پاک پتن واقعہ کی تحقیقات میں آئی جی درست، ڈی پی او غلط


اسلام آباد :۔ ۔ ۔ وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے پہلے شوہر خاور فرید مانیکا سے پاک پتن پولیس کی مبینہ بدسلوکی کی تحقیقات انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب سید کلیم امام کو بچانے کی کوشش معلوم ہوتی ہے۔ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) پاک پتن رضوان عمر گوندل کو تصور کردہ جرائم کا الزام دیا قرار جا رہا ہے۔ دریں اثناء وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار جو اس پورے تنازع میں مرکز نگاہ ہیں، انہیں تحقیقات کا حصہ نہیں بنایا گیا جن پر الزام ہے کہ انہوں نے ڈی پی او پر دباؤ ڈالا جس سے آئی جی کلیم امام کی پیشہ ورانہ دیانتداری پر سوالات اٹھتے ہیں۔

آئی جی نے معاملے کی تحقیقات کا تو حکم دیا لیکن حوالہ شرائط اس انداز میں ترتیب دیں کہ بڑی مچھلیاں چھوٹ جائیں۔ جہاں تک خاور فرید مانیکا کا پولیس سے مبینہ رویہ کا تعلق ہے، تحقیقاتی عمل نامکمل چھوڑ دیا گیا ہے۔ مزید تحقیقات کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی تاہم قصوروار ہونے کی صورت میں ان کے خلاف کارروائی تجویز کی گئی۔ ڈی پی او رضوان عمر گوندل کے خلاف الزامات تصوراتی ہیں۔ تحقیقاتی کمیٹی نے قرار دیا کہ5 اگست کو جب پہلا واقعہ پیش آیا، شکایت داخل نہ کیے جانے کے باوجود ڈی پی او کو کارروائی کرنی چاہیے تھی۔

سابق ڈی پی او نے اپنے بیان میں بتایا کہ انہیں کسی بھی مجاز افسر (آر پی او یا آئی جی پی) نے خاور مانیکا کے ڈیرے پر جانے کے لئے کبھی نہیں کہا۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق یہ بات پریشان کن ہے کہ اس تاثر کو کیوں اچھالا گیا۔ یہ بات بھی حیران کن ہے کہ کسی بھی مرحلے پر یہ بات میڈیا میں نہیں آئی کہ ڈی پی او گوندل نے مبینہ طور پر اپنے اعلیٰ افسران پر ایسی ہدایات جاری کرنے کا الزام لگایا۔ اس کے بجائے انہوں نے احسن جمیل گجر کا نام لیا کہ انہوں نے ڈیرے پر جا کر خاور مانیکا سے صلح کر لینے کے لئے کہا۔ اس سے قبل انہوں نے فیصل آباد سے ملک کے خفیہ ادارے کے ایک افسر طارق کی جانب سے ٹیلی فون کالز کا ذکر کیا۔ ان کالز میں بھی صلح کر لینے کا کہا گیا۔

کلیم امام نے تصدیق کی کہ طارق، فیصل آباد میں خفیہ ادارے کے کمانڈر ہیں۔ صرف ایک پولیس افسر کا رضوان گوندل نے نام لیا جو ان کے کورس میٹ اور اس وقت بیرون ملک زیرتعلیم ہیں جنہوں نے اس مقصد کے لئے ان سے رابطہ کیا۔ ان تمام باتوں سے جمعہ کو سپریم کورٹ کو آگاہ کیا گیا۔ مخاطب خاتون کا نام پہلی بار سپریم کورٹ بنچ کے سامنے آیا جب کہ انکوائری کمیٹی نے الزامات کی توثیق کے لئے مذکورہ بالا ملزم سے رابطہ نہیں کیا۔ اس تاثر کی حوصلہ افزائی کا الزام رضوان گوندل کو دیا جاتا ہے کہ جیسے انہیں اس حوالے سے ان کے اعلیٰ افسران نے ہدایت کی۔

اسی طرح انکوائری کمیٹی نے رضوان گوندل پر5 اگست کے واقعہ کی تحقیقات نہ کرنے کا الزام لگایا۔ جب پولیس نے مانیکا کی برقعہ پوش صاحبزادی اور بیٹے کو شناخت کرانے کے لئے روکا جب وہ برہنہ پا، بابا فریدؒ کے مزار پر حاضری کے لئے پاک پتن جا رہے تھے۔ یہ الزام اس حقیقت کے اعتراف کے باوجود عائد کیا گیا کہ رضوان گوندل نے مانیکا کو ڈی پی او دفتر آ کر اپنی شکایات کے حوالے سے تحریری درخواست دینے کے لئے کہا۔

یہ اعتراف بھی رپورٹ کا حصہ ہے کہ مانیکا اس پر راضی ہو گئے تھے لیکن کہا کہ ان کا بیٹا جسے روکا گیا تھا، وہ حاضر ہو گا۔ اسی طرح فریقین نے اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کیا کہ مانیکا کا بیٹا رپورٹ درج کرانے نہیں گیا۔ بہرحال انکوائری افسران کی رائے میں5 اگست کے واقعہ کی تحقیقات ہونی چاہیے تھی جس کے نتیجے میں ڈی پی او معاملے کو سلجھا سکتے تھے۔ ان کے خلاف محکمہ جاتی تنبیہ غیرضروری تھی۔

اتفاق سے یہی موقف احسن جمیل گجر نے گوندل سے گفتگو میں اختیار کیا جب موخرالذکر کو 25 اگست کو وزیراعلیٰ ہاؤس بلایا گیا تھا۔ پاکستان میں اس عام شکایت سے کون واقف نہیں کہ پولیس ایف آئی آر درج کرانے کے لئے حوالے تلاش کرنے پڑتے ہیں تاہم اس معاملے میں پولیس کے اعلیٰ حکام رضوان گوندل سے کسی شکایت درج کرائے جانے کے بعد تحقیقات کی توقع کر رہے تھے صرف اس لئے اس میں ایک ایسا خاندان ملوث ہے جس کا تعلق وزیراعظم ہاؤس سے تھا۔

گوندل نے آئی جی کلیم امام کو 5 اگست کے واقعہ سے آگاہ نہیں کیا جب 23 اور 24 اگست کی درمیانی شب کے واقعہ کی تفصیلات زیربحث رہیں۔ یہ ایک اور بھدا الزام ہے جو پہلے دیے گئے بیان کی حمایت میں گھڑا گیا۔ جہاں تک پولیس سے مانیکا کے رویہ کا تعلق ہے انکوائری رپورٹ کے مطابق پولیس حکام جنہوں نے دوسرے واقعہ کے بعد انہیں روکا اور گاڑی کی تلاشی لینا چاہی، مانیکا نے مبینہ طور پر ان سے بدکلامی کی اور دھمکیاں دیں۔ یہ بھی الزام عائد کیا کہ انہیں ایک فون نمبر سے دھمکی آمیز کالز بھی کی گئیں۔ تحقیقاتی کمیٹی نے دھمکیاں دینے والے کی شناخت مانیکا کے ملازم کی حیثیت سے کی۔ پھر سے گوندل کو قصوروار سمجھا گیا جن سے توقع تھی کہ وہ مانیکا کے خلاف قانونی کارروائی کرتے۔

گوندل کو اس واقعہ کے دوسرے دن وزیراعلیٰ ہاؤس طلب کر کے او ایس ڈی بنا دیا گیا اور انہیں کارروائی کے لئے کوئی وقت ہی نہیں دیا گیا۔ انکوائری افسر نے بھی اس کی ضرورت نہیں سمجھی۔ اس واقعہ میں اگر خاور مانیکا نے پولیس حکام سے بدسلوکی کی یا بعدازاں ٹیلی فون پر دھمکیاں دیں اور ڈی پی او کو اس کا علم بھی ہوا تو قانونی کارروائی لازمی تھی۔ ایسا کوئی اقدام نہیں کیا گیا تاہم مزید تحقیقات کی گنجائش رکھی گئی۔ بعدازاں کسی مرحلے پر یہ نکتہ کسی شبہ کے بغیر ثابت ہو جاتا ہے تو ایسے امکانی وقوع میں مانیکا کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).