کراچی والے اور ڈھاکہ


میں کراچی والی ہوں !
جی ہاں مجھے اپنے کراچی والے ہونے پہ بہت فخر ہے۔
کراچی والے اپنے آپ کو کراچی والا کہنے پہ بہت حد تک مجبور بھی ہیں، کیونکہ جب کراچی والوں کو کراچی میں بسایا گیا تو کراچی دارلخلافہ تھا، لیکن پاکستان کے پہلے ڈکٹیٹر نے فساد کا بیج بویا اور ایک نئے ملک کو ایک نیا دارلخلافہ عطا کیا۔

حال ہی میں دو روز کے لئے اسلام آباد جانا ہوا ، واپسی پر ٹیکسی سے ایرپورٹ جانے کے لیے اوبر کی ٹیکسی بک کروائی، صبح صبح ہلکی بارش میں نئے ایرپورٹ جانا بہت اچھا لگا ، اچھا لگنے کی وجہ یہ تھی کہ اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ میں اسلام آباد میں تمیز کے کیپٹن اور اچھی ٹیکسی میں سفر کر رہی تھی۔ جب سفر شروع ہوا تو انہوں نے کہا بیٹا کیسے آنا ہوا؟ اور پھر باتوں کا طویل سلسلہ شروع ہوا۔ انکل اعلیٰ تعلیم یافتہ انتہائی سلجھے ہوئے تمیز کے آدمی تھے ۔ ایک دم سے انکل نے مجھ سے پوچھا بیٹا کیا ایسٹ پاکستانی ہو؟

میں بہت حیران ہوی پھر حیرت پے قابو پانے کے بعد جواب دیا کہ میرے والدین وہاں سے ہیں فال کہ بعد سے کراچی میں رہتے ہیں، ہم سب بہن بھائیوں کی پیدائش کراچی کی ہی ہے۔ انکل مسکراتے ہوئے گویا ہوئے تم تو چھوٹی ہو میں تمہارے امی ابا کا ہی پوچھ رہا ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے خاندان کے بہت سے لوگ ایسٹ پاکستانی ہیں اور انکے والد بھی بہار سے انیس سو پچاس میں پنڈی آ ے اور پھر یہاں کے ہی ہو گئے۔ پھر انہوں نے اسلام آباد کیسے اپنی آنکھوں کے سامنے بنتے دیکھا یہ اور کس طرح ابتدا سے ہی ایسٹ پاکستانیوں کے ساتھ تفریق پہ پاکستان کی بنیاد میں نقص ڈالا گیا اس پے بات شروع کی۔

ایوب خان نے پاکستان کو دور رس نقصانات پہنچائے ہیں اور اسلام آباد کی پلاننگ میں ابتدا سے دو قومی نظریہ تھا جو اس وقت کے لوگوں کو صاف نظر آتا تھا۔ جس وقت اسلام آباد بنایا جا رہا تھا تو سرکاری کوارٹر جو آبپارہ کے نام سے ہیں انکو “رمنا” کا نام دیا جاتا چونکہ رمنا وہاں کی جگہ کا نام ہے، عام طور پر وہ تمام افسران جو مائیگرینٹس تھے انہیں رمنا میں کوارٹر ملا کرتے اور جو افسران ویسٹ پاکستانی تھے انہیں “راؤل” میں۔ راؤل میں ایف 6 اور ایف 7 ہیں ۔

دونوں علاقوں کا فرق صاف ظاہر ہے۔ انکل ڈھاکہ کے فال کو یاد کر کے دکھی ہو رہے تھے کہنے لگے میرے بچپن کا وہ سب سے خوفناک دن تھا پورا شہر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ اور پھر خبر آئی کہ ہتھیار ڈال دیے گئے پاکستان ٹوٹ گیا، وفاق کے بہت سے بنگالی ملازمین روتے ہوئے واپس گئے۔ سارے فساد کی جڑ وہ ہی ڈکٹیٹر تھا نہ جب جڑ میں ہی زہر ڈال دیا جائے تو انجامِ کیا ہوگا ؟ اور یوں ہم ایئرپورٹ پہنچنے نیا چمکتا ہوا ایرپورٹ دیکھ کہ میں انکل کو بھول ہی گئی، ابھی عمارت اتنی تازہ ہے کہ نئے پن کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔

پچیس جولائی 2018 کیوں کہ الیکشن کا دن تھا اس لیے ساری پرائیوٹ ائرلائنز کی پروازیں منسوخ ہو گئ تھیں اور صرف پی آئ اے کے جہاز جا رہے تھے اور دو گھنٹے لیٹ تھے ۔ اب مجھے دوبارہ انکل اور انکی باتیں یاد آ نے لگیں۔ اپنے ایک آرٹیکل کا لنک انہیں ایس ایم ایس کرنے کے بعد میں انکی باتیں سوچنے لگی اور دور اپنی یونیورسٹی کے دور میں چلی گئی۔

جب میں طالب علم تھی تو کلاس کے ایک سندھی لڑکے کی ہمارے گروپ سے لڑائی ہوئی ، جاتے ہوئے اس نے ہم سب کی طرف حقارت کی نظر ڈالتے ہوئے کہا

” چپ کرو تم سب پناہ گیرے بھگوڑے پنجاب والے تو ٹرین رکنے نہیں دیتے تھے ہم نے تمہیں سمندر میں غرق ہونے سے بچایا ہے اب ہمارے منہ کو آتے ہو ” ۔

میں نے گھر آکر اپنی والدہ کو یہ واقعہ دکھی دل کے ساتھ سنایا تو وہ مجھ سے بھی زیادہ دکھی ہو کہ کہنے لگیں یہ کوئی نئی بات نہیں تم نے پہلی بار سنا ہے۔ کوئ تمہاری نسل کو یہ بات کیسے سمجھاے کے جب پاکستان بنا تو مہاجرین کو دارلخلافہ میں بسایا گیا۔ نہ وہ کم بخت دارلخلافہ تبدیل کرتا نہ ہم یوں ہمیشہ مہاجر رہتے۔

آج کی نئی نسل کو یہ باتیں معلوم بھی نہیں ، ایک روز میں نے اپنے اسٹوڈنٹس سے ایسٹ پاکستان کے حوالے سے سوال کیا تو ستائیس میں سے دو کو پتا تھا کہ پہلے پاکستان کے دو حصے تھے۔ اور اب پچھلے تین سالوں سے ڈھاکا کے فال کو مٹانے کے لیے اے پی ایس کے حادثے کو اس طرح ہر میڈیم پے نشر کیا جاتا ہے کہ رہی سہی کسر بھی پوری ہوگئی۔
پاکستان زندہ باد!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).