آج تک کسی ٹھیک لڑکی کو خراب نہیں کیا


سلفی یار کچھ شرم کر اس سے تمھاری دوستی بنتی نہیں ہے۔ وہ کافر ہے کچھ حیا کر لے۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ تمھیں سلفی ہم کیوں کہتے۔ سلف سٹارٹ ہوتے ہو اس وجہ سے تھوڑی کہتے ہیں۔ ابے تو شدت پسند ہے۔ کم از کم اپنی سوچ پر تو پکا رہ۔

کیا بک بک کر رہے ہو وسی۔ کون کافر ہے۔ یار وہی کافر ہے جو ہے۔ اچھا وہ لیکن وہ تو میرا دوست ہے۔
دوست ہے تو کیا ہوا کافر بھی تو ہے۔

نہیں یار وہ مجھے کافر نہیں لگتا۔ وہ پختون ہے بس غیرت کر بیٹھا ہے۔ اب کافر پیدا ہو گیا ہے تو کافر ہے۔ ورنہ ٹھیک ٹھاک بندہ ہے۔

اچھا سلفی اک لطیفہ سن۔ میرا اک دوست اک جانے مانے کافر کو اپنے ساتھ جھنگ لے گیا۔ وہاں خطاب سنایا، خطاب سنتے سنتے وہ کافرجذباتی ہو گیا اور نعرے لگانے لگ گیا۔ کافر کافر۔ کافر۔
وسی یہ جتنے مرضی نعرے لگا لے یہ کافر ہوتے کافر ہی ہیں۔
تمھارا دوست پھر کیوں صرف پختون ہے۔ کافر نہیں ہے۔
یار وہ میرا دوست ہے۔ کافر بھی ہے تو انسان ہے۔

انسان سے یاد آ گیا نیلی بار کے جانگلی چور کا تباہ کن کفری جملہ اس سے میں نے پوچھا تھا کہ خدا کے بارے تمھارا کیا خیال ہے۔ اس کا جواب ہولناک تھا ”سائیں خدا اچھا انسان نہیں ہے“۔ یہ سن کر سکتہ سا طاری ہو گیا صرف اتنا ہی پوچھ سکا کہ کیوں یار اس نے کیا کیا۔ تو جانگلی بولا ”سائیں دنیا ایسے چلاتے ہیں بھلا وہ انصاف نہیں کرتا“۔

یہ سن کر اگلا سوال ظاہر ہے پھر پیغمبرؐ کے بارے ہی بنتا تھا۔ جواب میں پورے درود کے ساتھ ہاتھ آنکھوں سے ہوتے ہوئے ہونٹوں کی جانب گئے تھے اسی جانگلی کے۔ ”وہ تو رحمت تھے ہم انسانوں کے لیے“۔

یہ بتاؤ کسی کو پیسوں لے کر قتل کرو گے۔
نہ سائیں انسان کو قتل نہیں کرنا چاہیے۔ ویسے خنس ہو تو اس کی لت وڈھ دیو ہتھ وڈھ دیو مارو نہیں۔ انسان کی عزت ہی کرنی بنتی ہے۔ لات بانہہ کٹے انسان کو عزت مند چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں۔

لوفر سراپا لوفر تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ لڑکی اک ہی کام واسطے ہوتی ہے۔ اسلام آباد میں اس سے ملاقات ہوئی تھی پہلی بار۔ سال تھا پچانوے۔ گھر گلی کا نمبر اس نے فیڈ کر رکھا ہوتا تھا۔ سارا دن اپنا ڈاٹا بنک امپروو کرتا رہتا تھا۔ گھر سے روزہ رکھ کر ہمارے ڈیرے پر آ جاتا۔ ہم روزے میں اس کے لیے بیکری کا سامان لاتے رہتے۔

اکثر اس کے لیے کسی دوپہر کو کمرہ بھی خالی کرنا پڑتا۔ جب وہ کسی کو ہمراہ لیے پہنچ جاتا۔ سب کو ہی برا لگتا تھا۔ پتہ نہیں ہم کیوں اسے دوست رکھتے تھے۔

اک دن دو لڑکیوں کو لے کر پہنچ گیا پریشان حال۔ اس دن ہمارے دوست نے ہمت کی اور لوفر سے کہا آج تو ہمارے لیے بھی انتظام ہے۔ جواب میں اک تھپڑ پڑا اسے۔ ”بکواس نہیں کرنی“ یہ بھی سننے کو ملا۔

لوفر نے بتایا کہ وہ دفتر سے گھر جا رہا تھا۔ راستے میں اسے کراچی کمپنی کے پاس یہ دو لڑکیاں گواچی گاں کی طرح پھرتی دکھائی دیں۔ پتہ نہیں کیا سوچ اور کیا سمجھ کر انہیں جا کر ملا۔ پھر ڈیرے پر لے آیا۔ ہمیں کھانے کو کچھ لانے کو بولا۔

لڑکیوں گھر سے بھاگ کر آئی تھیں۔ لوفر نے پھر دل لگا کر انہیں سمجھایا دیکھو بیٹا ایسا نہیں کرتے۔ تسلی دلاسے ہمت دلاتا رہا۔ ان کے گھر رابطہ کیا۔ گھر والوں کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ اک تسلی بخش سی کہانی گھڑی۔ گھر والوں کو بلا کر بہت عزت احترام سے لڑکیوں کو ان کے ساتھ رخصت کیا بہت سے تحفے دے کر اپنی بیٹیاں مان کر۔

اس ساری کہانی کا حصہ رہا۔ بعد میں لوفر سے پوچھا کہ یار آپ تو لوفر بھی پورے نہیں ہو۔ جواب تھا لوفر تو میں ہوں انسان بھی ہوں۔ الحمدللہ آج تک کسی ٹھیک لڑکی کو خراب نہیں کیا۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi