روحانیت کے گہرے سمندروں میں پاکستانی حکومت کی کاغذی ناؤ


سچی بات ہے کہ حکومت جبکہ پوری طرح سے بن بھی نہ پائی ہو، نکتہ چینی کرنا بری روایت ہے۔ اس لئے صبر سے کام لے کر اچھی امیدیں باندھے رکھیں۔ مگر کمال ہے عمران خان کا کہ انہوں نے شروعات ہی کچھ اس ڈھنگ کی ہیں کہ 28 اگست کی شام ارشاد بھٹی جیو پر اور سمیع ابراہیم تک بول ٹی وی پر چلا اٹھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ میں نے نئے پاکستان کی نئی نویلی وفاقی کابینہ میں شامل اپنے دو پرانے دوستوں سے رابطہ کیا اور عرض کی، کہ اگر یہ دونوں بھی ابھی سے بغیر لگی لپٹی تنقید کر رہے ہیں تو پھر کچھ تو گڑ بڑ ہے۔ دونوں کا جواب جو میں سمجھ پایا، یہ ہے کہ وہ خود بھی کچھ سمجھ نہیں پا رہے کہ جو ہو رہا ہے اس کی وجہ کیا ہے؟

پیری مریدی کا رشتہ اور روحانیت سے واقف دوست ہی جان سکتے ہیں کہ اس رشتے میں پیر، جس کے ہاتھ پر بیعت کی جاتی ہے اپنے مرید کے لئے کیا حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ عمران خان نے بلاشبہ اپنی ہی پیرنی سے شادی کر کے انوکھا کام کر ڈالا لیکن یہاں سے کہانی پھر پرانی شکل میں آتی صاف دکھائی دیتی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے بارے میں روف کلاسرا بھی آخر کار اسی نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ یہ انتخاب پہلے دن ہی ہو چکا تھا، دیر جان کر کی گئی تھی۔

عمران خان نے نتیجہ آنے کے بعد سب سے پہلا کام اپنی ہی پارٹی کو دوبارہ فتح کرنے کا کیا ہے۔ انہوں نے ایک ایک بندے کو جھنجھوڑ کر اسے، اس کی اوقات یاد دلائی اور اوپر سے نیچے تک سب کو بتا دیا کہ تحریک انصاف اور اب حکومت صرف اور صرف عمران خان کا دوسرا نام ہے، جس کسی کو بھی یہ ہلکی سی غلط فہمی تھی کہ اس کا خون پسینہ (خون پسینہ پرانے وقت کی ترکیب ہے آج کل آپ اس کو پیسہ اور پسینہ سمجھ لیں) بھی اس فتح میں شامل تھا اب ہوش میں آ چکا ہو گا جو نہیں آئے وہ نشان عبرت بنا دیے جائیں گے۔ میں اپنی پرانی رائے پر قائم ہوں کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کو ابھی تک مار پڑی ہی نہیں اور ان کو سب سے پہلے مار کا مزا ان کی اپنی پارٹی کی حکومت میں آئے گا اور ایسا آئے گا کہ پولیس والے ترانہ گائیں گے کہ روک سکو تو روک لو، تبدیلی آئی رے۔۔۔ اور پی ٹی آئی کے کارکن اس پر ناچ رہے ہوں گے۔

روحانی سفر پر چلنے والوں کے لئے پیر کیا ہوتا ہے؟ اس کی حقیقت جاننے کے لئے ایک مثال ہی کافی ہے کہ اگر پیر کہے کہ شراب پی جا تو یہ مت سوچ کہ حرام ہے، بس پی جا۔ پیر سے سوال نہیں ہوتے یہ کام آدھا ادھورا بھی نہیں ہوتا کہ آپ آدھے مرید ہیں اور باقی آدھے بچے کچھے انسان، یہ مکمل اطاعت کا نام ہے۔ آپ کے علم میں ہے کہ ان راستوں کے مسافر اپنے پیر سے پوچھ کر کاروبار کرتے ہیں، پوچھ کر سفر پہ نکلتے ہیں، کونسی انگوٹھی کس انگلی میں کس وقت کو پہنی جائے گی، کب کونسا رنگ مبارک ہو گا، کس ساعت میں کونسی دعا پڑھنی ہے، دوست کا نام کس حرف سے شروع ہونا چاہئیے اور کس پر ختم، دشمن کا نام کس حرف سے شروع ہوتا ہے اور کس پر ختم، رشتہ داری کہاں کرنی ہے اور کس سے نہیں، کون کس کام کے لئے مبارک ہو گا اور کون منحوس۔ کس نام کے بندے کا فون سننا کس وقت مناسب ہو گا اور کب یہ گلے پڑ جائے گا، کب سمندر کے نزدیک بسیرا کرنا ہے اور کب پہاڑوں پر ڈیرے لگانے ہیں؟ زمین سے سفر کب مناسب ہو گا اور ہوائی سفر کب منحوس؟ ملک سے باہر کب جانا ہے اور کب نہیں جانا، وغیرہ۔ اس وغیرہ میں زندگی کا ہر پہلو اور ہر سانس شامل ہے۔

آپ کس مذہب کی پیروی کرتے ہیں یا کس فرقے کی کس بات کو درست جانتے ہیں اور کس کو غلط، یقیناً یہ ذاتی معاملہ ہے مگر یہ تب تک ذاتی ہے جب تک یہ آپ کی ذات سے متعلق ہو،اگر یہ کسی دوسرے کی زندگی کو متاثر کرتا ہے پھر یہ ذاتی نہیں رہتا۔ مثلاً میں کسی کام سے بنک جاؤں اور مینیجر نے اس وجہ سے برانچ ہی بند کر دی ہو کہ کاروبار کے لئے اس کے نزدیک وقت منحوس ہے تو پھر میں متاثر ہوتا ہوں۔ پھر میں یہ جاننے کا حق رکھتا ہوں کہ بنک کے اوقات میں جانا ضروری ہے کہ مبارک یا منحوس وقت کا خیال کرنا ہے اور اگر ایسا ہی کرنا ہے تو پھر یہ کون طے کرے گا کہ مبارک وقت کونسا ہے صرف بنک مینیجر کا پیر یا میرا پیر، اگر کوئی ہے۔ ویسے تو مجھ سمیت زیادہ تر شوھروں کا پیر بیوی ہوتی ہے مگر خان صاحب کا معاملہ اس سے کافی آگے ہے۔

روحانی دنیا میں پیروں کے مزاروں کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہوتی ہے، یہاں موت کا وہ تصور بھی موجود نہیں جو عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ یہاں تو ہر وقت غیب کے مناظر ہیں، فرشتوں سے ملاقاتیں ہیں، موکلوں سے مشورے کی سہولت ہے حتیٰ کہ صدیوں پرانی ہستیوں تک رسائی ہونے کے دعوے ہیں۔ اس کا مقابلہ کوئی دنیاوی حقیر انسان کیا کرے گا۔ آپ زمینی دلیل کا جواب دے لیں گے اور بس فارغ ہو جائیں گے۔

خود اہل تصوف بھی کسی ایک متعین راستے پر نہیں چلتے یہاں بھی اختلافات موجود ہیں۔ جیسے مزارات کا معاملہ، کچھ کے نزدیک یہ صرف اولیا اللہ ہیں جن کے مزار پر جانا جائز اور باعث برکت ہے جبکہ وہ تمام لوگ جو ایک خاص روحانی مرتبے پر متعین ہی نہیں، وہاں جانا روشنی کے سفر میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اس لئے حد درجے کی مجبوری سے اگر کسی عامی (عامی سےمراد روحانیات میں عام سا بندہ یا گناہ گار بندہ) کی قبر پر جانا ہو تو پھر اس کے لئے کچھ احتیاط کے تقاضے ہیں۔ ہر نئی بننے والی حکومت کے سربراہ کا قائد اعظم کے مزار پر حاضری دینا ایک روایت رہی ہے مگر یہ پرانا پاکستان تھا، اب قائد اعظم کے مزار پر جانے کا وقت اور ساعت کونسی ہو گی اس کا فیصلہ پیر کریں گے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2