آخر کارروہنگیا پر عالمی ضمیر جاگ اٹھا


بالآخر سات لاکھ بے گناہ روہنگیا مسلمانوں کی نقل مکانی اور بے پناہ مصائب جھیلنے کے بعد عالمی ضمیر بیدار ہونا شروع ہوچکاہے۔اقوام متحدہ کے ایک خصوصی مشن نے طویل تحقیق اور تفتیش کے بعد کہا ہے کہ میانمار کی فوج نے نسل کشی کی نیت کے ساتھ وسیع پیمانے پر روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام اور عورتوں کی آبروریزی کی۔

اقوام متحدہ کے تفتیشی کمیشن نے جو رپورٹ پیش کی وہ پڑھ کرآنسوئوں اور حواس پرقابو پانا ممکن نہیں رہتا۔سوال یہ ہے کہ کیاآج کے زمانے میں بھی کوئی ملک اپنے شہریوں کو محض نسلی امتیاز اور مذہبی تفاوت کی بنا پر گاجر مولی کی طرح کاٹ کر پھینک سکتاہے؟

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی طرف سے گزشتہ برس قائم کیے گئے اس خصوصی مشن کی رپورٹ میں کہاگیا کہ میانمار کی فوج کے اقدامات بین الاقوامی قانون کے تحت نسل کشی اور جنگی جرائم میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ میانمار کی فوج نے خواتین کی بڑے پیمانے پر عزتیں پامال کیں۔بچوں کا استحصال کیا اور دیہات کے دیہات جلا کر بھسم کرڈالے۔رپورٹ میں سلامتی کونسل سے سفارش کی گئی کہ وہ عالمی فوجداری عدالت یا خصوصی عدالت تشکیل دے کرمیانمار کے فوجی سربراہ مِن آنگ ہلینگ اور پانچ اعلیٰ کمانڈروں کے خلاف جنگی جرائم اور نسل کشی کے تحت تادیبی و تعزیری کارروائی شروع کرے جو نسل کشی کے جرائم میں شریک ہیں یا جنہوں نے ایسا کرنے کا حکم دیا۔

یاد رہے کہ بوسنیا، روانڈااور جنوبی سوڈان کے بعد میانمار وہ واحد ملک ہے جس پر نسل کشی کا الزام لگا ہے اور اب عالمی ادارے اس کے خلاف سرگرم ہوچکے ہیں۔اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے شائع ہونے کے چند دن بعدفیس بک انتظامیہ نے میانمار کے فوجی سربراہ سمیت اٹھارہ افسران کے اکاؤنٹس بند کردیئے کیونکہ وہ ان کے ذریعے نسلی اور مذہبی تناؤ کو ہوا دے رہے تھے۔

اکانومسٹ جیسے عالمی ہفت روزہ نے نہ صرف اقوم متحدہ سے اس رپورٹ پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا بلکہ کہا کہ سلامتی کونسل کو میانمار کے جنرلوں کے بارے میں جلد فیصلہ کرنا چاہیے۔خدشہ کا اظہارکرتے ہوئے جریدہ لکھتاہے : ممکن ہے کہ چین سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی قرارداد کو ویٹو کردے لیکن کم ازکم دنیا کو یہ تو معلوم ہوجائے گا کہ کون کہاں اور کس کے ساتھ کھڑا ہے۔

اکانومسٹ لکھتا ہے کہ اگر ایسا نہیں کیاجاتاتو اس مطلب ہوگا کہ عالمی برادری ’’قصابوں‘‘ کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ واشنگٹن میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بھی میانمار کی فوج پر ’’انسانیت کے خلاف جرائم‘‘ میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔

وائس آف امریکہ کے مطابق امریکی نائب صدرمائیک پینس نے کہا کہ یہ ’’تاریخی بے دخلی‘‘ کا معاملہ ہے۔وائس آف امریکہ کے مطابق اب تک روہنگیا بحران پر کسی اعلیٰ امریکی اہل کار کی جانب سے یہ سخت ترین بیان ہے۔انہوں نے اقوام متحدہ میں قیام امن پر مامور کمیٹی کے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ دنیا میانمار میں ’’ایک بڑا سانحہ رونما‘‘ ہوتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ تشدد کی کارروائی اور ہلاکتوں کی تصاویر دیکھ کر امریکی عوام، اور دنیا بھر کے لوگوں کو دکھ پہنچا ۔اگرچہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک اور انہیں شہریت نہ دینے کا معاملہ کئی دہائیوں سے چلا آرہاہے لیکن 2016ء کے آخر میں میانمار کی فوج نے راکھان جو کہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے پر دھاوا بول دیا ۔

کریک ڈاؤن میں ظلم و ستم کی ایسی ایسی داستانیں رقم کیں کہ نازیوں کو بھی مات دے دی۔ گزشتہ برس اگست سے فوج نے زیادہ بڑے پیمانے پر نسل کشی اور گاؤں کے گاؤں مسمار کرنا شروع کردیئے۔چنانچہ ہجرت اور نقل مکانی کی رفتارمیں کئی گنااضافہ ہوا۔

لوگ جان بچا کر بڑی مشکل سے بنگلہ دیش کی سرحد پر پہنچتے رہے جہاں کی حکومت انہیں پناہ تو فراہم کردیتی ہے لیکن وہ روہنگیا مسلمانوں کو خوش دلی سے قبول نہیں کرتی اور نہ ہی اس کی اپنی معیشت مہاجرین کابوجھ اٹھانے کے قابل ہے۔

مغربی ممالک نے اس خدشے کے باوجود کہ اسٹرٹیجک اہمیت کا حامل ایک ملک ان کی نکتہ چینی سے چین کی جھولی میں گرسکتا ہے میانمار کی حکومت پر ہر ممکن دباؤڈالا کہ وہ انسانی حقوق کی پامالی سے باز آجائے۔امریکہ، کینیڈا اور یورپی یونین نے میانمار کے فوجی کمانڈروں پر کئی طرح کی پابندیاں عائد کیں

یہ مغربی ممالک کا دباؤ ہی تھا جس نے میانمار کو آمادہ کیا کہ سلامتی کونسل کے ایک وفد کے ساتھ روہنگیا مسلمانوں کی وطن واپسی کے حق پر رضا مندی ظاہر کرے۔ چین اور روس نے نہ صرف اس انسانی المیہ پر عمومی طور پر خاموشی اختیار کیے رکھی بلکہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میانمار کی حکومت سے دفاعی اور سفارتی تعلقات میں گہرائی پیدا کرلی۔

وزیراعظم مودی کی حکومت نے بھی روہنگیا کی مہاجرت پر اصولی موقف اپنانے کے بجائے بھارت کے اندر موجود روہنگیا مسلمانوں کے لیے عرصہ حیات تنگ کرنا شروع کردیا۔ سخت گیر جماعتوں کے لیڈروں نے روہنگیا مسلمانوں کو بھارت کی سلامتی کے لیے خطرہ قراردے کر انہیں ملک بدر کرنے کے مطالبات کیے۔

بھارت کو فکر ہے کہ مغرب کے دباؤ کے نتیجے میں میانمار چین کا اتحادی نہ بن جائے چنانچہ وہ انسانی حقوق کی پامالیوں پرتوجہ کرنے کے بجائے میانمار کی حکومت کو ترقیاتی منصوبو ں کے لیے رقم فراہم کرکے ایک ظالم حکومت کے ہاتھ مضبوط کرتاہے۔

روہنگیا دنیا کی بدقسمت ترین قوم ہے۔صدیوں سے میانمار میں بسنے کے باوجود انہیں تعلیم مل سکی، نہ روزگار۔شہریت تو دور کی بات ہے۔ ملک بدر بھی ہونا پڑا وہ بھی اس حال میں کہ سفر میں موت سائے کی طرح تعاقب کرتی رہی۔بچے بلک بلک کر ماں باپ سے بچھڑگئے۔

عورتوں کے ساتھ اذیت ناک سلوک ہوا لیکن مسلمان جو امت واحدہ کا دعویٰ کرتے ہیں اور تیل اور سونے کے قیمتی ذخائر پر بیٹھے ہوئے ہیں وہ ان کے لیے کچھ بھی نہ کرسکے۔ اوآئی سی ایک ایسا ڈیبیٹنگ کلب ہے جہاں صرف پرمغز تقریریں کی جاتی ہیں۔ سوال یہ پیداہوتاہے کہ جب مسلمان ممالک پر مشتمل اتحاد یا تنظیمیں کسی بھی اجتماعی مسئلہ میں کوئی کردار ادا کرنے کے قابل نہیں توپھران کے اجلاسوں اور دفاتر پر اربوں روپے کا خرچ کیوں کیاجاتاہے۔

مسلمان ممالک کی حکومتوں کو اپنے گریبان میں جھانک کر دیانت داری سے جائزہ لینا چاہیے کہ وہ کیسے بے عملی کے موجودہ ماحول سے باہر نکل سکتے ہیں۔ ہنگامی بنیادوںپر ایسے اقدمات تجویز کیے جائیں جن سے روہنگیا مسلمانوں کو راحت پہنچانے اور انہیں واپس اپنے وطن میں جانے اور بحالی میں مدد دی جاسکتی ہو۔ ان کے کیمپوں کی حالت زار دیکھنے کے قابل نہیں۔

جس حال میں یہ مہاجرین رہتے ہیں ان میں کسی انسان کا زندہ بچ جانا ایک معجزے سے کم نہیں۔بنگلہ دیش کی حکومت کی مدد کی جائے تاکہ وہ ریلیف اور بحالی کا آپریشن تیزی رفتاری کے ساتھ مکمل کرسکے۔

بشکریہ نائنٹی ٹو

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood