عمران خان کی حکومت اور پہلے 100 دن


بالاخر 22 سال کی جدوجہد اپنی منزل کو چھونے لگی۔ بہت ساروں کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ جو انسان اپنے سیاسی دور کے آغاز میں ایک بھی سیٹ نہ جیت پائے، دوسری بار ایک سیٹ ہاتھ آجائے اور تیسری بار عام انتخابات میں صرف تین سیٹیں جیت کر تانگہ پارٹی کا طعنہ بھی سہے، وہ دو عشروں کے بعد پاکستان کا وزیر اعظم بنے گا۔

اب عمران خان وزیراعظم بن گئے ہیں، لیکن انتخابات سے پہلے خان صاحب نے جس برق رفتاری سے پاکستان کی تقدیر بدلنے والے وعدوں کا انبار لگایا تھا، وزیراعظم بنتے ہی اِسی رفتار سے تنقید کی ضد میں بھی آنے لگے ہیں۔ خان صاحب کو اقتدار کے پہلے دس دنوں میں ہی تقریباَ دس بڑے مخالفانہ مخمصوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کا زیادہ کریڈٹ پنجاب کے وزیراطلاعات فیاض الحسن چوہان، شیخ رشید، عامرلیاقت، خاور مانیکا، فواد چوہدری وغیرہ جیسے نامور سپوتوں کو جاتا ہے۔ یعنی اس مصرعے کے مصادق کے ”اِس گھرکوآگ لگ گئی گھر کے چراغ سے “۔
خیرایک تو ہم پاکستانیوں کا المیہ یہ ہے کہ یا تو کسی سے امید نہیں رکھتے اور جن سے ایک بار امیدیں باندھ لیں پھر ان کو سانس بھی نہیں لینے دیتے۔

ویسے وعدے وعید تو ہر کوئی کرتا ہے لیکن سیانے کہتے ہیں وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے۔ شہباز شریف نے کتنی بار لوڈ شیڈنگ کو چھ مہینوں، ایک سال اور دوسال میں ختم کرنے کا وعدہ کر کرکے اپنے برتھ سرٹیفیکیٹ میں اپنے نام کے خانے کو خطرے میں ڈالا۔ لیکن پھر بھی بجلی ندارد۔

البتہ عمران خان کے لئے صورتحال کچھ اور ہے۔ ان کا ووٹرعمران خان پہ اندھا اعتماد کرتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ خان جو کہتا ہے وہ تو کرتا ہی ہے اور جو نہیں کہتا وہ بھی کر گزرتا ہے۔ لیکن خدانخواستہ اگر عمران خان کے کیے ہوئے بڑے بڑے وعدے کسی سونامی کی نظر ہوگئے تو عمران خان کا اپنا ووٹر اسی سونامی میں کھود کر، اسی کی منجدھار بن کر پورے ملک میں عمران خان اور پی ٹی آئی کے لئے سیلابی صورتحال کا سبب بنے گا۔

اب وعدے تو بہت ہیں، جیسے جنوبی پنجاب صوبہ، 50 لاکھ گھر، ایک کروڑ نوکریاں، وی آئی پی کلچر کا خاتمہ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن خان صاحب نے جو پہلے 100 دن کے پلان کا اعلان کیا ہے اِن تمام وعدوں کی سنجید گی کا سارا دارومدار اِسی 100 دن کے دورانیے پر محیط ہے۔

اب خان صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ اس ابتدائی عرصے کا پہلا عشرہ گزر چکا ہے۔ یعنی اس اہم میچ کا پاور پلے ختم ہونے کو ہے اور فی اوور (یعنی روزمرہ کارکردگی) اوسط انتہائی کم چل رہا ہے۔ اس لئے اب کچھ ’ہارڈ ہٹنگ‘ کرنی پڑے گی۔ مطلوبہ ٹارگٹ کے قریب پہنچنے سے پہلے ضروری ہے کہ خان صاحب کا مردِ بحران اور وزیرخزانہ اسد عمر معاشی بحران کے رن ریٹ کو فوری طور پر کم کر سکے۔ کیونکہ یہ سب سے پہلا اور ضروری مرحلہ ہے جن سے نمٹنے کے لئے فوری اقدامات ہونے چاہیے ِ۔ اس کے علاوہ ان 100دنوں میں کیا ہو سکتا ہے، جتنی مںہ اتنی باتیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ بڑی بڑی باتوں اور دعووں کی بجائے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں اور اس مختصر دورانیے میں صرف وہ کام کریں جن پر پیسے کم خرچ ہو اور فائدہ زیادہ ملے۔ مثلاؑ خان صاحب کو فوراؑ اوورسیز پاکستانیوں کو مخاطب کرکے عتماد میں لینا چاہیے کہ وہ بلا خوف اپنے ملک میں انوسٹمنٹ کریں، زمین اور جائیدادیں خریدیں اور انھیں یہ ضمانت دیں کہ ملک سے باہر رہ کر ان کے جائیداد پر یہاں ماضی کیطرح کوئی قبضہ نہیں کرسکے گا۔

دوسرا کرپشن کے خلاف ضروری اور فوری اقدامات۔ کرپشن کے اس بے لگام گھوڑے کو لگام ڈالنے کے لئے سب سے پہلے وہاں ہاتھ ڈالنا چاہیے جہاں بلی کو دودھ کی رکھوالی پہ رکھا گیا ہے، یعنی ایف بی آر، جہاں پرانے پاکستان کے زمانے کے عمران خان کے بقول ہر سال ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ مال ’چھو منتر‘ہوجاتا ہے۔ خان صاحب کو اور نہیں تو ان 100 دنوں میں اس سفید ہاتھی کی فوری طور پر مکمل اوور ہالنگ کرنی چاہیے۔

تیسرا ماحولیاتی الودگی اور آبی ذخائرایک ایسا مسئلہ ہے جو اگرقابو میں نہ آیا تو مستقبل قریب میں انتہائی سنگین صورت اختیار کر سکتی ہے۔ ویسے تو لمبے عرصے والے منصوبے ہیں لیکن فوری طور پردرخت اگاؤ مہم پورے ملک میں شروع ہونی چاہیے۔ سنا ہے حکومت چند ہفتوں میں ایسا کوئی ارادہ رکھتی ہے جو کہ قابل ستائش ہے۔ ان 100 دنوں میں ایک کام یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حکومت اعلان کریں کہ آئندہ چند ماہ بعد شاپنگ بیگ کے استعمال(جو کہ ماحولیاتی الودگی کے لئے انتہائی خطرناک ہے ) پر پابندی ہوگی اوراس کے متبادل اوراستعمال شدہ شاپنگ بیگ کے سدباب کے لئے ابھی سے اقدامات شروع کیے جائیں۔ ہندوستان جیسے ملک میں بھی استعمال شدہ مواد سے سڑکیں تک بن رہی ہیں۔

جہاں تک آبی ذخائر کا تعلق ہے تو صرف تربیلا ڈیم میں سالہاسال سے ریت آنے کی وجہ سے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں 40 فیصد تک کمی آئی ہے، باقی ڈیموں کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ اس ضمن میں بڑے ڈیم تو جب بنیں گے تب بنیں گے، حکومت فوری طور پر چند ماہرین کی مدد لے کر پورے ملک میں کیچمنٹ ایریاز کی نشاندہی کرکے پانی ذخیرہ کرنے کے مواقع پیدا کریں۔ مزید برآں پہلے 100دنوں میں ان جیسے بہت سارے کام ہوسکتے ہیں جو کم خرچی کے باوجود بہتر نتائج دے سکتے ہیں۔

یہ سب کرکے اگر خان صاحب پہلے 100 دن میں اس ملک کی رکی ہوئی گاڑی کو صحیح پٹڑی پر ڈالنے میں کامیاب ہوگئے تو گھاٹے کا سودا نہیں۔ البتہ ضروری ہے کہ خان صاحب کے کھلاڑی نیٹ پریکٹس سے نکل کر حقیقی میدان میں اتریں اور ان 100 دنوں سے ایک اچھے اننگ کا آغاز کریں۔ ورنہ ایسا نہ ہو کہ چند مہینے بعد عوام چیخیں چلائیں کہ ہمارے ساتھ انصاف نہیں ہوا بلکہ تحریک انصاف ہوگیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).