عسکری خارجہ پالیسی ناکام ہوچکی ہے


تین دن سے زائد ہوچکے ہیں، اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔ جو آواز سنائی دے رہی ہے سویلین اداروں سے سنائی دے رہی ہے۔ ٹویٹر کور جو ہر چھوٹے موٹے سیاسی ہنگامے پر ٹویٹ اٹھتی تھی وہ بھی چپ ہے۔ عسکری ادارے جو بلوچستان پر بہت حساس تھے ان پر فاٹا کی ریڈ لائین کراس کر کے بلوچستان تک ڈرون کے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ یوں محسوس ہوا کہ بلوچستان کو چھوڑ کر مرید کے اور بہاولپور کے لالے پڑ گئے ہیں اور کراچی کے مدارس میں ہنگامہ ہے۔ کسی نے پھبتی کسی کہ سیاستدانوں کے اثاثے ملک سے باہر ہیں، ہمارے کبھی بلوچستان میں، کبھی ایبٹ آباد میں مر رہے ہیں۔ پچھلے تین دنوں سے لگتا ہے کہ ملک سویلین ادارے چلا رہے ہیں۔

مگر یہ کوئی پہلی دفعہ تو نہیں ہوا کہ ملک عسکری پالیسوں کی بدولت رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کی کیفیت میں عالمی طور پر رسوا ہوا ہو اور اس رسوائی کا سامنا سویلین رہنماؤں کو کرنا پڑا ہو۔ پانچ سال پہلے ہم اس سے بھی بری حالت میں تھے۔ اسامہ بن لادن پاکستان کے اندر، کاکول اکیڈمی سے ذرا فاصلے پر مارا گیا۔ امریکی پاکستان کے اندر ایبٹ آباد تک گھس آئے اور چند گھنٹوں میں اپنا آپریشن کر کے یہ جا وہ جا۔ ہم اس کے بعد اپنی عالمی رسوائی پر ہاتھ ملتے رہے۔ ملک میں شور مچا، عسکری رہنما صاف مکر گئے کہ ہم نہیں جانتے یہ یہاں کیسے آگیا۔ ان کیمرہ پارلیمنٹ بریفنگ ہوئی۔ سیاستدان دنیا کا سامنا کرنے کے لئے آگے کئے گئے، سویلین بالادستی کی بات چلی اور پھر کچھ ہی عرصہ بعد میمو گیٹ ہوگیا۔

آج بھی یہی دیکھنے میں آرہا ہے۔ حکومت جسے پاناما لیکس معاملے پر پوری طرح زچ کیا گیا اسے دنیا کا سامنا کرنے کے لئے آگے کر دیا گیا ہے۔ کوئی ٹویٹ، کوئی بیان، کوئی خبر تین دن سے نہیں آئی، یوں جیسے یہاں کوئی طاقتور اسٹیبلشمنٹ ہے ہی نہیں۔ دفتر خارجہ بیانات جاری کر رہا ہے۔ وزیراعظم ڈرون حملے کی مذمت کر رہا ہے۔ میڈیا بھی کام چلاؤ رپورٹنگ کر رہا ہے۔ اصل سوال جو پوچھنے والا ہے کہ ملا منصور پاکستان کر کیا رہا تھا؟ اس پر مٹی ڈالنے کے لئے ابھی تک عوام کو اس ابہام میں مبتلا کیا جارہا ہے کہ کوئی ولی محمد مر گیا ہے اور عالمی میڈیا اس شبہ میں ہے کہ یہ ملا منصور ہے۔ ولی محمد کا پاسپورٹ کیوں بنا؟ وہ ایران کیا کرنے گیا تھا اس سے ہمیں سروکار نہیں۔۔۔ آخر ڈرون کیوں ہوا؟

بات دراصل یہ ہے کہ عسکری خارجہ پالیسی فیل ہوچکی ہے۔ ہم نے پچھلے چار عشروں میں دوست کم بنائے اور دشمن زیادہ۔ پاکستان کے تین ہمسائے چاہ بہار بندرگاہ کے لئے جمع ہوتے ہیں، مقصد صرف ایک ہے کہ پاکستان سے متبادل راستہ تلاش کیا جائے اور ہم سمندر پار سعودی مفادات کے تحفظ پر لگے ہیں۔ ہمالیہ کے پار چین کو اپنے مسائل کے حل کی کنجی سمجھتے ہیں۔ چین جو بیک وقت افغانستان اور ایران پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے اور ہندوستان سے کھربوں روپے مالیت کی تجارت۔ 2008 سے اب تک دونوں سویلین حکومتوں نے پوری کوشش کی کہ ہمسایہ ممالک سے خوشگوار تعلقات قائم کئے جائیں۔ افغانستان کی طرف دیکھیں تو طالبان کی عفریت بیچ میں حائل ہے، ایران سے تعلقات پر سعودی سائے ہیں اور بھارت کی تو نہ ہی پوچھیں، بات ممبئی حملوں سے شروع ہوتی ہے اور پٹھان کوٹ اٹیک تک جا پہنچتی ہے۔ عسکری خارجہ پالیسی میں ملکی مفاد سے زیادہ چھاتی کا سائز اہم ہوتا ہے۔ مخالف کو ناکوں چنے چبوانے ہوتے ہیں بھلے اس میں اپنی ایک پسلی بھی نہ رہے۔ سویلین رہنما البتہ موم کی طرح نرم ہوتے ہیں۔ انہیں اضداد سے معاملہ فہمی کرنے کا تجربہ ہوتا ہے۔ انہیں شخصی و ادارہ جاتی اناؤں سے زیادہ ملکی مفاد مقدم ہوتا ہے۔ ملک کا وزیراعظم وسطی ایشیا سے لے کر ایران، افغانستان اور بھارت سے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اندرون خانہ اس کی جڑیں کاٹنے پر مصروف ہیں۔

ملا منصور کی کیا کہئے کہ مان تو ہم پہلے ہی آئے تھے کہ افغان طالبان کا آنا جانا ہمارے ہاں ہے۔ سرتاج عزیز صاحب نے کہا بھی کہ ان کے خاندان یہاں ہیں، یہ آتے جاتے ہیں پاکستان۔ ہم اپنا رسوخ استعمال کریں گے کہ یہ میز پر آئیں۔ بڑی کوششیں کی گئیں، بڑے زور لگائے گئے۔ مگر انہوں نے میز پر آنا تھا نہ آئے۔ ایسے میں ڈرون حملہ ہوا، کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔۔۔ ہاں کہاں ہوا۔۔۔ بلوچستان میں۔۔۔ یہ بہت آنکھیں کھولنے والی بات ہے۔ مقامی صحافیوں کی کھیپ نے تو اس جانب اشارہ کرنا شروع کر دیا ہے کہ جو ڈرون علاقہ غیر سے نکل کر بلوچستان پہنچ گئے ہیں وہ پنجاب تک نہ آجائیں۔ یار لوگوں کا اشارہ مرید کے کی جانب ہے۔ ایک خلیفہ نے تو جواباََ کہ دیا کہ ڈرون پنجاب آئے تو سہی، یہ کوئی ویران علاقہ نہیں ہے، مار گرایا جائے گا۔ سوال صرف اتنا ہے کہ یہ ڈرون امریکہ سے ایف سولہ طیارے بازار سے بارعایت نرخوں پر خرید کر گرایا جائے گا یا اس کے لئے چینیوں سے مدد لی جائے گی۔ یہ سوچ ہماری قومی کنفیوژن کی عکاسی کرتی ہے۔ پچھلے تین ماہ ہم ماتم کناں رہے کہ امریکہ وعدہ کر کے مکر گیا، سستے ایف سولہ نہیں دے رہا۔ اب سینہ ٹھونک کے کہ رہے ہیں کہ اب کے مار۔

امریکی محکمہ خارجہ نے بیان جاری کیا ہے کہ پاکستان کی خودمختاری اپنی جگہ مگر جو شدت پسند امریکی افواج پر حملے کرتے ہیں ان کو اب کوئی محفوظ ٹھکانہ نہیں دیا جائے گا۔ مہربانوں کو خوش ہوجانا چاہئے کہ بات مرید کے اور بہاولپور تک ابھی نہیں آئی، ہاں افغانستان میں ہونے والی جنگ کی بساط اب مختلف ہوگی۔ مہرے احتیاط سے چلنے پڑیں گے۔

افغانستان میں جاری سرکاری جہاد سے ملک میں جاری اینٹی جہاد آپریشن متاثر ہورہا ہے۔ جب تک بیرون ملک جہاد کی ضرورت رہے گی، ملک میں جہادیوں کی نرسریاں موجود رہیں گی اور مقامی جہادیوں کی کارروائیوں پر صرف نظر کرنے کی وجوہات بھی موجود رہیں گی۔ اور جب تک یہ وجوہات موجود ہیں۔ ہمارا مقدر بھی کابل کی گلیوں سے جڑا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments