احمدیوں کو معاف کر دیجیے


تحریر سے قبل، پیشِ تحریر: میں احمدی نہیں، شکریہ۔

مہاتما گاندھی کہہ گئے تھے کہ کسی بھی معاشرے کے مہذب ہونے کا اک پیمانہ یہ ہے کہ دیکھا جائے وہ معاشرہ اپنے ہاں موجود جانوروں کو کیسے ٹریٹ کرتا ہے۔ انسانی تہذیب تھوڑا آگے بڑھی تو جدید جمہوریت کی پٹڑی پر چڑھے ممالک نے یہ اصول بھی متعین کر دیا کہ کسی ریاست کے مہذب ہونے کا اک پیمانہ یہ ہے کہ وہاں اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے۔

پاکستان، جو 97 فیصد مسلم اکثریت والا ملک ہے، اپنے تئیں اسلام کے تحفظ کا خود ساختہ ٹھیکیدار بنا ہوا ہے، اور یہ ریاست کی سوچی سمجھی پالیسی ہی تھی جس میں مذہب کو ریاست کو جوڑنے والا صمد بانڈ بنا کر استعمال کیا گیا۔ پچیس سال بھی نہ ہوئے اور اک بازو الگ ہو گیا، اور باقی رہ جانے والے پاکستان میں اب ہر گزرتے برس کے ساتھ یہ ثابت ہوتا چلا جا رہا ہے کہ یہ صمد بانڈ بہت پتلا ہو چکا، اور اس میں ریاست و معاشرے کو جوڑنے کی صلاحیت بھلے باقی ہو، ریاست میں جاری سیاست کی ہیئت کی نسبت کہیں کم ہے۔ اگر کم نہ ہوتی تو بلوچ، سندھی، پشتون، اور اب تو پنجابی بھی مذہب نہیں، سیاست کی کجی کی بنیاد پر مرکز گریز جذبات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔

صمد بانڈ کا یہ نشہ اب ختم ہو جانا چاہیے، خدارا۔

حالیہ الیکشنز کی کمپین میں ختم نبوتؐ کے معاملہ پر تمام جماعتوں نے اپنی اپنی ٹھیکیداری کی۔ یہ سلسلہ کیپٹن صفدر صاحب کی اسمبلی میں تقریر سے شروع ہوا، اور پھر ریاست کے اصل والدین نے، گالیوں نے بین الاقوامی ماہر، جناب مولانا خادم رضوی کے ذریعے، پہلے سے یتیم سیاسی حکومت کو بذریعہ دھرنا اک کڑی سزا دی، اور حالیہ وزیر اعظم کو بھی جیسے انگلی کا اک اشارہ تھا، اور خاتم النبینؐ کہنے سے معذور، عمران نیازی صاحب نے ختم نبوتؐ کے نام پر چلتی گرما گرم مذہبی، سماجی و سیاسی دکانداری میں حصہ بقدر جثہ ہاتھ ڈالا، اور کام آگے بڑھایا۔

ابھی پرسوں سے میاں عاطف صاحب کے نام پر بہت لے دے ہو رہی ہے اور معیشت جیسے غیرمذہبی، غیرجذباتی اور صرف حقیقت پر چلنے والے علم میں بھی یار لوگ ان کا مبینہ طور پر احمدی ہونا گھسیٹ گھساٹ کر لے آئے۔ امام دین ببلی صاحب کی حکومت کو تو جو درے پڑ رہے ہیں، وہ پڑ رہے ہیں، ساتھ ساتھ میں ”اسلام امن کا دین ہے“ کا ورد کرنے والے پاکستانی مسلمان اور ان کے مذہبی سیاستدانوں کی مزید اصلیت بھی سامنے آ رہی ہے۔ اور یہ سارے کا سارا بدبودار، کریہہ اور قےآور منظر ہے۔ علم کا اگر عقیدے سے کوئی تعلق ہوتا، تو صاحبان، سعودی عرب آج پوری کائنات کا سپہ سالار ہوتا، جبکہ صورتحال یہ ہے کہ یمن کا قضیہ سنبھالنے سے قاصر ہے۔

میں میاں عاطف صاحب کے علم کے حق میں ہوں۔ انہیں اگر جدید معاشیات کا علم ہے تو پاکستانی ریاست کو ان کے ٹیلنٹ سے لازما فائدہ اٹھانا چاہیے، اور انہیں اکنامک ایڈوائزری کمیٹی کے ممبر کے طور پر برقرار رکھنا چاہیے۔ مذہب و عقیدے کے نام پر اندھی نفرت کے اس بےعقل طوفان کے سامنے اک سیاسی اور معاشرتی بند باندھنے کی ضرورت ہے۔

اور اگر یار لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے، تو بسم اللہ کیجئے، ریاست کے عظیم و مہان مہمان، جناب محترم احسان اللہ احسان سے ہی ریاست و وطن کی معیشت سازی کروا لیجیے، یا ان کے بہترین بریلوی مدمقابل، خادم حسین رضوی صاحب کی خدمات حاصل کر لیجیے۔ احسان اللہ احسان تو خود آگ کے بنے جِن ہیں، جنات سے جناب خادم حسین رضوی صاحب کی بھی یاری کافی زیادہ ہے۔ یاد رہے کہ کچھ جن نظر بھی آ جاتے ہیں۔

پنجاب میں احمدیوں کے خلاف بہت زہر ہے۔ باقی صوبوں میں بھی ہو گا، مگر پنجابی مسلمان، عربوں سے بھی زیادہ مسلمان بننے کے چکروں میں رہتا ہے۔ پانچ نمازوں کے بعد، شام میں چکن کڑاہی کھا کر سٹیج ڈراموں کی اداکاراؤں کی سرپرستی کرنا بھی نہیں بھولتا۔ حالیہ بحث کو بھی پنجابی ہی شدت سے آگے لے کر بڑھ رہا ہے، اور یہ حماقت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ صلاحیت علم کی محتاج ہوتی ہے، عقیدے کی نہیں۔ پنجابی مسلمان خود پر بھی رحم کرے اور اس ملک پر بھی کہ احمدیوں پر پہلے ہی زمین بہت تنگ ہے، ان کو مزید کونے میں دھکیل کر اسلام اور عقیدے کی کیا ”مزید“ خدمت ہو سکتی ہے، کم از کم میرے فہم میں تو یہ بات سمانے سے قاصر ہے۔

ویسے بالخصوص پنجابی مسلمان، اور بالعموم پاکستانی مسلمان پر احمدیوں کا اک بہت بڑا احسان بھی ہے: ہزاروں نہیں، لاکھوں پاکستانی، جعلی احمدی بن کر بیرون ملک گئے، اور کچھ تو وہاں جا کر دانشور بھی بن گئے۔ اب اک اگر جانا مانا احمدی، پاکستان کے معاشی فائدہ کے لیے اپنے علم سے ریاست میں بہتری لا سکتا ہے، تو ان لاکھوں جعلی احمدیوں کے ہی سر صدقے جو کروڑں ڈالروں کا زرمبادلہ ہر ماہ بھیجتے ہوں گے، میاں عاطف صاحب کو کام کرنے دیجیے۔

کام کرنے دیجیے کہ کام سے ہی شانداریت آتی ہے۔ بلند آواز نعروں سے نہیں۔ آوازوں میں سب سے بلند آواز گدھے کی ہوتی ہے جو لاؤڈ سپیکر کے بغیر ہی یہ کام سرانجام دے لیتا ہے، اور اللہ کے آخری نبیؐ نے بلند آواز کو ناپسند بھی فرمایا ہے۔

حکومت و ریاستِ پاکستان کو میاں عاطف صاحب کا نام ہر حال ایڈوائزری کمیٹی میں برقرار رکھنا چاہیے۔ اور اگر ان کی کارکردگی حسب توقع نہ رہی، صرف تب ہی ان سے بات چیت کر کے انہیں خدا حافظ کہنا چاہیے۔ سماج یا لاؤڈ سپیکروں میں سے اٹھنے والی بلند آوازوں کی وجہ سے ان کی خدمات حاصل کرنے سے انکاری ہونا، درست عمل نہ ہو گا۔

باقی ریاست جانے اور اس مسئلے کے ساتھ پِنگ پانگ کھیلنے والے جانیں۔ میں اب اپنی کافی پیوں گا۔
پسِ تحریر: اللہ کے آخری نبیؐ کی قسم، میں احمدی نہیں۔ پڑھنے کا بہت شکریہ!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).