھی نہیں جائیں گے۔ اچانک ضرورت پڑ جائیں گے گو پتہ ہے کہ ضرورت پوری نہیں کر پائیں گے۔ جہاں بٹھا دیں وہاں سے ہلیں گے نہیں مگر پورے گھر میں سائے کی طرح سب کا پیچھا کرتے نظر آئیں گے۔ ہر موقع پر مدد کو حاضر ہوں گے مگر مدد کی بجائے رکاوٹ ہی ڈالیں گے۔ گھر میں کوئی بھی آئے گا تو سب سے پہلے جناب کا سامنا کرنا ہو گا مگر پوچھو تو صاف مُکر جائیں گے کہ دیکھا ہی نہیں۔

آہنی اعصاب کے مگر اندر سے ٹوٹے ہوئے، بظاہر بہت سخت مگر دراصل نرم۔ گھر میں اپنے آپ کو ایک مصنوعی مرتبہ دے رکھا ہے لہٰذا گھر میں تمام مسائل کی ذمہ داری لئے ہوئے ہیں اور ہر مسئلے پر باقاعدہ ڈانٹ ڈپٹ کے منتظر رہتے ہیں کہ کسی حوالے سے اہمیت ہو۔ اپنے اپنے پھر بھی پرائے پرائے۔ گھر میں نازک حالات سے بچاؤ کے لئے ہراول دستے کی ذمہ داری لئے ہوئے مگر نازک حالات کا پہلا شکار۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ساس صاحبہ نے جس رشتے دار خاتون کے سامنے رکاوٹ ڈالنے پر تعینات کر رکھا ہے اُسی کے سامنے بِچھ بِچھ جائیں گے اور اپنی عمر کا بھی خیال نہیں کریں گے۔

حکام یقینی طور پر دادِ تحسین کے مستحق ہیں کہ سڑکوں پر سلیقہ مندی سے سجانے کے لئے کنٹینرز کا انتخاب نہایت ہی پیشہ ورانہ طریقے سے کیا جاتا ہے۔ چونکہ خالی کنٹینرز سیاسی نعروں کی طرح کھوکھلے ہوتے ہیں لہٰذا ایسے کنٹینرز سے اجتناب ہی برتا جاتا ہے اور سامان سے بھرے ہؤے کنٹینرز عوام کی دلجوئی کے لئے بہم پہنچائے جاتے ہیں۔ سجاوٹ کے اس عمل میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ مختلف رنگوں کے کنٹینرز سلیقے کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر لگائے جائیں کہ دور سے دیکھنے پر دیوار کی مانند لگیں اور نزدیک سے آہنی دیوار ثابت ہوں۔ کنٹینرز کے اوپر کنٹینرز اور کنٹینرز کے پیچھے کنٹینرز لگا کر سیاسی کارکنوں کے لئے ایک صحتمندانہ کھیل اور ورزش کا انتظام کر دیا جاتا ہے۔

اگرچہ کچھ لوگ بیماری کا بہانہ کر کے یا کسی ایمرجنسی کے بہانے کنٹینرز کے اوپر چڑھ کر یا دو کنٹینرز کے درمیان باریک خلا میں سے گزر کر ان انتظامات کا مذاق اُڑانے سے باز نہیں آتے مگر یقین ہے کہ جیسے جیسے قوم میں سیاسی شعور پختہ ہوتا جائے گا پولیس کو ایسے لوگوں سے نمٹنے کے لئے لتر پریڈ کی ضرورت نہیں رہے گی۔ فی الحال انتظار ہے کہ کب کوئی سیاسی جماعت اس صورت حال کا ادراک کرے اور جھوٹ موٹ ہی سہی کسی تحریک کا اعلان ہو کہ اسلام آباد کی شاہراہوں پر پڑے ہوئے کنٹینرز عوام کو سلامی پیش کرنے کے لئے بے چین ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).