’لوہا اٹھانے کے لیے، ہاتھ بھی لوہے کے بنانا پڑتے ہیں‘


ویٹ لفٹنگ

                                           سپورٹس وومن: چاروں بہنوں کی نظریں مزید میڈلز پر۔ (دائیں سے بائیں، ٹوینکل سہیل، مریم سہیل، سائبل سہیل اور ویرونیکا)

دبئی میں ہونے والی ایشیئن بینچ پریس انٹرنیشنل پاورلفٹنگ چیمپیئن شپ 2018 میں پہلی بار پاکستان کی چار بہنیں ایک ساتھ شریک ہوں گی۔

لاہور کے علاقے ساندہ کی رہائشی چار بہنیں اس بار دبئی میں ہونے والے ایشیئن پاور لفٹنگ مقابلے میں شرکت کر رہی ہیں۔ چاروں بہنیں گذشتہ چار سال سے قومی اور بین الاقوامی پاورلفٹنگ اور ویٹ لفٹنگ مقابلوں میں باقاعدہ حصہ لے رہی ہیں اور متعدد کھیلوں میں گولڈ میڈل اور دیگر تمغے بھی جیت چکی ہیں۔

سب سے بڑی بہن سائبل سہیل ہیں جو پنجاب یونیورسٹی میں بی ایس سپورٹس سائنسز کے آخری سمیسٹر میں ہیں اور 47 کلوگرام کیٹگری کی سینئیر ویٹ لفٹر ہیں۔ سائبل اس سے پہلے سنگاپور میں ویٹ لفٹنگ میں طلائی تمغہ جیت چکی ہیں۔

دوسری بہن ٹونکل سہیل 72 کے جی کیٹگری میں انڈر 23 جونئیر ہیں اور بھارت سمیت، مسقط، عمان اور سنگاپور میں کبڈی، ویٹ لفٹنگ اور پاور لفٹنگ میں سونے، چاندی اور کانسی کے تمغے جیت چکی ہیں۔

مریم 63 کے جی کیٹگری میں سینیئر اور ویرونیکا 47 کے جی کیٹگری میں انڈر 17 جونیئر ہیں۔ چھوٹی دونوں بہنیں ابھی تک کسی بین الاقوامی مقابلے میں شریک نہیں ہوئیں لیکن اس بار ایک ساتھ ایک بڑے مقابلے میں شرکت پر بہت پرجوش ہیں۔

سائبل بتاتی ہیں کہ کھیلوں سے لگن اور محبت انھیں اپنے والد سے ملی۔ ان کے والد کرکٹر تھے اور کرکٹ میں ہی اپنا مستقبل بنانا چاہتے تھے لیکن غربت اور مالی پسماندگی نے ان سے ان کا شوق چھین لیا۔ وہ کرکٹ جاری نہ رکھ سکے اور کھیلوں سے محبت اور جنون کو اپنے بچوں میں منتقل کر دیا۔

ویٹ لفٹنگ

                   ساندہ کی رہائیشی چاروں بہنیں سپورٹس میں پاکستان کا نام روشن کرنا چاہتی ہیں

یہی وجہ ہے کہ چاروں بہنوں نے وقفے وقفے سے پاور لفٹنگ، ویٹ لفٹنگ اور دیگر کھیلوں میں شمولیت اختیار کی اور اب تک قومی اور بین الاقوامی مقابلوں میں اپنے زورِ بازو سے مد مقابل کو پچھاڑ کر کئی تمغے جیت چکی ہیں۔

سائبل سہیل بتاتی ہیں ہیں کہ ان سے چھوٹی بہن ٹونکل نے کھیلوں کا آغاز چک بال سے کیا۔ جبکہ ویرونیکا نویں جماعت کی طالبہ بھی ہیں اور دو سال سے قومی سطح پر چک بال، 100 میٹر، 400 میٹر ریس اور لانگ جمپ کی چیمپئین ہیں، اور ان سب میں طلائی تمغے بھی جیت چکی ہیں۔ ’میں بچپن سے ہی کچھ منفرد کرنا چاہتی تھی، اسی لیے میں نے دوسری لڑکیوں کی طرح کرکٹ، ہاکی یا بیڈمنٹن کھیلنے کی بجائے لوہے سے کھیلنا شروع کیا اور اب میں دوسری لڑکیوں سے منفرد ہوں۔‘ ٹونکل انڈیا میں ہونے والے کبڈی کے ٹورنامنٹ میں تیسری پوزیشن حاصل کر چکی ہیں، وہ اب تک مسقط، عمان اور سنگاپور میں ویٹ لفٹنگ کے مقابلے میں بھی جیت کر آئی ہیں۔

ویٹ لفٹنگ

چاروں بہنوں نے وقفے وقفے سے پاور لفٹنگ، ویٹ لفٹنگ اور دیگر کھیلوں میں شمولیت اختیار کی اور اب تک قومی اور بین الاقوامی مقابلوں میں اپنے زورِ بازو سے مد مقابل کو پچھاڑ کر کئی تمغے جیت چکی ہیں

چاروں بہنوں کا کہنا تھا کہ انھیں مضبوط بننے کے لیے دن میں آٹھ گھنٹے مسلسل ٹریننگ لینا ہوتی ہے، جن میں تین گھنٹے صبح اور پانچ گھنٹے شام کے شامل ہیں۔ ان کی خوراک بھی ایک دوسرے سے مختلف اور مخصوص ہے۔ خوراک میں انھیں دودھ، گوشت، سری پائے، مچھلی، دال سبزی لینی ہوتی ہے، جس کے ساتھ سپلیمینٹس کا استعمال انتہائی ضروری ہے۔

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ہر مہینے سپلیمینٹس سمیت اپنی اس مخصوص خوراک کا 50 ہزار روپے خرچ آتا ہے، یعنی ایک ماہ میں چاروں بہنوں پر دو لاکھ روپے لاگت آتی ہے۔ جس کے ساتھ ان کے مخصوص جوتے، بیلٹس اور سپورٹس کٹ کے الگ پیسے ہوتے ہیں جو کافی مہنگی بھی ہوتی ہیں۔ ٹونکل اور سائبل کے والد نے بی بی سی کو بتایا کہ ٹونکل کو پاکستان ریلوے کی طرف سے ہر مہینے 15 ہزار وظیفہ ملتا ہے، جبکہ سائبل واپڈا کی طرف سے نویں سکیل میں پلئیر مقرر ہیں اور 17 ہزار ماہانہ کما رہی ہیں اور یہ رقم ان کی خوراک پر آنے والی لاگت سے انتہائی کم ہے۔

’ہماری حکومت کی مکمل توجہ کرکٹ اور ہاکی پر ہی مرکوز ہے، جس کی وجہ سے دوسرے کھیل شدید متاثر ہیں، حکومت کو چاہیے کہ کرکٹ کے ساتھ دوسرے کھیلوں کے لیے بھی دل میں جگہ پیدا کرے۔‘ چاروں بہنیں اس بار دبئی میں ہونے والی اس بینچ پریس چیمپئن شپ کے بارے میں بہت پر عزم ہیں، مگر ان کی مالی حالت کچھ اچھی نہیں ہے۔ ویٹ لفٹنگ فیڈریشن ان کے جوتوں کی کٹس کے علاوہ کچھ کرنے سے قاصر ہے۔ اس حوالے سے سائبل سمیت باقی بہنوں کی نظریں حکومت اور سپورٹس بورڈ کی طرف اٹھی ہوئی ہیں جہاں سے اب تک کچھ مثبت جواب دکھائی نہیں دے رہا۔

’ہماری مالی مدد کریں،ہم پریشان ہیں کیونکہ مقابلے میں دن تھوڑے رہ گئے ہیں اور سپورٹس بورڈ کی طرف سے کوئی مالی امداد نہیں کی گئی ۔ پیسے کیسے اکٹھے ہوں گے ،یہ پریشانی سر پر سوار ہے، ہم اپنی ٹریننگ پر بھی فوکس نہیں کر پا رہے۔ پچھلی بار والد نے گھر کی رجسٹری رکھوا کر مقابلے میں شریک ہونے کے لیے پیسے لیے تھے۔ ہم لوگوں کے پاس جا رہے ہیں۔ اپنے سرٹیفیکٹس اور میڈلز دکھا رہے ہیں تاکہ ہماری مالی معاونت ہو تاکہ ہم اس مقابلے میں شامل ہو سکیں۔‘

ویٹ لفٹنگ

                                                                   ان کے والد بھی کرکٹر بننا چاہتے تھے لیکن اب وہ سمجھتے ہیں کہ ان خواب ان کی بیٹیاں پورے کریں گی

’ہم حکومت سے امید کرتے ہیں کہ کرکٹ کی طرح ہم پر بھی پیسہ لگائے اور ہم دوسرے ملکوں میں جا کر اپنے پاکستان کا نام روشن کر سکیں۔‘ ٹوئنکل بین الاقوامی ویٹ لفٹنگ کے مقابلے میں شامل ہونے والی پہلی خاتون ویٹ لفٹر ہیں اور انھیں دی سٹرانگیسٹ وومن کا اعزاز بھی مل چکا ہے۔ دوسری جانب سائبل، ٹوئنکل، مریم اور ویرونیکا پرامید ہیں کہ شاید ان کی آواز بھی اقتدار کے ایوانوں میں جنبش کا باعث بن سکے اور انھیں بھی کرکٹ، ہاکی کی طرح بین الاقوامی کھیلوں میں شرکت کے لیے فنڈز مل سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32504 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp