گلونہ سارا اباسین پینا چاہتی تھی


خوب صورت چہرہ سفارشی پرچی کی طرح ہوتا ہے۔ یہ بات اس پر صادق آتی ہے تب ہی تو میں ڈائلیسز یونٹ کے تمام بیڈ چھوڑ کر اس کی طرف کھنچھی چلی گئی۔ اس کی معصومیت نے اسے اور بھی مظلوم بنادیا تھا۔ وہ بمشکل سولہ سترہ سال کی ہوگی آخر ایسا کیا ہوگیا تھا کونسی بیماری تھی جو اسے ڈائلیسز کے بیڈ تک لے آئی تھی میں اسی تجسس میں اس کے پاس آئی اور پوچھا۔
تمہارا نام کیا ہے۔

گلونہ۔ میرا نام گلونہ ہے۔
کہاں سے آئی ہو
اباسین کے اُس پار سے
اس نے مجھے بے چارگی سے دیکھا جیسے بہت درد سہ رہی ہو۔

اچھا کونسی کلاس میں پڑھتی ہو۔
کلاس؟
میرا مطلب ہے کونسی جماعت میں پڑھتی ہو؟

میرے پوچھنے پر وہ ہنس پڑی اور کہا۔
میں شادی شدہ ہوں میر ی دو سال کی بچی ہے تیسرے حمل کے ضائع ہونے پر میرا خون بہت بہا تھا اس لئے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔

اس نے ایک ہی سانس میں ساری کہانی بیان کردی تو میری آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا گیا وہ لڑکی جو ساتویں آٹھویں جماعت کی طالبہ لگتی ہے وہ شادی شدہ بھی ہے اور ماں بھی ہے۔ اور دو بچے ضائع بھی ہوچکے ہیں اس معصوم کے۔

میں دل ہی دل میں گلونہ کے والدین کو صلوٰتیں سنارہی تھی آخر ایسی کیا مجبوری آن پڑی تھی کہ اس پھول سی بچی کو بیاہ دیا جس کے ابھی کھیلنے کھانے کے دن تھے پڑھنے کے دن تھے ابھی تو اس کی شخصیت نے کھل کر سامنے آنا تھا۔ بھی تو دنیا کو اس کیصلاحیتوں کا علم ہونا تھا۔ شاید یہ بھی کوئی ملالہ یا ارفع بن جاتی۔ آخر شادی کے نام پر ہم کب تک اپنی بیٹیوں کو بیچتے رہیں گے۔ سیدھا بازار کیوں نہیں لگالیتے اکیسویں صدی بھی تو ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ ہم تو شاید چودہ سو سال پہلے والے کافروں سے بھی بدتر ہیں جو کم از کم اپنی بیٹیوں کا سودا تو نہیں کرتے تھے۔ مارڈالتے تھے۔ گلا دبا دیتے تھے۔ مگر موت سے بدتر زندگی سے تو آزاد کر ہی دیتے تھے۔

گلونہ کو کچھ ہدایات دے کر میں نے اسے کہا کہ اگلی دفعہ اپنی ماں سے ملانا۔ سوچا اس سے پوچھوں گی کہ ایسی کیا مجبور ی تھی۔ اب ذمہ دار کون ہے۔ گلونہ کی جان لیوا بیماری کا۔ ویسے تو ڈائلیسز یونٹ میں روز ہی ایسے مریضوں سے مڈبھیڑ ہوتی ہے جو زندگی کے لیے ایک امید مانگتے ہیں جو انتہائی بے بسی کے عالم میں سوال کرتے ہیں کہ اس بیماری کا کوئی علاج بھی ہے کہ نہیں اور وہ کب تک ڈائلیسز پر رہیں گے۔ ہم ڈاکٹرز جھوٹی امید بھی نہیں دلاسکتے اور سچ بھی کیسے بتائیں۔ کہ جن لوگوں کو دو وقت کا کھانا میسر نہیں وہ ٹرانسپلانٹ کرائیں کہ جس کا خرچہ اگر وہ اپنا خاندان بھی بیچ دیں۔ تو ادا نہ کرسکیں۔

مگر جانے کیوں گلونہ کو دیکھ کر یوں لگتاتھا کہ نہیں گلونہ کو زندہ رہنا چاہیے اپنی چھوٹی بچی کے لئے۔ خود اپنے لئے مگر یہ کیسے ہوگا؟ ایک غریب گھرانے کی بچی یہ معجزہ کیسے ہوگا۔ اب تو لگتا ہے کہ اللہ نے معجزے کرنا بھی بند کردیے۔

اگلے دن گلونہ پھر آنکھوں میں درد لئے ڈائلیسز بیڈ پرپڑی تھی مجھے دیکھتے ہی اس کے چہرے پر ہلکا سا تبسم آیا اور اس کی آنکھوں کے سارے رنگ اور بھی نمایاں ہوگئے مجھ سے پوچھنے لگی باجی میں کتنا پانی پی سکتی ہوں۔ میں نے سمجھانے کے انداز میں بولا۔ دیکھو آپ دو گلاس سے زیادہ پانی نہیں پی سکتی۔

کیا صرف دو گلاس؟
میں نے کہا ”ہاں“ اچھا چلو اگر میں اجازت دوں تو کتنا پانی پیو گی وہ بولی ”سارا اباسین ہی پی جاؤں گی“

اور ساتھ ہی اباسین اس کی آنکھوں میں اُترآیا۔ میرا دل چاہا کہ اس دریا کے آگے بند باندھ دوں مگر اُس کی ٓنکھوں کا دریا چھلک گیا اور مجھ سے پوچھنے لگی باجی آپ کتنا پانی پیتی ہیں ایک دن میں؟

میں نے کہا پتہ نہیں کبھی حساب نہیں لگایا۔
یعنی بے حساب؟ اس نے کہا
میں نے جواب دیا! ہاں شاید
اس پر گلونہ بولی تو کیا کبھی آپ نے اللہ کا بے حساب شکُر بھی ادا کیا؟

کتنے سوال تھے اس کے جواب میں اس کیباتیں میرے دماغ میں گھوم رہی تھیں۔ یا اللہ کوئی معجزہ کر دے کیا غریب کا زندگی پر کوئی حق نہیں۔ میں اپنی سوچوں میں گم تھی کہ چپراسی آیا اور کہا کہ چیف ایگزیکٹو نے میٹنگ میں بلایا ہے۔ میٹنگ ابھی تک شروع نہیں ہوئی تھی میں گلونہ کے متعلق سوچ رہی تھی میٹنگ شروع ہوئی چیف ایگزیکٹو کے چہرے پر خوشی نمایاں تھی وہ پر جوش انداز میں کہہ رہے تھے کہ ہم اگلے مہینے سےگردے کی مفت پیوند کاری شروع کررہے ہیں۔ اور جو تین مریض لسٹ میں تھے ان میں گلونہ کا نمبر پہلا تھا۔

میری اور میری تمام ٹیم کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ چلتن اور زرغون کے دامن میں مفت ٹرانسپلانٹ ہونے جارہا تھا اور آ خر کار چیف ایگزیکٹو اور تمام ٹیم کی کاوشوں سے وہ دن آگیا جب گلونہ کاٹرانسپلانٹ ہوا۔ اور وہ آج بھی اپنی دو سالہ بیٹی کے ساتھ ہسپتال کی راہداریوں میں نظر آتی ہے تو اس کی زبان پر تشکر اور ڈھیر ساری دعائیں ہوتی ہیں۔ اس ہسپتال کے لئے اور اس میں کام کرنے والے ہر فرد کے لیے۔ اور میرا یہ پختہ یقین ہے کہ اللہ کو اگر سچے دل سے پکارو تو معجزےآج بھی ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).