وزیر اعظم، وزارت اطلاعات اور نادان دوست


نادان دوست اور دانا دشمن کا اک پرانا قصہ ہے۔ بادشاہ نے اک ملازم رکھا۔ ملازم تھوڑا موقع پرست تھا اس لیے وہ پہلے دو تین بادشاہوں کے ہاں بھی اپنی خدمت پیش کر چکا تھا۔ اوپر سے ملازم ذرا نادان اور منہ پھٹ بھی تھا جو ماضی میں بادشاہ کو بھی کھری کھری سنا چکا تھا۔ لیکن بادشاہ کو ملازم بہت عزیز تھا۔ مصاحبین خیر خواہوں نے بادشاہ سلامت سے عرض کیا “ حضور کسی صاحب عقل و نظر کو خدمت کا موقع دیں یہ کہیں آپ کو نقصان نہ پہنچاوے “۔ بادشاہ نے سنی ان سنی کردی۔ اک دوپہر بادشاہ محو استراحت تھا اور یہی ملازم مورپنکھ جھل رہا تھا۔ اتنے میں اک مکھی آکر کو بادشاہ کو تنگ کرنے لگی۔ ملازم نے بارہا مکھی کو ہٹایا لیکن کہاں۔ ملازم نے چاقو نکالا اور مکھی کے درپے ہوا۔ مکھی بادشاہ کے ناک پر براجمان تھی تو ملازم نے چاقو کا وار کیا۔ مکھی تو چاقو کے وار سے بچ گئی لیکن بادشاہ سلامت کا ناک چاقو سے نہ بچ سکا۔

حکمرانوں کے لیے نادان دوستوں کی صحبت زہر قاتل ہوتی ہے۔ جو صرف حکمرانوں کو ہی نہیں بلکہ ملک و قوم اور کئی نسلوں کو زک پہنچاتی ہے۔ وزیر اطلاعات کسی کی حکومت کا منہ ، چہرہ اور زبان ہوتا ہے۔ زبان جتنی پر تاثیر ہو اتنا ہی اچھا۔ اس زبان کا کام خالی بولنا ہی نہیں بلکہ یہ بھی دیکھنا ہے کیا بولنا ہے، کیسے بولنا ہے اور کب بولنا ہے۔ حکومت کتنی کامیاب ہے اس کا بڑی حد تک انحصار شعبہ اطلاعات پر ہوتا ہے۔ اسی لیے اس شعبہ میں قابل دماغوں یعنی ٹیکنیکل جینئیس قسم کے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے حکمت عملی سے حکومت کے سخت فیصلے بھی عوام سے قابل قبول بنوائے۔ بعض اوقات سلسلے بڑھا کر فریب بھی دینا پڑتا ہے۔ یہاں اصلاً گفتار کے غازیوں کی ضرورت ہوتی ہے جو جگر لالہ میں ٹھنڈک کا سامان پیدا کریں۔ آج کل کی زبان میں اسے مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ بھی کہہ سکتے ہیں۔

دوسری جنگ عظیم میں سب سے زیادہ نقصان روس کا ہوا لیکن فتح کا سہرا امریکہ کے سر سجا۔ کیونکہ امریکہ کی مارکیٹنگ ٹیم یا شعبہ اطلاعات بہتر تھا۔ یہ امریکی کی مارکیٹنگ ٹیم کا ہی کمال ہے کہ اس نے اوّل امریکہ کو سپر پاور ثابت کیا دوسرا وہ مواد تخلیق کیا جس میں امریکہ کو ناقابل تسخیر ثابت ہو۔ حتیٰ کہ روس اور امریکہ کی فتح شکست میں امریکی پروپیگنڈہ و مارکیٹنگ کا بڑا عمل دخل ہے۔ اچھا  وزیر اطلاعات وہ ہے وہ مٹی کو سونا بنا کر بیچے یا سونے کو بھی مٹی کر دے۔ شعبہ اطلاعات ہی حکومت کی ریپوٹیشن یا ساکھ کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ نئی حکومت نے اطلاعات کا شعبہ فواد چوہدری کو تفویض کیا ہے۔ لیکن اپوزیشن میں بیٹھ کر حکومت کے لتے لینا سب کی پگڑیاں چھالنا آسان ہے لیکن حکومتی کی نمائندگی مشکل ہے۔ نہ وہ دن ہے نہ وہ رات ہے۔ نہ ہی اب میڈیا سے وہ پہلی سی محبت مانگ کر جوش قدح سے بزم چراغاں کرنے کا کہا جا سکتا ہے۔ جیسے عشق چیز دیگرے سیاست چیز دیگرے۔

اپوزیشن میں آپ پر کوئی بوجھ نہیں ہوتا کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی لیکن حکومت میں آپ کو ہر طرح سے ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ نئی حکومت نے فی الحال اطلاعات کے شعبہ میں کوئی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ دو قصے ہیں جن ذکر بطور خاص کرنا چاہوں گا۔ ہیلی کاپٹر کا استعمال حکمران کا استحقاق ہے۔ ویسے بھی عوام کو کو پروٹوکول کی مصیبت میں ڈالنے سے بہتر ہے وزیر اعظم ہیلی کاپٹر کا استعمال کرلیں۔ لیکن جب وزیر اطلاعات سے صحافیوں نے ہیلی کاپٹر کا سوال کیا تو موصوف نے گوگل دانش سے بچپن روپے کی درفنطنی چھوڑ دی۔ جس بات کا خوبصورتی جواب دیا جا سکتا تھا وزیر موصوف نے اس کو تفریح کی چیز بنا دیا۔ پچھلے ہفتے سے ہیلی کاپٹر اور حکومت مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ حکومت چاند تارے بھی توڑ کے لانے شروع کردے لیکن اس طرح کے تماشے اس کی ساکھ خراب کرنے کے لیے کافی ہیں۔

وزیراطلاعات کا ہی دوسرا واقعہ جو ہیلی کاپٹر کے شور میں دب گیا وہ صدارتی انتخابات کے متعلق فواد چوہدری اور خورشید شاہ صاحب کی ملاقات ہے۔ ملاقات میں خورشید شاہ صاحب نے حسب توقع زرداری کا نام تجویز کیا۔ فواد چوہدری نے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ اس نام پہ کوئی بھی راضی نہ ہوگا۔ فواد چوہدری نے متفقہ صدارتی امیدوار لانے کی بات کی اور کوئی اور نام تجویز کرنے کا کہا۔ خورشید شاہ نے کہا فواد صاحب آپ ہی کوئی نام تجویز کریں۔ فواد چوہدری نے فوراً اپنے دوست اعتزاز احسن کا نام دے دیا۔ بلی کے بھاگوں چھنا ٹوٹا۔ اندھا کیا مانگے دو آنکھیں۔ خورشید شاہ نے فوراً ہاں کردی اور کہا کہ میں پارٹی کو اس نام پہ راضی کرلوں گا۔ ادھر جب تحریک انصاف کو اس بات کا پتہ چلا انہوں نے اعتزاز احسن کے نام سے انکار کردیا اور اپنا امیدوار عارف علوی میدان میں اتار دیا۔

یہ بارہ چودہ دن میں وزیر اطلاعات کی ابتدائے عشق ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ قصے تو کچھ اور بھی ہیں لیکن فی الحال کالم کی تنگی کے پیش نظر اتنا ہی کافی ہے۔ پنجاب کے میدان میں چوہان صاحب نے بھی کچھ ایسے ہی گل کھلائے ہیں لیکن مرکز والے اس وقت گلوں میں زیادہ رنگ بھر رہے ہیں۔ عمران خان اور تحریک انصاف کے حق میں یہی بہتر ہے۔ وزارت اطلاعات کا نازک شعبہ کسی علی محمد خان جیسے بہتر آدمی کے سپر د کرے۔ جنہوں نے پچھلے پانچ سالوں میں ہر محاذ پر پی ٹی آئی کی بہتر وکالت کی ہے۔ نادان دوستوں کے صحبت سے اجتناب ہی بہتر۔ کوئی دن جاتا ہے عامر لیاقت، بزدار، فواد چوہدری اور اس قماش کے نادان دوستوں کی اصلیت کھل کر سامنے آجائے گی۔ کیا تحریک انصاف میں ایک بھی رجل رشید نہیں جو وزارت اعلیٰ کی کرسی کو رونق بخش سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).