مولانا کے من کی من میں رہ جائے گی


اگر آخری وقت میں اعتزاز احسن یا مولانا صاحب میں سے کوئی ایک بیٹھ نہ گیا تو ڈاکٹر عارف علوی با آسانی صدر بن جائیں گے۔ آخری عمر میں بھاگ جاگنا بھی ہر کسی کا مقدر نہیں ہوتا۔ اللہ ڈاکٹر علوی کو لمبی زندگی دے، بہت نفیس آدمی ہیں لیکن آج کل مارے خوشی کے پھولے نہیں سماتے اور ایسی بے خودی سے ہنستے ہیں گویا خود کو محبوب کے سپرد کرتے ہوئے کہہ رہے ہوں، ” لٹ لے سردارا میں وی تیری تے سائیکل وی تیرا“۔ ڈاکٹر صاحب کھلکھلانے کا بہانہ ڈھونڈتے ہیں بالکل ہوں جیسے خان صاحب تنقید سن کر بہک جانے کا۔

ویسے تین مہینے تک بہکنے کا خطرہ نہیں رہا اور تین ماہ بعد قوم خان صاحب سے پوچھے گی، ”بلی بلی۔ “ پہلے لطیفہ سن لیں۔ ایک بندے کے ہاتھ شیر آگیا۔ اس نے شیر کو ٹانگوں سے باندھ کر کمرے میں لٹا دیا اور روز صبح اٹھ کر اس کی ٹھکائی شروع کر دی۔ جب بھی فراغت ہوتی وہ بندہ شیر کی ڈنڈوں، سوٹوں سے تواضع کرتا۔
=
شیر بہت غرایا، بولا، بھڑکا، بہکا اور وہاں موجود ایک بلی سے کہنے لگا، “ ایک بار یہ بندہ میرے ہتھے چڑھ گیا تو سڑکوں پر گھسیٹوں گا، پیٹ پھاڑ دوں گا، بوٹیاں نوچ لوں گا۔ لیکن دن گزرتے گئے، کر کچھ نہ سکا۔ بلی بھی انتظار کرتی رہی کہ کب شیر کی بڑھک بازی ختم ہو گی اور کب نظر میں آئے بے داغ سبزے کی بہار، لیکن، شیر بے چارہ ”بھونک بھونک“ کر تھک گیا اور ایک دن بڑی لجاجت سے اس نے بلی سے پوچھا، ” بلی بلی! میں جدوں تیرے جنا ہو جاواں گا تے مینوں چھڈ دے گا؟ “ یعنی ”بلی بلی جب میں تم جتنا ہو جاؤں گا تو مجھے چھوڑ دے گا“۔

تین ماہ بعد قوم تنقید نہیں کرے گی بل کہ بلی سے پوچھے گی کہ ” خان صاحب مجھے اس وقت معاف کر دیں گے جب میں بلی جتنی ہو جاؤں گی“۔ اللہ کا شکر ہے اعتزاز اور مولانا میں سے کوئی ایک دوسرے کے حق میں بیٹھ نہیں گیا ورنہ مولانا کو سپریم کمانڈر تسلیم کرنا ذرا مشکل ہوتا کیونکہ پے در پے جنگوں ( افغان وار اور دہشت گردی کے خلاف جنگ) نے مولانا کی اہمیت کو دو چند کیا ہے ورنہ پاکستانی قوم نے کبھی سیاست میں مذہبی رحجان کو پسند نہیں کیا۔

یہ اور بات ہے کہ برے وقتوں میں وزیرستان میں سرکاری گاڑیاں بھی نان سٹیٹ ایکٹرز کے حملوں سے بچنے کے لیے مولانا کی پارٹی کا جھنڈا لگا کر پھرتی رہیں ہیں۔ بجا کہ مولانا پر حملے بھی ہوئے لیکن انٹیلیجنس وار میں یہ سب چلتا ہے۔ دن میں جو دوست ہو رات میں دشمن بنا ہوتا ہے۔ اگر اعتزاز صدر ہوں تو حلف اٹھاتے اٹھاتے شام پڑ جائے گی۔ ویسے کٹنگ وغیرہ کروا کر اعتزاز بڑے باؤ بنے ہوئے ہیں لیکن انہوں نے پچھلے کچھ عرصہ میں بڑی بری سیاست کی ہے۔ اعتزاز لگی لپٹی رکھے بغیر سچ کو سچ کہنے کے لیے مشہور ہوئے تھے لیکن مصلحتوں کا شکار ہو گئے۔

بعض اوقات تاریخ آپ کو دھکا دیتی ہے اور آپ خود پر اعتماد نہ ہوتے ہوئے بھی کمال دکھا جاتے ہیں بلکل اس بیٹسمین کی طرح جو بے دلی سے اننگز کا آغاز کرتا ہے لیکن کھیلتے کھیلتے ریکارڈ بنا دیتا ہے۔ اعتزاز احسن کو بھی قسمت نے وکلاء تحریک کے بعد یہ موقع دیا لیکن اعتزاز کچھ سمجھوتوں میں پھنس کے رہ گئے حالانکہ اس سمجھوتہ کے نتیجہ میں حاصل بھی کچھ زیادہ نہیں کیا۔

آج اعتزاز احسن کہہ رہے ہیں کہ زرداری کے بڑے احسانات ہیں حالانکہ یہ احسانات اس وقت یاد نہیں آئے جب افتخار چوہدری کی بحالی تحریک میں زرداری صاحب دیوار کے ساتھ لگے ہوئے تھے۔ بعد میں سینیٹ کا خراج ادا کرنے کے لیے موت سے برسر پیکار کلثوم نواز کی بیماری کو سیاسی شعبدہ بازی قرار دیتے رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).