غصے کا سیانا: درپن بنا اُسامہ


 

قصبے کے اکلوتے ہند و خاندان کا چشم و چراغ درپن انگریز سرکار کی آخری نشانی کینال ریسٹ ہاؤس میں ملازم تھا۔ ریسٹ ہاؤس سرکاری تھا مگر ایک طاقتور سیاسی گھرانے کے استعمال میں تھا جس کا اکلوتا بیٹا میرا دوست تھا۔ اس لئے میں جب بھی بغل میں کتابیں دبائے ریسٹ ہاؤس میں داخل ہوتا تو درپن گنگناتا ہوا لان میں میز کرسی لے آتا ، دن میں دو بار چائے پلاتا اور ایک بار اپنی سُریلی آواز میں کوئی گیت سناتا۔ سردیوں کے دن تھے ، میں دن چڑھنے سے غروب ِ آفتاب تک ریسٹ ہاؤس میں امتحانات کی تیاری کرتا اور اس دوران اگر مجھے بسکٹ وغیرہ کی ضرورت ہوتی تو وہ اونچے سُر لگاتا ، بالوں کو پھونکیں مارتا ، زگ زیگ سائیکل چلاتا یوں جاتا او ر ووں حاضر ہوجاتا۔

کوئی دو ہفتے تک تو یہ معمول رہا لیکن بعد میں اچانک مجھے محسوس ہوا کہ جیسے درپن پہلے والا درپن نہیں رہا۔ اُسے چپ سی لگ گئی تھی۔ اس نے گانا تو کیا گنگنانا بھی کم کردیا تھا۔ اُس کے چہرے پر ایسا کرب تھا جو کسی ایسے شخص کے چہرے پر دکھائی دیتا ہے جس کا کسی پلاس سے ناخن کھینچ لیا گیا ہو۔

 میں نے ایک آدھ بار اس کی تکلیف کی وجہ پوچھی تو اس نے کسی گھریلو مسئلے کا کہہ کر ٹال دیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ دن بہ دن اس کی سنجیدگی اور خاموشی بڑھتی جارہی ہے مگر ایک روز جب میں ریسٹ ہاؤس پہنچا تو اس کا چہرہ تو معمول سے زیادہ اترا ہوا تھا مگر وہ خلاف توقع باہیں کھولے میری طرف بڑھا ، مجھے گلے لگا لیا اور پھر چند لمحے بعد پیچھے ہٹ کر کہنے لگا :

’’ اب آپ مجھے گلے بھی لگا سکتے ہیں۔ میں نے دھرم بدل لیا ہے۔ اب میرا نام درپن نہیں اسامہ ہے ‘‘۔

یہ سن کر مجھے اس کے چپ رہنے کی وجہ یہ سمجھ آئی کہ وہ کوئی بڑا مگر تکلیف دہ فیصلہ کرنے کی تیاری کررہا تھا۔ کوئی ایسا فیصلہ جس سے دُکھ سے بھی بڑا ہوتا ہے۔ مگر اس نے یہ کیسے سوچ لیا کہ اگر وہ دھرم نہ بدلتا تو میں اسے گلے نہ لگاتا۔ ہم نے ہوش سنبھالا تو اس کے خاندان کو قصبے میں آباد دیکھا اور کسی نے بھی ان کا دھرم بدلنے کی کوشش نہیں کی۔ کسی نے بھی انہیں ہندو ہونے کا طعنہ نہیں دیا۔

 ہم بچپن میں اس خاندان کے بچوں کے ساتھ ہولی دیوالی مناتے رہے اور اس کے بچے ہمارے ساتھ عید۔ مگر قصبے میں بیرونی فنڈنگ سے بننے والی ایک مسجد تعمیر ہونے کے بعد اس خاندان کو دھرم بدلنے کا کہا جانے لگا تھا۔ لیکن پھر بھی۔ اس نے یہ کیسے سوچ لیا کہ اگر وہ مجھے گلے ملنے کی کوشش کرے گا تو میں اسے دھتکار دوں گا ؟

 یہ سب خیالات اس وقت میں میرے ذہن میں آئے جب وہ مین بلڈنگ میں میرے لئے چائے تیار کررہا تھا۔

 چند لمحے بعد وہ چائے لے کر آیا اور پوچھنے لگا کہ مجھے اس کا نیا نام کیسا لگا ہے۔

میں نے کہا نام تو اچھا ہے مگر مجھے حیرت کیونکر ہو جب ہر گھر سے ایک اُسامہ نکل رہا ہے۔ میں نے ہلکے پھلکے انداز میں اُسے بتایا کہ میں جس نجی سکول میں پڑھاتا ہوں اس کی ہر ایک کلاس میں کوئی پانچ سے چھ اُسامہ نام کے بچے ہیں۔ اب تو مرحوم والدین کو دائمی ثواب پہنچانے کا نسخہ بھی یہی ہے کہ اپنے بیٹے کا نام اُسامہ رکھ لیں۔ یہاں تک کہ ہمارے ہمسایوں نے اپنے بچے راول کا نام اُسامہ ہی رکھ لیا ہے۔

 ’ہم ہر گھر سے بھٹو کے نکلنے کا خواب دیکھتے رہے مگر نکل اُسامہ رہا ہے‘۔

’’اور پھر تمہیں یہ کس نے کہہ دیا کہ اگر تم دھرم نہ بدلتے تو میں تمہیں گلے نہ لگاتا۔ تم نے یہ کیسے سوچ لیا کہ میں کسی اسامہ کو تو گلے لگا سکتا ہوں درپن کو نہیں‘‘؟

میں نے بہت پیار سے اس کے کندھوں پر تھپکی دیتے ہوئے کہا مگر میری بات سن کر اُس کا رنگ بدل سا گیا اور وہ سائیکل لے کر ریسٹ ہاؤس سے نکل گیا۔

میں نے پہلی بار اسے گنگنائے بغیر اور بالوں پر پھونک مارے بنا سیدھی سائیکل چلا کر جاتے دیکھا۔

مجھے وقتی طور پر اپنی بات پر اس کا ردِ عمل سمجھ نہ آیا اور جب آیا تو میں کتابیں اٹھا کر فوراً گھر چلا آیا۔

 گھر پہنچا تو ظہر کا وقت تھا۔ میں دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد ایک بار پھر پڑھنے بیٹھا تو مجھے محسوس ہوا کہ میرا ذہن درپن کے غیر متوقع ردِ عمل پر مرکوز ہے اور مجھے کسی واقعے کا انتظار ہے۔ میں اس کے ردِ عمل کے محرکات پر ابھی غور کررہی تھا کہ گھر کے مین گیٹ پر دھم دھم کی آواز سنائی۔ کوئی زور سے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔

 میں فوراً باہر نکلا اور کیا دیکھتا ہوں کہ وہ اُسامہ جو ابھی کل تک درپن تھا بیرونی فنڈنگ سے بننے والی مسجد کے مولوی اور کوئی سات نمازیوں کے ساتھ میرے گھر کے سامنے موجود تھا۔ اب درپن کے چہرے کے ساتھ اس کی آنکھیں بھی لال ہوچکی تھیں۔ میں نے اس کی بجائے مولوی صاحب سے ان کی آمد کی وجہ پوچھی۔ اس دوران اسامہ اچھل اچھل کر مجھ پر حملہ کرنے کے لئے آگے بڑھتا رہا ، نمازی اُسے روکتے رہے مگر اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

جب اُسے اچھی طرح جکڑ لیا گیا تو مولوی صاحب نے پہلے تو اُسے درپن سے اسامہ بنانے کی داد طلب کی اور پھر یہ بتایا کہ اسامہ اس لئے غصے میں ہے کیونکہ میں نے اسے یہ کہہ دیا ہے کہ مذہب بدلنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

یہ سن کر میں نے مولوی صاحب کو سارا واقعہ سنایا تو انہوں نے پہلے تبسم فرمایا اور پھر ہجوم کو وہاں سے جانے کا اشارہ کرتے ہوئے مجھے کچھ دُور لے گئے اور بتایا کہ غیر مسلموں کے ساتھ میل جول سے پرہیز اور ان کے ساتھ مل بیٹھ کر نہ کھانے کی حکمت یہ ہے کہ جب وہ مذہب تبدیل کریں تو انہیں پہلی بار عزت کا احساس ہو۔ اس سے پہلے نہیں ! اگر کوئی اس سے پہلے انہیں عزت کی سہولت فراہم کرتا ہے تو اس کا نتیجہ یہی نکلے گا جو میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں۔ مولوی صاحب یہ حکمت بیان کر کے چلے گئے مگر میرے نزدیک درپن (اسامہ) کے اس غیر متوقع، سنگین اور خطرناک ردِ عمل کی وجہ کچھ اور تھی۔

مذہب کوئی بھی ہو ماننے والے کو عزیز ہوتا ہے۔ اسے یہ چھوڑنے پر مجبور کیا جائے اور عزت اور محبت جیسی بنیادی انسانی ضرورت کو عقیدہ تبدیل کرنے سے مشروط کردیا جائے تو انسان کو ناقابلِ برداشت دُکھ ہوتا ہے۔ میں آج بھی یہ سمجھتا ہوں کہ درپن کو غصہ مجھ پر یا مجھ جیسوں پر نہیں اس ہجوم پر تھا جو عزت اور محبت دینے کے لئے مذہب بدلنے کی شرط رکھتے ہیں۔ اس نے سارا غصہ مجھ پر نکال دیا کیونکہ غصے کا وہ بھی سیانا تھا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments