زرد پتوں میں بن باس جھیلتی عورت


\"abdul ایک زمانہ تھاکہ حقوق نسواں کے متعلق سوچتے تو یہ خیال آتا کہ اگر خواتین عددی اعتبار سے اکثریت رکھتی ہیں تو پھر ان کو امتیاز کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے؟ گزشتہ برس حقوق نسواں کے موضوع پر منعقدہ ورک شاپ کے دوران لاہور کے ایک مشہور سکول کی استانی صاحبہ نے یہ عقدہ بھی کھول دیا۔ کہنے لگیں: عورت اور مرد برابر نہیں ہو سکتے اور اس قسم کا دعویٰ کرنا خلاف فطرت ہے، بعدازاں انہوں نے مذہبی حوالوں کی ایک طویل فہرست سنا دی۔ الہدیٰ کی منتظمین یا امریکہ اور یورپ سے تعلیم یافتہ خواتین بھی عورت مخالف رویوں کی حمایت کرتی نظر آتی ہیں اور پدرسری نظام کو ایک مضبوط بنیاد مہیا کرتی ہیں۔ یہ وہ سپاہی ہیں جو اپنی ہی فوج پر ہلہ بول دیتے ہیں۔ مردوں سے اس ضمن میں اچھی امید رکھنا عبث ہے۔ ہمارے قومی شاعر مردوں کے حقوق نسواں کے متعلق خیالات ایک صدی قبل اپنی شاعری میں بیان کرچکے ہیں۔ عورتوں سے امتیازی سلوک پاکستانی معاشرے کا خاصہ نہیں بلکہ بھارت میں بھی حالات ایسے ہی ہیں۔اس موضوع پر ملا و برہمن ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ عالمی سطح پر صنعت کاری کے باعث سماجی ڈھانچے میں تبدیلی آئی ہے لیکن بہت سے متمدن ممالک میں اب بھی عورتیں برابری کے حصول کی جنگ میں کوشاں ہیں۔ البتہ یورپ یا امریکہ سے آپ کو دہلی یا لیہ میں ہونے والی اجتماعی زیادتیوں کی خبر سننے کو نہیں ملے گی۔

عورت مخالف رویے تو سماج کی بدولت جنم لیتے ہیں لیکن قانون ان رویوں کی حوصلہ شکنی کا کام کر سکتا ہے۔ ہمارے ہاں قانون ساز ابھی تک مروجہ سماجی جرائم کے حوالے سے پیش قدمی نہیں کر پائے۔ پاکستان میں عورت مخالف قوانین اور جرائم کی فہرست طویل ہے۔ ہم ڈاکٹر شازیہ کو انصاف نہ دے سکے، مختاراں مائی کیس کے ملزمان کھلے بندوں پھر رہے ہیں، فرزانہ اقبال کو لاہور ہائی کورٹ کے باہر اس کے باپ اور بھائی نے اینٹوں سے وار کر کے مار ڈالا، سمیعہ سرور کو حنا جیلانی کے دفتر میں اس کے والدین کے بھیجے گئے شخص نے قتل کر دیا تھا، ضیاء دور میں تیرہ سا لہ نابینا لڑکی صفیہ بی بی کو زیادتی کے ’جرم‘ میں عمر قید سنا دی گئی تھی۔ بلوچستان میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والی ریشماں بی بی کے قاتلو ں کی معافی عدالت عظمیٰ نے پچھلے ہفتے ہی منظور کی۔ ان تمام واقعات میں جرم اور سزا عورت کو ہی بھگتنی پڑی۔ لیہ میں تیزاب سے جھلسنے والی نابینا لڑکی سے کی گئی اجتماعی زیادتی میں ملوث افراد بھی اسی طرح قانون اور معاشرے کا منہ چڑاتے رہیں گے۔

کچھ عرصہ قبل تحفظ نسواں ایکٹ کے خلاف منبر و محراب کے وارث احتجاج کرنے سڑک پر آ گئے تھے۔ ثنا خوان تقدیس مشرق کا یہ ٹولہ اب کہاں ہے؟ چادر اور چار دیواری کی نگہ بانی کا دعویٰ کرنے والوں کو ایسے مواقع پر سانپ کیوں سونگھ جاتا ہے؟ یہ نام نہاد غیرت مند،عورت مخالف جرائم کے خلاف کبھی سڑک پر کیوں نہ آئے؟ کیا غیرت اپنی بہن اور بیٹی کو پنجرے میں قید کر کے رکھنے کا بہانہ ہے؟ اس غیرت کی حدیں دوسروں کی بہنوں اور بیٹیوں تک کیوں نہیں پہنچتی؟ راہ چلتی خواتین پر آوازیں کسنے اور ان کو تنگ کرنے والے، بسوں اور رش کے مقامات پر خواتین کو جسمانی طور پر ہراساں کرنے والے اور دفتر وں میں اپنی ماتحت خواتین سے بدسلوکی کرنے والے غیرت مندوں کی فہرست میں اپنا نام سب سے اوپر لکھوانا چاہتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں عورت دوہرے جبر (Double Jeopardy) کا شکار ہے۔ گھر کی چار دیواری میں مقید رہے تو باپ، بھائی، خاوند اور بیٹے اس کی بے مائیگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ گھر سے باہر پہلا قدم رکھے تو بھوکی نظریں تعاقب کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ اکیسویں صدی میں بھی اکیلی لڑکی کا گھر سے نکلنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ہم سماجی ارتقا کی اس منزل پر کھڑے ہیں کہ جہاں ایک لڑکی پسند کی شادی کی خواہش دل میں لئے قبر میں دفنا دی جاتی ہے، جہاں مردوں کی خود ساختہ ’غیرت‘ کا تحفظ عورتوں کو کرنا ہوتا ہے۔ سیاسی سطح پر تبدیلی کے کوئی آثار واضح نہیں۔ تحریک انصاف نے خواتین کو جلسوں میں شرکت کرنے کا حوصلہ عطا کیا تھا لیکن اسی جماعت کے کارکنان نے ایک مرکزی راہنما کی بیٹی کو جسمانی ہراسانی کا نشانہ بنایا تھا۔ کچھ دن قبل اس قسم کی بدمعاشی کی ویڈیو ثبوت کی شکل میں سامنے آگئی۔ پنجاب میں تحفظ خواتین بل کا ڈھونڈورا پیٹنے والی جماعت کے راہنما، مخالف جماعتوں کے متعلق جس قسم کی زبان استعما ل کرتے ہیں، وہ اس بات کی شہادت ہے کہ خواتین کے متعلق ان کے خیالات چنداں مختلف نہیں۔ متعدد سیاسی راہنما عورتوں کو ’جلسے کی رونق بڑھانے‘ کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اس رویے میں میڈیا بھی برابر کا شریک ہے۔ ہم نوجوان ڈاکٹروں کی تنظیم کے تحت مظاہرے کرتے تھے تو میڈیا کے کیمروں کا رخ صرف خواتین کی جانب ہوتا اور اگلے روز ان کی تصاویر نمایاں طور پر اخبارات کا حصہ بنتی۔

تعلیمی اداروں کی جانب نظر دوڑائیے۔ بہت سے اداروں میں آج خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود سرکاری اور نجی درس گاہوں میں ہراساں کرنے کے کیس عام ہیں۔ بات چاہے لمز جیسے جدید ادارے کی ہو یا کراچی اور پنجاب یونیورسٹی کی، پدر سری نظام اور اس کے مظاہر واضح ملیں گے۔ سرکاری اداروں میں ’نامحرم‘ لڑکے اور لڑکیاں کھلے عام بات کرنے سے کتراتے ہیں، کیونکہ اب بھی بہت سے اساتذہ اس ’جرم‘ پر سرزنش کرتے ہیں۔ ایک غیر ملکی دوست نے یہ صورت حال جاننے پر سوال کیا تھا: اگر تم لوگ یونیورسٹی کے دوران دوسری جنس کے لوگوں سے بات نہیں کر سکتے تو عملی زندگی میں (یعنی ڈاکٹر بننے کے بعد) کیسے کرو گے؟

استاد محترم نے سنہ 1997ء میں ’عورتوں کے حقوق، زنجیر اور دیوار‘ کے عنوان سے اداریہ لکھا تھا، اس سے کچھ اقتباس پیش خدمت ہیں:

اگر ہمارا خاندانی نظام واقعی بہترین ہے اور انسانوں کو تحفظ، ترقی کے مواقع اور خوشیوں کی ضمانت فراہم کرتا ہے تو پھر کسی کو گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ معاشرے کی اکثریت اتنی کم عقل اور اپنے فائدے سے بے نیاز نہیں ہو سکتی کہ آنکھیں بند کر کے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لے۔ شاید ہمارے ہی خاندانی نظام اور معاشرتی اقدار میں کوئی بنیادی خرابی ہے یا ہم ان سماجی ڈھانچوں کو بناوٹ اور ارتقا کو صحیح طریقے سے سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہر نسل میں ایک بڑی تعداد ایک خاص عمر تک خاندانی نظام اور نام نہاد معاشرتی اقدار سے ٹکرانے کی سرتوڑ کوشش کرتی ہے اور پچھلی نسل اس رویے پر بوڑھی عورتوں کی طرح بازو پھیلا پھیلا کر بین کرتی نظر آتی ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ ہمارا خاندانی نظام فرد کوتحفظ دینے اور خوشیوں کی ضمانت فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ دوسری طرف موجودہ خاندانی ڈھانچے کی وجہ سے معاشرتی اور سیاسی ترقی میں بھی شدید مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ ہمارے مروجہ خاندانی نظام کی افادیت کا اندازہ لگانا ہو تو اپنے محلے یا گاؤں پر ایک سرسری نظر ڈال کر گھریلو لڑائی جھگڑوں کی بلند شرح ملاحظہ کیجئے۔ اپنے ارد گرد بسنے والوں میں سے منہ بسورتے میاں بیوی اور خوش و خرم جوڑوں کا تناسب نکال لیجئے۔ پورے معاشرے میں بدعنوانی، رشوت، منشیات اور غنڈہ گردی کا طوفان اٹھانے والے آسمانوں سے نہیں اترے، ہمارے مقدس خاندانی نظام کی پیداوار ہیں۔ غریبوں کی بیٹیوں کو جہیز کے ترازو میں تولنے والے اور اپنی ہونے والی بہو میں ہوس پرور درندگی سے دراز قامتی کا اندازہ کرنے والے شرفا مغرب سے نہیں آئے، ہمارے ملک میں ہی پلے بڑھے ہیں۔ جس معاشرتی نظام میں نام نہاد غیرت کے نام پر اپنی بہن، بیٹی اور بیوی کا خون کرنے والا تھانے اور کچہری میں سینہ پھلائے پھرتا ہے، وہاں کی شرافت کا اندازہ کرنا ہو تو دوپہر کی دھوپ میں بچیوں کے کسی سکول یا کالج کے قریب غیرت مند نوجوانوں کے غول ملاحظہ کریں۔ چادر اور چاردیواری کے بلند بانگ نعرے کی حقیقت یہ ہے کہ ہم نے جبر، تشدد اور بد دیانتی کی غلاظت پر منافقت کی چادر ڈال کر اسے روایت پرستی کی چاردیواری میں قید کر رکھا ہے۔

عبدالمجید عابد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عبدالمجید عابد

عبدالمجید لاہور کے باسی ہیں اور معلمی کے پیشے سے منسلک۔ تاریخ سے خاص شغف رکھتے ہیں۔

abdulmajeed has 36 posts and counting.See all posts by abdulmajeed

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments