کچھ مزید عربی دانی اور ہیچ مدانی۔۔


دوستانِ گرامی، دمشق سے ایک بار پھر آداب عرض ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں میں اہلِ خانہ کی سوریا آمد اور اسی دوران ایک شدید گھریلو صدمے سے گزرنے کے بعد مسافر ایک بار پھر بلاد الشام کے گلی کوچوں میں سرگرداں ہے۔ جیسا کہ احباب کو علم ہوگا، یہ ملک اشتراکیت اور عرب قوم پرستی کے معجون مرکّب “بعث” نامی نظریے کا دم بھرتا ہے۔ سو بہت سے ایسے نعرے جو ہماری جوانی کے زمانے میں وطن عزیز میں آج کی نسبت زیادہ مقبول تھے، یہاں سرکاری اعلامیوں میں تواتر سے سننے کو مل جاتے ہیں۔ مثلا، ہمارے انقلاب پسند دوستوں کا پسندیدہ شعار “استحصال” کے نظام پر تبرّا کرنا ہے۔ آج کی عربی میں البتہ “استحصال” کسی قسم کے منفی معانی کا حامل نہیں ہے اور سیدھے سادھے “حاصل کرنے” کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ اکثر موبائل فون پر کمپنی کی جانب سے پیغام آتا ہے کہ دس لیرا کے عوض نت نئی رنگ ٹون کا “استحصال” کریں۔ اس خادم کو چونکہ یہ عمل اردو والے معنی میں استحصال محسوس ہوتا ہے چنانچہ کبھی اعتناء نہ کیا۔ اس پر اچنبھا ہوا کہ اردو والے استحصال کو عربی میں کیا کہتے ہیں، تو ہمارے ایک برادر ادارے کے ایک اشتہار نے مشکل حل کی کہ وہ “استغلالِ جنسی” کے خلاف کام کررہے ہیں۔

ہمارے ہاں لفظ “تواتر” عموما تکرار یا تسلسل کے طور پر برتا جاتا ہے۔ جدید عربی میں اس کا مطلب “فریکوئنسی” ہے۔ یہ انکشاف وائرلیس کے استعمال پر ایک تربیت کے دوران ہوا۔ ہمیں نویں جماعت کی طبیعیات میں اس کے لیے “تعدّد” کی اصطلاح پڑھائی گئی تھی، نجانے کیوں۔۔ اب غور کرنے پر یاد آتا ہے کہ تعدّد کا لفظ ہمارے ہاں اس کے اصل معنی، یعنی کثرت کے طور پر بھی مروّج ہے۔ چنانچہ دوہاجو احباب کی حالتِ زار پر”تعدّد ازواج” کی بھاری بھرکم اصطلاح کا پردہ ڈالا جاتا ہے۔

ابن انشا نے اپنے دورہ ایران کے تاثرات رقم کرتے ہوے قارئین کو فہمائش کی تھی کہ اگر کسی ایرانی کے ہاں جائیں تو ازراہ انکسار “فرش” پر بیٹھنے پر اصرار نہ کریں ورنہ وہ بے چارہ قالین ڈھونڈتا پھرے گا، کہ جدید فارسی میں “فرش” کے یہی معنی ہیں۔ یہاں شام میں ایسے انکسار کے نتیجے میں معاملہ مزید الجھ جانے کا خدشہ ہے اور ایسی صورت میں میزبان بے چارہ صوفوں، میزوں کرسیوں کے پیچھے ہلکان ہوتا پھرے گا چونکہ یہاں “مفروشات” فرنیچر کو کہتے ہیں۔ یہ معلوم ہوا تو خیال آیا کہ اگر مفروشات سے فرنیچر مراد ہے تو بھلا قالین کو کیا کہتے ہوں گے؟ سو پتا چلا کہ قالین کے لیے وہ لفظ ہے جہاں شاعر کے بعد قیس آکر بیٹھا تھا۔۔ آکے “سجادہ” نشیں قیس ہوا میرے بعد۔۔ اس سے پہلے حافظ شیرازی بھی ساقی کی فرمائش پر قالین پر شراب [غالبا نبیذ احمر یا ریڈ وائن مراد ہوگی] الٹنے کی تلقین کر چکے ہیں۔۔ بہ مے سجادہ رنگین کن گرت پیر مغاں گوید۔۔ اسی طرح اگر کوئی آپ سے اصرار کرے کہ میرے “محل” پر تشریف لائیں تو اسے اس کے بڑبولے پن پر محمول کرنا سراسر بے محل ہوگا۔ یہاں “محل” کا مطلب دکان کے علاوہ کچھ نہیں۔ علامہ اقبال کی نظم ابوالعلاء معرّی سے اہلِ ذوق واقف ہوں گے۔ اس کا ایک مصرع تو بالخصوص ہمارے عسکریت پسند احباب کے وردِ زبان رہتا ہے کہ “ہے جُرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات”۔ اس خادم نے اردو میں لفظ “مفاجات” کہیں بھی “مرگ” کے سابقے کے بغیر نہیں دیکھا۔ اس پر چند روز قبل ایک “محل” یعنی دکان کی کھڑکی میں لکھا دیکھا کہ “تنزیلات مفاجات” تو پرسش احوال کو اندر چلا گیا۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ “مفاجات” کا مطلب ہے انگریزی والا “سرپرائز” اور مذکورہ اشتہار کا مفہوم ہے “سرپرائز سیل” ۔

کچھ احباب اس خادم کے زبان کو خالص رکھنے کے شوق کو مراق یا دیوانگی کی ایک قسم قرار دیتے ہیں۔ کل پرسوں مقامی احباب نے گپ شپ کے دوران کسی پر پھبتی کسی کہ وہ تو نرا “خالص” ہے۔ استفسار پر بتایا گیا کہ عمومی بول چال میں “خالص” کا مطلب عقل سے پیدل ہونا ہے۔ انتظار حسین مرحوم زندہ ہوتے تو اپنے غیر ٹکسالی لفظ “نخالص” کے استعمال پر شکر گزار ہوتے کہ بھلے قواعد کی رو سے غلط ہومگر دیوانہ پن کا تاثر نہیں دیتا۔ اسی طرح، یہاں کی بولی میں “اشاعت” کا مطلب افواہ سازی ہے۔ وطن کے اخبارات کی پیشانی پر مرقوم “پاکستان میں سب سے زیادہ اشاعت۔۔” یاد آتا ہے تو جدید عربی کی معنویت مزید کُھل جاتی ہے۔ اردو والی اشاعت کو یہاں “نشر” کہتے ہیں۔ اگر اس سے قارئین کا ذہن بعض اخبارات کے ہاتھوں حقائق کے “حشر نشر” کی جانب جاے تو یہ امرِ اتفاقی ہوگا۔ ہاں، یہ وضاحت ضروری ہے کہ “افواہ” یہاں “پھونک مارنے” کے عمل کو کہتے ہیں۔ گزشتہ کچھ ہفتوں کی سیاسی صورت حال مدِ نظر رکھی جاے تو گمان ہوتا ہے کہ موجودہ صورت حال میں “افواہ” اور “اشاعت”، دونوں کا گہرا ہاتھ ہے۔ قدیم اور جدید دونوں مفاہیم کے مطابق۔

گزشتہ مراسلے میں چند عجیب و غریب خاندانی ناموں مثلا مظلوم، محجوب، یتیم وغیرہ کا ذکر ہوا تھا۔ اس سے پہلے کہ اس فہرست میں تازہ ترین اضافے کا ذکر ہو، یہ بتانا اہم ہوگا کہ “عجیب” یہاں پُر شکوہ بلکہ نئی نسل کی انگریزی میں “آ – سم” کو کہتے ہیں جب کہ “غریب” عام بول چال میں عظیم الشان یا متاثر کن کو۔ ویسے نامانوس کے معنی میں بھی مستعمل ہے۔۔ لغتِ غریب جب تک ترا دل نہ دے گواہی۔۔ سو، ہماری عجیب و غریب ناموں کی فہرست میں تازہ ترین اضافہ “غدّار” کا ہے۔ معنی اس کے یہاں بھی وہی ہیں جو ہمارے ہاں سیاسی فتاوی میں استعمال ہوتے ہیں۔ یہ تحقیق اب تک نہ ہوسکی کہ اس خاندان کے بڑوں سے ایسے کون سے کارہاے نمایاں سرزد ہوے تھے کہ یہ نام پڑ گیا اور اب تک لوگ اسے سینے سے لگاے ہوے ہیں۔ ہمارے ہاں تو اس کے برعکس روایت رہی ہے کہ مسلمہ غداران قوم تو معززین و معتبرین کی صف میں ٹانکے گئے اور آزادی کی خاطر صعوبتیں برداشت کرنے والے غدار کہلاے۔ اس پر پانی پت کے “محلہ نمک حراماں” کے مکینوں سے متعلق ایک روایت یاد آ رہی ہے مگر اس کا ذکر پھر کبھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).