کراچی دنیا کے ناقابلِ رہائش شہروں میں چوتھے نمبر پر ہے


ہم اب تک اس فخر میں مبتلا تھے کہ ہم شہرقائد کے مکین ہیں، اس خوب صورت احساس سے سرشار تھے کہ ہم جس شہر میں رہتے ہیں وہ پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی اور تجارتی شہر ہے جو ہر آنے والے کو روزی دیتا ہے، ہمیں یہ خیال مسرور رکھتا تھا کہ ہم منی پاکستان میں بستے ہیں جہاں ملک کے ہر علاقے سے تعلق رکھنے والا بستا ہے، مگر آج پتا چلا کہ ہم تو اس شہر میں زندگی کر رہے ہیں جو رہنے کے قابل ہے ہی نہیں۔

یہ تلخ اور دل کو دکھاتی حقیقت ورلڈ بینک کی رپورٹ کے حوالے سے شایع ہونے والی ایک خبر دیکھ کر سامنے آئی۔ اس رپورٹ میں کراچی ناقابلِ رہائش شہروں میں چوتھے نمبر پر ہے۔ تین کروڑ آبادی والا یہ شہر منصوبہ بندی کے فقدان کی منہ بولتی تصویر ہے یہ وہی شہر کراچی ہے جہاں سے وفاق کے بجٹ کا 67 فیصد خرچہ پورا کیا جاتاہے۔ مرزا غالب بھی کیا خوب کہہ گئے حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں، آگے سنئے یہ وہی کراچی ہے جو کہ سونے کی کان کی طرح سندھ کے بجٹ کا 97 فیصد حصہ پورا کرتا ہے یعنی صوبہ سندھ کراچی کی آمدنی پر انحصار کرتا ہے۔ لیکن ایک بار پھر منتخب ہونے والے سندھ کے وزیرِ اعلی مراد علی شاہ شاید اب تک اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ وفاق سے اپنے حصہ کا مطالبہ تو کیا جاتا ہے اور کیا جاتا رہا ہے لیکن بجٹ منظوری کے بعد بھی پچھلے دس سالوں سے سندھ حکومت نے کراچی کی ترقی سے لاپرواہی پرتی۔ اور اگر چندسکے خرچ کر بھی لیے جائیں تو اس میں کام سے زیادہ تشہری عوامل کر مدِنظر رکھا جاتا ہے۔

کراچی کی 50 فی صد سے زاید آبادی کچی آبادیوں پر مشتمل ہے جہاں آبادی میں دگنی رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے۔ شہر میں بے ہنگم اور مخصوص علاقوں میں کی جانے والی تعمیرات مسائل میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ کراچی کے سب سے بڑے مسئلے پانی کی قلت کو حل کرنے کے لیے نہ تو کراچی اور نہ ہی صوبے کی سطح پر کوئی پالیسی موجود ہے۔ شہری نظام یومیہ طلب کا صرف 55 فی صد پانی ہی فراہم کر پا رہا ہے پانی کا ضیاع اور بڑے پیمانے پر چوری عام ہے۔ پانی کی قلت کا شکار صوبے کے سب سے بڑے شہر میں 43 فیصد پانی کی قیمت وصول نہیں کی جاتی جس کی مقدار 192 ملین گیلن یومیہ ہے۔

کراچی میں سیوریج کے پانی کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے کے لیے بھی سہولتوں کا فقدان ہے اور یومیہ 475 ملین گیلن فضلہ بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے براہ راست سمندر میں گرایا جا رہا ہے۔ اسی طرح کوڑے کچرے کی صرف 50 فی صد سے بھی کم مقدار کو لینڈ فل سائٹس میں ٹھکانے لگایا جاتا ہے باقی کچرا غیرمحفوظ طریقوں کی بنا پر ماحول کے لیے خطرہ بن رہا ہے۔ کراچی میں قدرتی آفات اور حادثات سے نمٹنے کا بھی کوئی بندوبست نہیں ہے۔

جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں مقامی حکومتوں کو اچھا خاصا رول دیا گیا تھا جیسا کہ عام طور پر ترقی یافتہ ممالک میں ہوتاہے کہ اسمبلی کے ممبران قوانین بنا نے پر زیادہ زور دیتے ہیں اور سڑکیں بنوانا، گلی گوچوں کی صفائی مہم حکومت پر چھوڑ دی جاتی ہے لیکن مشرف کے جاتے ہی تمام صوبائی حکومتوں نے لوکل گورنمنٹ کا حصہ بھی اپنے قابو میں کر لیا اور شہری حکومت کامنتخب میئر صرف منہ دیکھتا رہ جاتاہے۔ مئیر کراچی وسیم اختر صاحب اپنا رونا روتے ہیں کہ ان کے پاس اختیار نہیں ہے۔ کراچی کو جس طرح سندھ حکومت نے کھنڈر بنادیا اس کے بعد تو مئیرکراچی ہو یا کراچی سے منتخب ہونے والی سیاسی جماعتیں سب کو اپنے حق کے لئے بھر پور احتجاج کرنا چایئے۔ مئیر کراچی کے پاس اس وقت کراچی کا 33 فیصد حصہ ہے، کراچی کے باقی حصوں پر سول ایوی ایشن، پاکستان ریلوے، کنٹونمٹ بورڈز، کے پی ٹی اور دیگر ادارے اختیارات استعمال کرتے ہیں جو اختیارات سندھ لوگل گورنمنٹ آرڈیننس کے تحت مئیر کراچی کے پاس نہیں ہیں۔ اور جو تھے وہ بھی سندھ حکومت نے ایک نوٹیفکشن کے ذریعہ واپس لے لئے ہیں۔

ورلڈ بینک نے اپنی رپورٹ میں انتباہ کیا ہے کہ کراچی میں ناکافی ایمرجینسی اور ریسکیو اقدامات اور پلاننگ کے بغیر ہونے والی تعمیرات کی کثرت، ایمرجینسی اور ریسکیو اقدامات کے فقدان کی وجہ سے زیادہ شدت کے زلزلے کی صورت میں عمارتوں کی بڑی تعداد ملبے کا ڈھیر بن سکتی ہیں۔ بڑھتی ہوئی آلودگی کو بھی شہر کا بڑا مسئلہ قرار دیا ہے، جس میں فضائی آلودگی کی صورت حال کو انتہائی تشویشناک قرار دیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ کراچی میں کچرے میں صنعتی فضلے کو جلائے جانے اور مائع فضلے کو بغیر ٹریٹمنٹ ڈسچارج کیے جانے سے آلودگی کا مسئلہ تیزی سے شدت اختیار کررہا ہے پینے کے پانے میں سیسے کی زاید مقدار سے بچوں میں سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہو رہی ہے۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ آلودگی کی وجہ سے شہریوں کو معاشی نقصان کا بھی سامنا ہے۔

ورلڈ بینک نے کراچی میں ٹریفک کی بدنظمی اور پبلک ٹرانسپورٹ کے فقدان کو بھی شہر کا ایک بڑا مسئلہ قرار دیا ہے۔ گاڑیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور موثر حکمت عملی کے فقدان کی وجہ سے مستقل ٹریفک جام کا سامنا ہے۔ شہر میں کوئی سرکاری پبلک ٹرانزٹ سسٹم سرے سے ہی موجود نہیں ہے۔ کاروبار کو درپیش چیلینجز کی وجہ سے کراچی کی کاروباری مسابقت بھی ملک کے دیگر شہروں کے مقابلے میں کم ہو رہی ہے۔ کراچی میں کاروبار پر اثرانداز ہونے والے عوامل میں انفرا اسٹرکچر کے مسائل کے ساتھ سیاسی بے یقینی، بجلی کی لوڈشیڈنگ، کرپشن ا جیسے مسائل بھی شامل ہیں ان سب مسائل کی وجہ سے کراچی میں کاروبار کرنا بھی دشوار ہورہا ہے۔ کراچی کی معیشت سندھ کے دیگر شہروں سے جڑی ہوئی ہے تاہم کراچی کا سندھ کے دیگر شہروں سے مضبوط تعلق ترقی اور روزگار کے مواقع مہیا کرنے کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ کراچی کو سندھ کے دیگر شہروں کے ساتھ جوڑنے کے لیے سیاسی اور انتظامی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ ورلڈ بینک نے کہا ہے کہ کراچی اب بھی ترقی کے لحاظ سے دنیا کے میگا سٹیز کا ہم پلہ ہوسکتا ہے، تاہم اس کے لیے کراچی سٹی ڈیولپمنٹ پلان 2020 پر مرحلہ وار اور تسلسل کے ساتھ عمل درآمد کرنا ہوگا۔

یہ ذکر ہے اس شہر کا جو پاکستان کے بانی قائداعظم محمد علی جناح کی جائے ولادت ہے، وہ شہر جو ملک کو سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے، جو ملک کی واحد بندرگاہ ہے۔ یہ شہر سندھ کا دارالحکومت ہے، جس کی منتخب جماعت طویل عرصے تک حکومت کا حصہ رہی ہے اور جس میں صوبے کی حکم راں جماعت کے اکثر وزراء اور راہ نما مکمل یا جزوقتی رہائش رکھتے ہیں، مگر یہ لوگ تو شہر سے پرے اُمراء کی آبادی میں محلوں میں رہتے ہیں، پھر انھیں اس شہر کے عام آدمی کے مسائل کا ادراک کیوں ہوگا، پرواہ کیوں ہوگی۔

یہ الگ بحث ہے کہ کراچی کو اس حال پر کس نے پہنچایا، اب تو کراچی کی حالت بدلنے کی فکر کرنی چاہیے، لیکن یہ حالت کون بدلے کا کیسے بدلے گی، جن بلدیاتی اداروں سے بدلاؤ کی امید تھی انھیں اونٹ کے منہ میں زیرے سے بھی کم اختیارات حاصل ہیں، اور اختیار رکھنے والی صوبائی حکومت کی پالیسیاں اور اقدامات دیکھ کر لگتا ہے کہ جیسے اس کا صوبے کے دارالحکومت سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ ایسے میں کراچی سے تعلق رکھنے والوں کوِ، خواہ وہ کوئی بھی زبان بولتے اور کسی بھی سیاسی ومذہبی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں، شہر کے مسائل کے حل کے ایجنڈے پر متفق ہوکر تحریک چلانی ہوگی، ورنہ یہ شہر مزید ناقابل رہائش ہوتا چلا جائے گا اور اس کے شہری ایسے شہر میں زندگی کرنے کے عادی ہوتے چلے جائیں گے، یوں کسی قابل نہیں رہیں گے۔

نئے منتخب وزیرِاعظم عمران خان صاحب نے قوم سے اپنی پہلی تقریر میں مخاطب ہوتے ہوئے پنچاب اور کے پی کے کی بہتری کی بات کی بہت سے منصوبے واضح کیے لیکن جہاں سندھ کی بات کی وہاں کہا گیا کہ ہم وہاں کی گورنمٹ سے مل کر پلانگ کریں گے۔ تو جناب عمران خان صاحب سندھ کی حکومت پہلے کونسی اپنی کارکردگی دکھا پائی جو اب دکھائے گی ان سے تو کام کروانا پڑے گا اور وفاق کو اس حوالے سے سندھ حکومت پر دباؤ ڈالنا ہوگا۔ کراچی کو اب ڈویلپمنٹ کے آپریشن کی ضرورت ہے۔

وزیرِاعظم عمران خان، وزیرِ خزانہ اسدعمر، صدارتی امیدوار ڈاکٹر عارف علوی ان سب کا تعلق کراچی سے ہے۔ امید ہے کہ کراچی کے حق میں بہترین فیصلے کیے جائیں گے۔ کراچی کی اہم جماعت ایم کیو ایم کے 7ممبران نے قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کو ووٹ دے کر کامیا ب کروایا اور صدارتی انتخاب جو کہ 4ستمبر کو ہوں گے ان میں بھی ایم کیو ایم اور جنرل ڈیموکریٹ الائنس کا بہت بڑا کردار ہے۔ کراچی کی سیاست اب ایک نئے موڑ پر آگئی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ نئی سیاست کراچی کو مستقبل میں عوام کی فلاح کی صورت میں کوئی تحفہ دے گی یا فقط چہرے بدلے جانے کی حقیقت آشکار ہوگی۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ اگر کراچی کے مسائل کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے حل کیا جائے تو اس شہر میں تعصب اور نفرت کا کوئی نعرہ کبھی کام یاب نہیں ہوسکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).