عبدالستار ایدھی۔۔۔ جیسا میں نے انہیں دیکھا


(8 جولائی کو عبدالستار ایدھی صاحب کو ہم سے رخصت ہوئےسات برس ہو گئے۔ ایدھی کے بارے میں ڈاکتر شیر شاہ سید کا زیر نظر مضمون یکم ستمبر 2021 کو ہم سب پر شائع ہوا تھا۔ اس عظیم انسان کی یاد میں اشاعت مکرر حاضر ہے)

٭٭٭      ٭٭٭

میں نے فیصل ایدھی سے کہا کہ مجھے ایدھی صاحب کے پہنے ہوئے کپڑوں کا ایک جوڑا چاہیے۔

ایدھی صاحب ہمیشہ ملیشیا کے کپڑے سے سِلا ہوا کالے رنگ کا پاجامہ اور قمیض پہنتے تھے۔ میں نے انہیں کبھی بھی کسی دوسرے لباس میں نہیں دیکھا۔ پہلی دفعہ انہیں میں نے اس وقت دیکھا جب میں ڈاﺅ میڈیکل کالج میں تیسرے سال کا طالب علم تھا۔ ہم سے تین سال سینئر ہمارے ایک دوست جو آخری سال کے طالب علم تھے وہ میٹھادر کے ایدھی سینٹر کے دواخانے میں رات کو ڈیوٹی کرتے تھے۔ کالج میں کسی سیاسی مسئلے پر ایک پمفلٹ چھاپنے کی ضرورت پڑگئی تھی۔ جلدی جلدی پمفلٹ لکھ کر ایک دوست برنس روڈ چلا گیا تاکہ اسٹینسل کاٹ کر سائیکلواسٹائل مشین پر پمفلٹ چھپوا لیے جائیں اور جیسے ہی صبح صبح بسیں طلبا کو لے کر کالج پہنچیں تو ان میں چھاپا ہوا پمفلٹ تقسیم کردیا جائے۔ یہ سارا کام بیس روپے میں ہوتا تھا جس کے لیے مجھے میٹھادر بھیجا گیا تھا تاکہ ایدھی سینٹر میں کام کرنے والے کامریڈ سے میں بیس روپے لے کر برنس روڈ پہنچ سکوں۔

وہیں پر میں نے ایدھی صاحب کو پہلی دفعہ دیکھا۔ کالے پاجامہ قمیض میں وہ سینٹر کے باہر سیمنٹ کی بنی ہوئی بینچ پر بیٹھے ہوئے تھے اوران کے ساتھ تین آدمی اور تھے وہ سب پاکستان کی سیاست پر بات کررہے تھے۔ میں نے اُس دن ہونے والی سیاسی بحث پر کوئی خاص توجہ نہیں دی تھی کیوں کہ میں جلدی میں تھا اور روپے لے کرفوراً ہی برنس روڈ کی طرف روانہ ہوگیا تاکہ دوکانیں بند ہونے سے پہلے پمفلٹ چھپ کر تیار ہوجائے۔ میں نے اس وقت ایدھی صاحب کو بھی کوئی خاص اہمیت نہیں دی تھی مگر اس دن کی ان کی سائے جیسی شبیہ میرے ذہن کے کسی خانے میں جم گئی تھی۔

بہت دنوں کے بعد کالج کینٹین میں ایدھی دواخانے کے بارے میں کوئی بات ہو رہی تھی، کسی نے کہا کہ ایدھی صاحب کے سینٹر میں جو دواخانہ ہے وہاں سندیافتہ ڈاکٹر نہیں ہوتے ہیں بلکہ وہ میڈیکل کالج کے فائنل ائر کے طلبا کو رکھتے ہیں جو ان کا دواخانہ چلاتے ہیں۔ میں نے سوچا تھا کہ یہ کہنا تو بڑا آسان ہے مگر سند یافتہ ڈاکٹر کا حصول کتنا مشکل ہے اس کا اندازہ ہر کوئی نہیں لگاسکتا ہے۔ ہمارے ملک کے دیہی علاقوں میں چپے چپے پر اور یہاں تک کہ بڑے شہروں میں بھی ایسے لوگ ڈاکٹری کررہے ہیں جنہوں نے میڈیکل کالج تو خیر دور کی بات ہے اسکول میں بھی نہیں پڑھا ہے اور ڈاکٹر بن کر علاج کررہے ہیں۔ سینئر میڈیکل اسٹوڈنٹس کے ذریعے مریضوں کو دیکھنا شاید غیر قانونی ہوگا شاید غیراصولی بھی ہو لیکن آخر یہی میڈیکل کے طالب علم ہی تو سول ہسپتال کراچی میں کام کرتے ہیں۔ سیکھنے کے شوقین یہ طالب علم ہی سارے سارے وارڈ چلاتے ہیں اور زیادہ تر اوقات میں وہ کسی کے زیرنگرانی بھی نہیں ہوتے ہیں۔

آج چار دھائیوں کے گزرنے کے بعد صورت حال سامنے ہے، سینکڑوں کی تعداد میں میڈیکل کالج ہیں لیکن صحت کے میدان میں ڈاکٹر نہیں ہیں ملک میں قابل ڈاکٹروں کی شدید کمی ہے اور اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ نہیں ہے کہ صحت کے کارکنوں کی متبادل قوت تیار کی جائے جو بنیادی صحت کے مسائل سے نمٹ سکیں۔ ایدھی صاحب دور اندیش انسان تھے۔وہ اس زمانے میں کسی نہ کسی طرح رات کو جب کوئی نہیں ملتا تھا تو کم از کم میڈیکل کے سینئر طالب علموں کے ذریعے مدد ضرور فراہم کرتے تھے۔

ڈاکٹر بن جانے کے بعد ہاﺅس جاب کے دوران جب ایمرجنسی میں ڈیوٹی لگتی تھی اور شعبہ حادثات میں جانا ہوتا تھا تو اس وقت صحیح معنوں میں احساس ہوا کہ ایدھی صاحب کی ایمبولینس کس طرح سے شہر کے کوچوں اور گلیوں سے ضرورت مند مریضوں کو لے کر ہسپتال آتی ہیں۔ ملک میں اس وقت بھی کوئی صحت کا مناسب اورموثر منظم نظام تھا اور نہ اب ہے۔ سرکاری ہسپتالوں کی حالت یہ ہے کہ سیاستدان اورنہ ہی نوکر شاہی کے افسران علاج کے لیے سرکاری ہسپتالوں کا رُخ کرتے ہیں۔

ایدھی صاحب نے آہستہ آہستہ پورے ملک میں اپنی ایمبولینس سروس کا جال بچھا دیا تھا، وہ نہ صرف یہ کہ پاکستان میں جانے بوجھے جاتے تھے بلکہ پاکستان سے باہر بھی لاکھوں کروڑوں لوگ ان کے کام سے آگاہ تھے۔ کشمیر کی دور افتادہ وادیاں ہوں یا سندھ و بلوچستان کے دور دراز کے صحرا پنجاب کے دیہات ہوں یا اس وقت کے صوبہ سرحد کے پہاڑوں پر بنے ہوئے شہر، ان کی ایمبولینس ایک جذبے والے ڈرائیور کے ساتھ مل ہی جاتی تھی۔ حمل کی پیچیدگیوں کی شکار مائیں، دمے اورسانس کی بیماریوں سے مچلتے ہوئے بچے، خون کے دباﺅ کاشکار پیروبزرگ اور دل کے درد میں گھائل مرد و عورتوں کے لیے ایدھی ایمبولینس کا ہی سہارا تھا۔

ڈاکٹر بننے کے بعد میں انگلستان چلا گیا، وہاں کی مصروفیات، امتحان اور امتحان میں بار بار فیل ہونے کے بعد دوبارہ تیاریوں کی پریشانیوں نے زندگی مشکل میں ڈال دی تھی۔ یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ ملک میں کیا ہورہا ہے۔ ضیاءالحق کی غیرقانونی، غیراخلاقی اور غیرجمہوری اور ظالم حکومت کی اُلٹی سیدھی خبریں سننے کو ملتی رہتی تھیں، ایدھی صاحب اوران کی ایمبولینس سروس کا کوئی خیال بھی نہیں تھا۔ وہ گزرے ہوئے دنوں کا ایک خواب تھے جس کی کوئی تعبیر نہیں تھی۔ اسی زمانے میں خبر ملی کہ ایدھی صاحب نے ضیاءالحق کی مجلس شوریٰ میں شمولیت اختیار کرلی ہے، ساری زندگی میں یہی ایک دن تھا جب ایدھی صاحب سے دل متنفر ہوگیا۔ جھوٹ، وعدہ خلافی، مذہب کا سیاسی استعمال، ان تمام چیزوں میں ضیاءالحق سیاستدانوں سے کم نہیں تھے اور ان کے ساتھ ایدھی کا میل جول قطعاً قابل قبول نہیں تھا۔

پاکستان واپس آنے کے بعد دوبارہ سے ایدھی صاحب ذہن کے کینوس پر نمودار ہوگئے تھے۔ جلد ہی پتہ چلا کہ مجلس شوریٰ کے دن ان کے انتہائی بے خوشی کے دن تھے وہ مراعات وصول کرتے نہیں تھے۔ اسلام آباد میں ڈاکٹر ارشد قاضی کے گھر ٹھہرتے تھے۔ مجلس شوریٰ میں ایدھی صاحب اپنی باتوں کی وجہ سے جلد ہی غیرمقبول ہوگئے۔ ایک دفعہ انہوں نے مدرسوں میں اسلحہ کی موجودگی پر تقریر کردی جس کے بعد آبپارے کے ایک مولوی نے انہیں کافر قرار دیدیا اور ساتھ ہی یہ فتویٰ بھی داغ دیا کہ ایدھی کو زکوٰة، خیرات، صدقہ اور قربانی کی کھالیں دینا حرام ہے۔ نہ صرف یہ کہ حرام ہے بلکہ گناہ ہے۔ بہت جلد ایدھی صاحب نے مجلس شوریٰ سے چھٹکارا حاصل کرلیاتھا۔ وہ عوامی آدمی تھے،ضیاءالحق جیسے ظالموں سے ان کا تعلق دیرپا ہو ہی نہیں سکتا تھا۔

شروع میں مجھے سول ہسپتال کے عورتوں کے وارڈ میں نوکری ملی جس کے بعد میں سوبھراج میٹرنٹی ہسپتال کا انچارج بن گیا اور دوبارہ سے ایدھی صاحب کی ایمبولینس سروس سے واسطہ پڑا۔ اس عرصے میں تین چار دفعہ میٹھادر کے ایدھی سینٹر میں ان سے ملاقاتیں رہیں اور ہر دفعہ ان ملاقاتوں میں ان کی سادگی کا میں مداح رہا۔ وہ سیدھے سادے الفاظ میں بغیر کسی لگی لپٹی کے اپنی بات کردیتے تھے۔

سوبھراج ہسپتال کا انچارج بننے کے فوراً بعد میں ایک دن صبح سویرے ساڑھے چھ بجے ان کے پاس پہنچ گیا تھا۔

میں نے انہیں بتایا کہ ہمارے ہسپتال میں تین ایمبولینس خراب ہوکر سیمنٹ کے بلاکوں پر کھڑی ہیں، میں پیسے جمع کر رہا ہوں بہت جلد کوشش کرکے انہیں صحیح کرالوں گا مگر اس عرصے میں مجھے آپ کی مدد چاہیے۔ انہوں نے کہا ’بول‘

میں نے کہا آپ ایک ایمبولینس ہر وقت سوبھراج ہسپتال کے لیے رکھیں کیونکہ رات کو آپریشن کرنے والے ڈاکٹروں کو لانے لے جانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ شہر کے حالات اتنے برے ہیں کہ خواتین ڈاکٹر تنہا گاڑی چلا کر نہیں آسکتی ہیں۔

انہوں نے کہا مل جائے گی۔ انہوں نے اسی وقت کاظمی صاحب کو فون کیا اورمجھے ایک نمبر دے دیا کہ جس وقت بھی ضرورت ہو اس نمبر پر فون کردو پانچ منٹ میں ایمبولینس پہنچ جائے گی۔

اس زمانے کے خطرناک کراچی میں جب سڑکوں پرگولیاں چل رہی ہوتی تھیں، امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب تھی مگر ایدھی کے فرشتے جب بھی ضرورت پڑتی ایمبولینس لے کرآجاتے تھے۔ یہ فرشتے موت کے فرشتوں سے لڑنے آتے تھے۔ ان ماﺅں کو بچانے جو زچگی میں دوروں کے پڑنے کے بعد ہسپتال میں مرنے آتی تھیں۔ وہ ان ماﺅں کے لیے خون لے کر آتے تھے جو خون بہنے کے بعد صرف موت کا انتظار کررہی ہوتی تھیں۔

انور کاظمی صاحب ایدھی صاحب کے بہت پرانے سپاہی ہیں ان کا کئی سالوں کاساتھ ہے۔ کاظمی صاحب اندر سے پیدائشی انقلابی میں، اسکول کے زمانے سے طلبا کی تحریک میں شامل ہوکر این ایس ایف میں کام کرتے رہے۔ معراج محمد خاں اور رشید حسن خاں کے ساتھ کام کیا، سیاسی بنیاد پر جیلیں بھگتیں اور بددیانت سیاسی رہنماﺅں سے مایوس ہوکر ایدھی کے بے نام سپاہی بن گئے اور آج تک انقلابی ہیں جن کے دماغ میں سوشلزم بھرا ہوا ہے اور یہ سمجھتے ہیں کہ مارکس کے اصولوں کواپنائے بغیر سماجی انصاف ناممکن ہے، سرمایہ داری کے بے رحم نظام کے خلاف جدوجہد ضروری ہے۔

میں نے ایک دفعہ کاظمی صاحب سے پوچھا آپ کے ایدھی صاحب کوغصہ آتا ہے۔

انہوں نے فوراً ہی جواب دیا کہ آتا ہے اس وقت آتا ہے جب ان کا کوئی کارکن سستی کرتا ہے خاص طور پر ہنگامی حالات میں، اور انہیں اس کی خبر لگ جاتی ہے۔

میں نے ان سے پوچھا کبھی آپ نے ایدھی صاحب کو غمزدہ بھی دیکھا ہے۔

کاظمی صاحب نے بتایا کہ کئی سال پہلے انہیں خبر ملی کہ کراچی لاہور کے مین ریلوے ٹریک پر گھوٹکی کے قریب ٹرین پٹری سے اترگئی ہے تو وہ فوراً ہی وہاں کے لیے روانہ ہوگئے، وہاں پہنچتے ہی انہوں نے اوران کے کارکنوں نے کام سنبھال لیا تھا۔ زخمیوں کو ڈبوں سے اتار رہے تھے، لوگوں کے لیے کھانا جمع کررہے تھے، انہیں پانی پلارہے تھے اور ان کے صحت کے کارکنان بنیادی مرہم پٹی وغیرہ کا کام کررہے تھے۔

ایسے میں ایدھی صاحب کی بہت چہیتی صاحبزادی کبریٰ کا بیٹا کراچی میں جل کر انتقال کرگیا۔ جس وقت ایدھی صاحب کوخبر ملی وہ شق سے ہوکر رہ گئے تھے۔ وہ خاموشی سے الٹی ٹرین کے پاس اپنے رضاکاروں کے ساتھ دلجمعی سے کام کرتے رہے۔ دو یا تین دن میں جب کام ختم ہوگیا تو ایدھی صاحب وہاں سے نکلے اورکراچی میں سیدھے اپنے نواسے کی قبر پر پہنچ گئے۔ میں نے زندگی میں پہلی دفعہ ان کی آنکھوں سے آنسوﺅں کو اس طرح سے اُبلتے دیکھا۔ وہ وہاں خاموش بیٹھے رہے، روتے رہے، آنسوﺅں نے ان کی داڑھی کو تر کردیا۔ اتنا غمگین، اتنا اُداس عبدالستار ایدھی میں نے کبھی بھی نہیں دیکھا تھا۔ انہیں بتایا گیا کہ کبریٰ کے بیٹے کوایک ورکر نے جان بوجھ کر جلایا تھا وہ روتے رہے اور سسکیوں کے درمیان انہوں نے کبریٰ سے یہی کہا کہ اسے معاف کردو۔ وہ ناقابل معافی کو بھی معاف کردیتے تھے۔ ایسے انسان بہت کم ہوتے ہیں۔ اپنی غلطی کو تسلیم کرنا اور معافی مانگنا ہمارے سماج میں تقریباً ناممکن ہے۔

ایدھی صاحب میں کوئی خامی بھی تو ہوگی؟

کس میں نہیں ہوتی ہے ڈاکٹر صاحب۔ کاظمی صاحب نے مسکرا کر جواب دیا تھا۔ ملک کے حالات نے انہیں کان کا کچا بنادیا تھا، کبھی کبھار وہ دوسرے کے کہنے میں آکر کسی کے بارے میں غلط رائے قائم کرلیتے تھے مگر اچھی بات یہ تھی کہ احساس ہوتے ہی وہ معافی مانگ لیتے تھے۔ معافی مانگنا آسان نہیں ہوتا ہے ڈاکٹر صاحب۔ میں نے کاظمی صاحب کی آنکھوں میں جھلملاتے ہوئے آنسو ﺅں کودیکھا، نہ جانے انہیں کب کی کون سی پرانی بات یاد آگئی تھی۔ کاظمی صاحب نے بتایا کہ ایدھی صاحب کے پاس ایک کاپی ہوتی تھی جس میں وہ بہت ساری باتیں گجراتی زبان میں لکھ لیتے تھے۔ کوئی خاص کام، کسی ورکر کی سرزنش اورکس سے اپنی کسی بات کی معافی مانگنی ہے، کسی کو کسی خاص وقت پر فون کرکے کوئی بات یاددلانی ہے، مشورہ دینا ہے، صلاح لینی ہے۔ وہ روشن خیال تھے، ترقی پسند تھے اور مذہب کے سیاسی استعمال کے سخت خلاف تھے، ساتھ ہی مذہب کی نمائشی ادائیگی کے دشمن تھے۔ وہ صوفی تھے اورساری زندگی سادگی سے زندگی گزارتے رہے، کسی نمائش کے بغیر۔

یہ 1989ء کی بات ہے، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کراچی کے آفس میں ڈاکٹروں نے فیصلہ کیا کہ کراچی کے انتہائی خراب حالات میں شہر میں کچھ رونق لانے کے لیے کراچی سٹی میراتھن کا انعقاد کیا جائے۔ سب لوگوں کی رضامندی سے دھوم دھام کے ساتھ کام کا آغاز کردیا گیا۔ اس زمانے میں پی ایم اے کراچی کے سیکریٹری ہڈیوں کے عوامی ڈاکٹر اشتیاق احمد پاپا تھے، ساتھ میں میرے ہم جماعت نجم فیروز محمودی، شعیب سوبھانی، شبیر نواز، افضل کھنہ اورسندھ میڈیکل کالج کے طالب علم اشتیاق چشتی اور عاصم رفیق مدد کے لیے آگئے تھے۔ وسائل کی شدید کمی تھی۔ مگر کسی نہ کسی طرح سے ٹی شرٹ سے لے کر پانی اورانعامات کے انتظامات ہوگئے تھے۔ میراتھن سے دودن پہلے ہمیں خیال آیا کہ چھبیس میل کے اس راستے میں اگر کسی دوڑنے والے کو کچھ ہوگیا تو کیا ہوگا، فوری طورپر یہی خیال آیا کہ ایدھی صاحب سے مدد لی جائے۔

مجھے یاد ہے کہ میں اشتیاق اورعاصم میٹھادر میں ایدھی صاحب کے پاس چلے گئے۔ انہوں نے ہماری بات سنی اورکہا کہ کتنی ایمبولینس چاہیے۔

میں نے جواب دیا کہ اگر چھ ایمبولینس مل جائیں تو کام ہوجائے گا۔

انہوں نے کہا کہ مل جائیں گی۔

وہ دن ہے اورآج کا دن، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے پچھلے سال کراچی کی اٹھائیسویں اور ہالیجی لیک کی ستائیسویں میراتھن کروائی ہے اور ہر سال ایدھی کی کئی ایمبولینس اس میراتھن کے آغاز سے آخر تک ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔

واہ رے ایدھی صاحب، کیا بات تھی آپ کی۔ نہ غصہ نہ دعویٰ نہ شور نہ شرابا، سچ کی طرح سادہ، دل میں کوئی بات نہ رکھی۔ جس نے ہاتھ پکڑنا چاہا اسے ہاتھ پکڑا دیا، جو غصہ کرنے آیا غصہ کرکے چلا گیا، بے شمار مثالیں ہیں۔

اکتوبر دو ہزار پانچ میں پاکستان کے شمالی علاقے میں زبردست زلزلہ آیا۔ کشمیر سے لے کر اسلام آباد تک متواتر جھٹکوں نے تباہی پھیلا دی، پہاڑ ہِل گئے، نئی جھیلیں بن گئیں، راستے بند ہوگئے، گھر مکان گرگئے، ہزاروں کی تعداد میں بچے، عورتیں اور مرد مر گئے اور ہزاروں کی ہی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے فوری طور پر ڈاکٹروں کو جمع کیا، ڈاکٹروں کا ایک بڑا گروپ لاہور سے اور دوسرا کراچی سے اور تیسرا ملتان سے زلزلہ زدہ علاقے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ کراچی کے ڈاکٹروں کے ساتھ جب میں مظفرآباد کے قریب پہنچا تو اس وقت مظفرآباد جانے والی سڑک پر پہاڑ کا ایک بڑا تودہ پڑا ہوا تھا جسے پاکستان افواج کے انجینئر ہٹانے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔ تودے سے تھوڑی دور ایدھی ایمبولینس کی ایک بڑی قطار تھی جو ایدھی صاحب کے صاحبزادے فیصل کی قیادت میں پہنچی ہوئی تھی۔

فیصل نے مجھے بتایا کہ ایدھی صاحب نے پنجاب اور کے پی کے کی تمام ایمبولینس کو حکم دیا تھا کہ اپنی اپنی ایمبولینس میں آٹے کی بوریاں اور سفید لٹھے کے تھان بھر کر مظفرآباد کی طرف روانہ ہو جائیں۔ کچھ گاڑیاں بالا کوٹ، میرپور اور دوسرے علاقوں کی طرف نکل گئی ہیں اور میں انہیں لے کر مظفرآباد پہنچ گیا ہوں۔

میری ناتجربہ کاری اور بے وقوفی کی انتہا یہ تھی کہ میں سمجھ ہی نہیں سکا کہ ایدھی صاحب نے سفید لٹھے کے تھان لے جانے کا حکم کیوں دیا تھا۔

کئی گھنٹوں کی مسلسل جدوجہد اورکچھ دھماکوں کے بعد پہاڑی تودہ بکھرگیا اور راستہ کھل گیا تھا۔ ایدھی کی ایمبولینس سب سے پہلے شہر میں داخل ہوئی اور صرف ان کے پاس ہی ضرورت کی سب سے اہم چیز کھانے کو آٹا اور دفن کرنے کو کفن موجود تھا۔

میں دل ہی دل میں ایدھی صاحب کے تجربے اور وژن کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکا۔ پھر میں نے دیکھا کہ بہت جلد صوبائی حکومتوں، غیر ملکی امدادی اداروں، مرکزی حکومت کے آفتوں سے نمٹنے والے کمیشن اور کیوبا کے سینکڑوں ڈاکٹروں کے آنے سے قبل ایدھی صاحب کی ایمبولینسوں میں ضرورت کی دوائیں، غلہ، چائے، چینی اور گرم کمبل آنے شروع ہوگئے تھے۔

یہ ایک آدمی، ضعیف العمر کے آخری سالوں میں سرکار سے زیادہ وژن رکھتا تھا۔ میں آج افسوس کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ پاکستان کے فوجی اداروں نے نظام رسل ووسائل کو تو بحال کردیا اورکچھ طبی امداد بھی پہنچانی شروع کردی مگر فوج، صوبائی اورمرکزی حکومت مل کر بھی پیشہ ور لٹیروں سے آفت زدہ لوگوں کونہیں بچاسکے تھے۔ نہ جانے کیسے لوگ تھے وہ جنہوں نے گرے ہوئے گھروں سے قیمتی چیزیں چرالیں، گھروں کے سامنے چکناچور گاڑیوں کے اندر سے ریڈیو اور کیسٹ پلیئر نکال لیے اوربے سہارا ہوجانے والی بچیوں اورلڑکیوں کو اغوا کرکے لے گئے۔ زلزلے کے کافی دنوں کے بعد یہ ممکن ہوا کہ بچیوں کی شناخت کی کارروائی اور اغوا کی روک تھام شروع کی گئی۔ اربوں روپوں کی امداد پانی کی طرح بہادی گئی، حکومت کے اہل کاروں اورسیاست دانوں نے مل کر جو لوٹ مار مچائی وہ ہماری قوم پر ایک سیاہ دھبے سے کم نہیں ہے۔ ایدھی صاحب اکثر اسے بے حسی کا گلا کرتے تھے۔

ایدھی صاحب کے کام کے طریقہ کار سے بہت سے لوگوں کواختلاف ہے مگراختلاف کرنے والے لوگ یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ ایدھی صاحب کن لوگوں کے درمیان کام کررہے ہیں۔ بدعنوانی اور بے ایمانی جس قوم کے بچے بچے سے لے کر بڑوں تک بھری ہوئی ہو، وہاں کام کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ جس قوم کی مسجدوں کے بیت الخلا میں لوٹے اور کولر کے ساتھ پانی پینے کے مگ کو زنجیروں سے باندھ کر رکھا جاتا ہے وہاں فلاحی کام کرنا آسان نہیں ہے۔ وہ ایمبولینس کے پیٹرول کا حساب رکھیں کہ صدقے اور قربانی کے لیے آنے والے چندے کود یکھیں۔ پلنگے میں چھوڑے جانے والے نوزائیدہ بچوں کا خیال رکھیں یا ایدھی ہوم کے معاملات میں الجھے رہیں، ہر جگہ بلقیس ایدھی، کاظمی صاحب، کبریٰ،فیصل اور سعد نہیں پہنچ سکتے ہیں۔ ان نامساعد حالات میں شاید ان کا ہی طریقہ درست ہے جو وہ اپنی فہم اورسمجھ کے مطابق کم از کم خرچ کرکے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے کرتے تھے۔

لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں ایک میٹنگ تھی، میٹنگ کے بعد میں ہسپتال سے نکل کر رکشہ دیکھ رہا تھا کہ بائیں جانب مجھے ایدھی سینٹر کابورڈ نظر آیا۔ میں بجائے رکشہ پکڑنے کے سینٹر کی طرف چلا گیا۔ اندر آفس میں شیر گل بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کی ملاقات کئی سالوں پہلے ایدھی صاحب سے نمک منڈی کے حادثے میں ہوئی تھی جس کے بعد سے وہ ان کے لیے کام کررہے ہیں، میں اس کے ساتھ گپ شپ مارنے لگا۔

کام کیسا چل رہا ہے؟ میں نے پوچھا تھا۔

کام توختم نہیں ہوتا ہے، ہر وقت چلتا رہتا ہے۔ انہوں نے جوابدیا تھا، پشاوربڑا ہوگیا ہے۔ اس نے تفصیل کے ساتھ اپنی سرگرمیوں کی رپورٹ دے دی تھی۔

ایدھی صاحب کی سب سے اچھی بات کیا تھی۔ میں نے یکایک سوال کردیا۔

ان کی دو باتیں اچھی تھیں۔ اس نے بھی فوراً ہی جواب دیا۔

ایک تو وہ اچانک آجاتے تھے، کسی کوبھی پتہ نہیں ہوتا تھا اورایدھی صاحب سینٹر میں مسکراتے ہوئے داخل ہوجاتے تھے۔ میں 17سال سے یہاں کام کررہا ہوں، مجھے لگتا تھا جیسے وہ ہر وقت میرے پیچھے کھڑے ہیں مسکراتے ہوئے اپنی مہربان آنکھوں کے ساتھ۔

میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں میں آنسوجھلملارہے ہیں۔ وہ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوا پھردھیرے سے بولا:

دوسرا وہ جب بھی آتے بھوکے آتے تھے، اورہم سب کے ساتھ یہیں اسی جگہ پر یا بچوں کے شیلٹر ہوم میں سب کے ساتھ مل کر سادہ سا کھانا کھاتے، ہنسی مذاق کی باتیں کرتے اور کھانا کھا کر خاموشی سے روانہ ہوجاتے تھے، نہ ہمیں پتہ لگتا کہ کہاں سے آرہے ہیں اور نہ یہ پتہ ہوتا کہ کہاں جارہے ہیں۔

کنڈیارو کے سرجیکل کیمپ میں جاتے ہوئے میں حیدرآباد ایدھی سینٹر میں رک گیا تھا۔ رضاکار عام دنوں کی طرح اپنے کاموں میں لگے ہوئے تھے، میں انچارج کے کمرے میں جا کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر حال احوال کے بعد میں نے پوچھا کہ ایدھی صاحب کی سب سے اچھی بات کیا تھی۔

سب سے اچھی بات یہ تھی کہ وہ کسی کام کو برا نہیں سمجھتے تھے۔ ہر وقت ہر کام خود سے کرنے کو تیار رہتے تھے۔ ان کی موجودگی میں ہر کارکن کو جیسے چارسوچالیس والٹ کی بجلی لگ جاتی تھی۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کراچی ماﺅں کی موت کے حوالے سے ایک مہم چلارہی تھی، اور ہم پی ایم اے سینٹر کی ڈاکٹر یاسمین راشد، ڈاکٹر شاہد ملک، ڈاکٹر عظیم الدین زاہد اور ڈاکٹر اکرام تونیو کی مدد سے سندھ اور پنجاب کے مختلف شہروں میں ماﺅں کی اموات پر مذاکرے منعقد کررہے تھے۔ مذاکروں میں ڈاکٹروں کے سوالات سے اندازہ ہوا کہ کئی مائیں گھروں سے ہسپتال لائے جانے کے دوران مرجاتی ہیں۔ ہم لوگوں نے سوچا کہ کیوں نہ تجربے کے طورپر ایدھی ایمبولینس کے ڈرائیوروں کو تربیت دی جائے۔

میں اورڈاکٹر حبیب الرحمان سومرو ایدھی صاحب کے پاس گئے اور یہ تجویز پیش کی تو وہ فوراً ہی راضی ہوگئے۔ اس زمانے میں یونیسیف سندھ میں ڈاکٹرآصف اسلم اوریونیسیف اسلام آباد میں ڈ اکٹر صریر آرا کام کرتی تھیں۔ میں نے یہ تجویز ان کے سامنے پیش کی اوران دونوں نے ایدھی ایمبولینس کے تمام ڈرائیوروں اور کارکنوں کے لیے پی ایم اے کی تربیتی کورس کو منظم کرنے میں مدد کی فوری حامی بھرلی۔ ایدھی ایمبولینس کے تمام ڈرائیوروں اور کارکنوں کو پچیس پچیس کے بیجز میں پی ایم اے ہاﺅس میں اس بات کی تربیت دی گئی کہ وہ کیسے حاملہ عورت کو ایمبولنس کے ذریعے ہنگامی صورت حال میں لے جائیں۔ کس طرح سے راستے پر ہنگامی طور پر زچگی کے عمل کو آسان بنائیں اور حاملہ عورت کی مدد کریں۔کورس کی کامیابی کے بعد یونیسیف کی ہی مدد سے کراچی میں ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کی بھی تربیت پی ایم اے ہاﺅس میں ہوئی۔ ایدھی صاحب کی یہی بات بہت عمدہ تھی کہ وہ تجویزوں کو رد نہیں کرتے تھے، وہ سوچتے تھے پھر فوری طورپر چاہتے تھے کہ یہ کام شروع کردیا جائے۔

ایدھی ائیر ایمبولینس کا آغاز ایسی ہی کوشش تھی جس میں انہوں نے فہیم زمان کی مدد حاصل کی۔ این ای ڈی کے ہردلعزیز پروفیسر نعمان صاحب زندگی کے آخر تک ان کے مشیر رہے۔ نعمان صاحب نے ہی انہیں قائل کیا کہ ان کی ایمبولینس میں وائرلیس سسٹم ہونا چاہیے اس زمانے میں نعمان صاحب کی مدد سے تیس ہزار رو پوں کا وائرلیس نظام 18 ہزار میں حاصل کیا گیا۔ جب گاڑی میں وائرلیس لگ گیا تو وہ خودگاڑی میں بیٹھ گئے، وائرلیس آن کیا اوربولے

 حاجی اقبال، حاجی اقبال

راجوہیلو ہیلو

اسماعیل ہیلوہیلو ….کہہ کر وائرلیس کا نظام شروع کردیا۔

وہ ہیلوہیلو ابھی تک چل رہی ہے۔ بوہری بازار کا واقعہ ہو یا سائٹ اور لانڈھی کی آگ، فیصل آباد اور لاہورمیں حادثہ ہو یا کوئٹہ میں قتل، سوات میں طالبان لاشیں پھنکوا رہے ہوں تو بھی ہیلو ہیلو جاری ہے۔

تمہیں چلّے بنانے آتے ہیں۔ صرف یہ ایک سوال ایدھی صاحب نے کیا تھا جب وہ ہمارے گھر مجھ سے ملنے آئے۔ صبا ایدھی صاحب کی بہو اور فیصل ایدھی کی اہلیہ نے مجھے بتایا۔ ہمارا رشتہ طے ہوگیا تھا مگر تاریخ طے نہیں ہوئی تھی۔ وہ ہمارے گھر آئے تھے، میں نے سنا تھا کہ انہیں یہ بات اچھی لگی ہے کہ مجھے پڑھنے کا شوق ہے۔ چلّا میمنوں کا ایک خاص کھاجا ہے جوہر میمن گھر میں بنایا جاتا ہے۔ مجھے میری امی نے بہت کم عمری میں چلّے بنانے سکھادیے تھے۔ ایدھی صاحب گھرآئے، میں نے سلام کیا انہوں نے مجھے غور سے دیکھا اور پوچھا تمہیں چلّے بنانے آتے ہیں ؟

میں نے آہستہ سے کہا تھا جی آتے ہیں۔ پھر ہماری شادی کی تاریخ طے ہوگئی تھی۔ ایدھی صاحب کو چلّے کھانے کا بہت شوق تھا۔ ان کی والدہ انہیں بچپن سے چلّے بنا کر کھلاتی رہیں اوراپنی ماں کی اس یاد کوانہوں نے ہمیشہ اپنے ساتھ رکھا۔ میرا بیٹا سعد اور سارے بچے میٹھادر کے ہی میٹرنٹی ہوم میں پیدا ہوئے، وہ میرے بچوں سے اتنا ہی پیار کرتے جتنا یتیم خانوں کے بچوں سے پیار کرتے تھے۔ وہ میرے بنائے ہوئے چلّے شوق سے کھاتے اور ہمیشہ میرے بچوں کی تعلیم کے بارے میں پوچھتے رہتے تھے۔

سادہ سے چلّے کھانے والے اعلیٰ تعلیم سے محروم عبدالستار ایدھی کے وژن کے بارے میں لوگ ہمیشہ مشکوک رہے۔ لیکن ان کا عمل سادگی تھا، ان کا وژن تعلیم تھا، ان کا خیال تھا کہ ہر ایک کو تعلیم حاصل کرنی چاہیے، وہ سمجھتے تھے کہ شہر اورملک میں امن و امان ہونا چاہیے۔ اسکولوں مدرسوں اور یونیورسٹی میں اسلحہ نہیں ہونا چاہیے۔ انہیں کوئی بھی استعمال نہیں کرسکا، پیپلزپارٹی اور نہ الطاف حسین…. جنرل گل حمید اور نہ عمران خان۔

اس زمانے میں کراچی کے حالات بہت خراب تھے، روزانہ کئی لوگ نامعلوم گولیوں کا نشانہ بن جاتے تھے۔ کوئی بھی محفوظ نہیں تھا، نہ مہاجر نہ پٹھان نہ سرائیکی نہ ہی بلوچ نہ شیعہ نہ سنی۔ ایسے میں ایک شام مجھے خبر ملی کہ دوسرے دن صبح صبح ایدھی صاحب میٹھادر سے قائداعظم کے مزار تک امن واک کریں گے۔ میں اورحبیب الرحمان سومرو صبح صبح فجر کے فوراً ہی بعد میٹھادر پہنچ گئے تھے۔

کوئی زیادہ لوگ نہیں تھے۔ ایدھی صاحب اپنے مخصوص انداز میں تیار بیٹھے تھے۔ ان کے مصمم ارادے کو دیکھتے ہوئے کسی کی ہمت بھی نہیں ہوئی کہ ان سے کہتا کہ اس قسم کی واک خطرے سے خالی نہیں ہے۔ ایدھی صاحب نے سات بجے صبح میٹھادر سے اپنے وہیل چیئر پر واک شروع کی۔ ان کانعرہ تھا ’امن سب کے لیے‘۔ قائداعظم کے مزار تک پہنچتے پہنچتے ان سے محبت کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ان کے ساتھ تھی۔ لوگ گزرتے تھے، رکتے تھے، ان سے ہاتھ ملاتے اورہاتھ چوم کر آگے بڑھ جاتے تھے۔ انہوں نے امن کا پیغام پہنچادیا تھا مگرامن کو برباد کرنے والوں کے سیاسی ایجنڈے میں یہ شامل ہی نہیں تھا کہ کراچی میں امن ہو۔ کراچی والوں نے اس کی بڑی مہنگی قیمت ادا کی ہے۔ ایدھی صاحب کو اس کا بہت درد تھا اوراکثر وبیشتر اس کا اظہار بھی کرتے رہتے تھے۔

ایدھی صاحب کے ایدھی ہوم کے باہر میں نے ایسے ایسے منظر دیکھے ہیں جس سے انسانیت پر میرا اعتبار ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ ایدھی صاحب کا یہ بہت بڑا کام ہے، جوکسی کونظر نہیں آتا ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے جب ایک کار سے ایک بوڑھی خاتون کو اس کا خاندان ایدھی ہوم کے سامنے زبردستی چھوڑ کرچلا گیا۔ وہ خاتون بین کرتی رہی، کہ میں نوکرانی بن کر رہ لوں گی، مگرخاندان والوں نے اس کی ایک نہیں سنی۔ اس وقت ایدھی ہوم میں دو ہزار کے قریب بوڑھے مرد اورایک ہزار سے زائد بوڑھی خواتین رہتی ہیں جنہیں عزت کے ساتھ کھانا ملتا ہے، ان میں اکثروہ ہیں جن کا کوئی والی وارث نہیں ہے یا وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے گھر والوں نے گھر سے نکال دیا ہے کیونکہ خاندانی وجوہات کی بنا پر انہیں گھر پر نہیں رکھا جاسکتا تھا۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر یہ ایدھی ہوم نہیں ہوتا تو فقیر مردوں اور عورتوں کا یہ گروہ کراچی کے پیشہ ور فقیروں کے ساتھ کراچی میں کیا کررہا ہوتا۔

ایدھی صاحب کے دروازے ہر ایک کے لیے کھلے ہوئے تھے۔ ہندوستان کی ہندولڑکی، گھر سے مار کھاکر آنے والی زخمی بیوی، گھرسے نکالی جانے والی بیٹی، بیوہ بہو یا وہ بے چاری تاجک، ازبک لڑکیاں جنہیں کراچی کے ایک مافیا نے پاکستان میں نوکری دینے کے بہانے سے بلایا پھر انہیں سخت پہرے میں طوائف بنا کر شہر کے امیر اور عیاش لوگوں کی خواب گاہوں کی زینت بنادیا۔ مجھے ذاتی طور پر پتہ ہے کہ بچ کر آنے والی ان بے بس لڑکیوں کوکس طرح سے ایدھی صاحب کے حکم کے مطابق فیصل نے ذاتی جدوجہد کرنے انہیں واپس اپنے ملکوں میں پہنچایا۔

ہر تھوڑے دنوں کے بعد کسی نہ کسی ملک کا نمائندہ، سفیر، قونصلیٹ ایدھی صاحب کوعلاج کے لیے اپنے ملک لے جانا چاہتا تھا۔ وہ صاف جواب دے دیتے تھے۔ وہ پاکستانی ہیں، اپنے آپ کو عام شہری سمجھتے ہیں اور عام کراچی کے غریب آدمی کی طرح سول ہسپتال میں جا کر اپنا علاج کراتے رہیں گے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے جسم کے سارے اعضا مرنے کے بعد استعمال کرلیے جائیں۔ ان کے انتقال سے قبل جب میں نے اپنے کلاس فیلواور کراچی میں آنکھوں کے بینک کے سربراہ قاضی واثق کوبتایا کہ ایدھی صاحب نے اپنے کورنیا کے بارے میں وصیت لکھ دی ہے تو قاضی نے کہا تھا کہ کاش سارے لوگ ایدھی صاحب کی طرح ہوجائیں تو سیکڑوں لوگوں کی بینائی بحال ہوجائے گی۔

ان کا انتقال ہوا اور انتقال کے فوراً بعد ان کے بھتیجے اور ہمارے ایک اورکلاس فیلو ماہر چشم ادریس ایدھی نے ان کی دونوں چمکتی ہوئی آنکھوں سے کورنیا نکال کر دو انسانوں کی آنکھوں کو روشن کردیا۔

انسان ایسے ہوتے ہیں جو مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں دوسروں کی آنکھوں میں چمکتے رہتے ہیں۔

رات کے ایک بجے کے قریب فیصل کا فون آیا کہ ایدھی صاحب کی طبیعت صحیح نہیں ہے۔

میں نے پوچھا کہ میں آجاﺅں ؟

اس نے کہا نہیں، آنے کی ضرورت نہیں ہے میں تو صرف ویسے ہی فون کررہا تھا۔ آج دوپہر کو ہی وہ ایس آئی یو ٹی سے ڈائی لیسس کرا کر آئے ہیں لیکن ابھی کچھ بے چین بے چین سے ہیں۔

فون پر بات کرنے کے بعد فیصل کے منع کرنے کے باوجود میں میٹھادر کے لیے روانہ ہوگیا۔ فیصل مجھے دیکھ کر تھوڑا حیران سا ہوگیا۔ لیکن میں نے کہا کہ میرا دل نہیں کر رہا تھا، کہ میں نہ آﺅں۔

میٹھادر کے استقبالیہ کے پیچھے ایک سادہ سا کمرہ ہے جہاں ایک بستر پر ایدھی صاحب لیٹے ہوئے تھے میں فیصل کے ساتھ اندر گیا تو ایدھی صاحب نے پوچھا کون ہے؟

ڈاکٹر آیا ہے ایدھی صاحب۔ فیصل نے جواب دیا۔

کون ڈاکٹر؟ ایدھی صاحب نے پوچھا۔

شیرشاہ، فیصل نے ذرا زور سے کہا۔

اوہ کمیونسٹ! انہوں نے ایسے مخصوص انداز میں باآواز بلند کہا تھا۔

میری آنکھوں میں آنسو آگئے ایدھی صاحب کی منہ سے اپنے لیے کمیونسٹ ہونے کا اعزاز کوئی معمولی اعزاز نہیں تھا۔ میرے دل میں شرمندگی سی بھی ہوئی کہ انہوں نے مجھے مولانا حسرت موہانی اور مولانا عبیداﷲ سندھی کی صف میں کھڑا کردیا تھا۔ کاش میں ان لوگوں کی طرح کمیونسٹ ہوتا۔ میں ان کے قریب جا کر ان کے بستر پر بیٹھ گیا اور ان کے ہاتھوں کوپکڑکر آہستہ آہستہ دبانے لگا۔ کمرے کی دھیمی روشنی میں ان کے چہرے پر ایک خاص کیفیت تھی، بے چینی کے باوجود وہ ہلکا سا مسکرائے اوربولے۔

ڈاکٹر، وکیل اورمُلاں (مُلا کو وہ ن غنہ کے ساتھ ملا کر بولتے تھے) ان لوگوں نے پاکستان کو برباد کردیاہے، اگر یہ ٹھیک ہوں تو پاکستان بھی ٹھیک ہوجائے۔ مجھ میں ہمت نہیں تھی کہ میں ان کی اس سچائی سے اختلاف کرتا، پھر وہ ہنس دیے تھے۔ان کی وہ معصوم سی کسی بچے والی ہنسی میرے آنکھوں کے سامنے جھلملاتی رہتی ہے۔ یہی ایک ان کی آخری تصویر مجھے یاد ہے اوریاد رہے گی۔

ان کی طبیعت واقعی میں صحیح نہیں تھی۔ میں نے فیصل سے تو کچھ نہیں کہا لیکن مجھے اندر سے خوف سا ہوگیا کہ ایدھی صاحب کے جانے کا وقت آگیا ہے۔

دو دن کے بعدمیں پھر رات گیارہ بجے کے قریب میٹھادر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ پولیس کی کچھ گاڑیاں وہاں سے جارہی تھیں۔ میں ایدھی صاحب کے کمرے میں پہنچا تو فیصل نے بتایا کہ سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ اپنی بیٹیوں نصرت شاہ اورنگہت شاہ کے ساتھ ایدھی صاحب سے ملنے آئے تھے، میں تھوڑی دیر وہاں بیٹھا رہا اور سوچتا رہا کہ اب اس صوفی کا دربار بند ہونے والا ہے۔

دوسرے دن مجھے نصرت کا فون آیا، وہ سخت حیران تھی کہ ایدھی صاحب اتنی زیادہ سادہ زندگی گزارتے ہیں۔ میں نے اسے بتایا کہ گزشتہ کئی سالوں میں میں نے انہیں ایسے ہی دیکھا ہے، ملیشیا کے پاجامہ قمیض میں ملبوس، سیدھی سادی زندگی، سادہ سا کھانا، سچ بولنا کسی کینہ اور منافقت کے بغیر اور ہر وقت کہیں بھی کسی بھی جگہ مدد کے لیے جانے کو تیار۔

اوپر جانے کے لیے بھی وہ ایسے ہی تیار تھے۔

میں امریکہ میں تھا جب مجھے ان کی وفات کی خبر ملی اور ایک فلم کی طرح ان کی زندگی کے کچھ حصے میری آنکھوں کے سامنے سے گزرتے چلے گئے۔

پاکستان واپس آکر میں ائیرپورٹ سے سیدھا فیصل ایدھی کے پاس گیا، وہ ایدھی صاحب کے کمرے میں ان کے ہی بستر پر بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے فیصل سے کہا کہ ”یار مجھے ایدھی صاحب کے کپڑوں کا ایک جوڑا چاہیے۔“

ایدھی صاحب کے پاس کپڑوں کے دو جوڑے تھے، اس نے مجھے جواب دیا، ان کی وصیت کے مطابق انہیں ان کے پہنے ہوئے کپڑوں کے جوڑے میں دفن کردیا گیا ہے۔ دوسرا جوڑا میرے پاس ہے۔ فیصل نے جواب دیا اور سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا۔

میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں نے کہا نہیں یہ جوڑا تم ہی رکھو۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).